ہندوستان میں اسلامی سامراج

ایم اے خان

51T4QAKBycL._SX331_BO1,204,203,200_ہندوستان دنیا کا ایسا خطہ ہے جہاں آٹھویں صدی سے لے کر بیسویں صدی تک دو غیرملکی حکمران، عرب مسلمان اور انگریز(برطانوی) قابض رہے۔ 712 ء میں مسلمان حکمران محمد بن قاسم نے ہندوستان میں قدم رکھا اور 1857 کے غدر کے بعد باقاعدہ مسلمانوں کے اقتدار کا خاتمہ ہوا ۔ برطانوی سامراج جس کی ابتداء 1757 ء کو ہوئی تھی کا خاتمہ 1947 ء کو ہوا۔ محمد بن قاسم نے دمشق میں موجود مسلمان خلیفہ الولید اور بغداد کے گورنر حجاج بن یوسف کی آشیر باد سے، 712 ء میں ہندوستان پر حکمرانی کا آغاز کیا ۔ 1590ء تک مسلمان حکمران شہنشاہ اکبر تقریباً پورے ہندوستان پر قابض ہو چکا تھا۔ اورنگ زیب کے دور (1657-1707) میں اس سلطنت میں کچھ اضافہ ہوا۔

سنہ1757ء میں بنگال کے حکمران نواب سراج الدولہ اور ایسٹ انڈیا کمپنی کی افواج کے درمیان پلاسی کے مقام پر جنگ ہوئی جس میں نواب سراج الدولہ کو شکست ہوگئی اور اس شکست سے ہندوستان میں مسلمان حکمرانی کے خاتمے کا آغاز ہو ا جو1799 ء میں آزاد مسلمان حکمران سلطان ٹیپو کی شکست سے اس حکمرانی کا خاتمہ ہو گیا۔ 1850 میں پنجاب پر قبضہ کے بعد ہندوستان کے بڑے حصے پر انگریز قابض ہو گیا۔ انگریز حکمران نے شروع میں مسلمان حکمرانوں کو کٹھ پتلی حکمران کے طور پر برقرار رکھا لیکن 1857 کے غدر کے بعد ان حکمرانوں کوبھی ہٹا دیا گیا اور 1858 میں باقاعدہ برطانوی حکومت کا آغاز ہو ا۔ہندوستان کے قوم پرست رہنماؤں کی ایک لمبی جدوجہد کے بعد بالآخرانگریز نے 26جنوری 1947 کو ہندوستان چھوڑنے کا اعلان کیا اور چودہ اور پندرہ اگست کو ہندوستان برطانوی تسلط سے ہو گیا ۔ کئی صدیوں کے غیر ملکی تسلط کے بعد یہ خطہ دو نئے ملک پاکستان اوربھارت تقسیم ہوا جو آزادانہ طور پر اپنے مستقبل کا تعین کر سکتے تھے۔ 

ہندوستان میں دو بیرونی قوتوں نے حکمرانی کی لیکن تاریخ دان اور دانشور صرف برطانوی حکومت کو ہی سامراج قرارد یتے ہوئے اس سے نفرت کا اظہار کرتے اور برا بھلا کہتے ہیں۔ہندوستان میں مسلمان حکمرانوں کا دور، جو کہ سب سے زیادہ لمبا تسلط کا دور تھا ، کو جان بوجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ تاریخ دان اور لکھاری چاہے وہ پاکستان ، بنگلا دیش یا بھارت سے تعلق رکھنے والے ہوں، مسلمان حکمرانوں کے دور کو مثبت انداز میں دیکھتے ہیں اور 190 سالہ برطانوی سامراج کی مذمت کرتے ہوئے ان کی لوٹ مار کا ذکر کرتے ہیں جو انھوں نے اس خطے میں کی۔ لیکن اس کے مقابلے میں مسلمان حکمران کئی صدیوں تک اس خطے میں جو قتل و غارت اور لوٹ مار کرتے رہے اس کا ذکر کم ہی ہوتا ہے۔جب بھی ہندوستان میں مسلمان حکمرانو ں کا ذکر ہوتا ہے تو اسے ایک فلاح و بہبود سے بھرپور شاندار دور سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ حتیٰ کہ نہرو بھی ایک جگہ اپنی کتاب میں مسلمان حکمرانوں کے مظالم کا ذکر کرنے کی بجائے لکھتے ہیں کہ ’’ اسلام کی وجہ سے ہندوستان میں ترقی کا عنصرآیا‘‘ ۔۱۔

آج ہندوستان سمیت پوری دنیا کے مستقبل کو سب سے بڑا خطرہ بڑھتی ہوئی مسلم انتہا پسندی اور عسکریت پسندی(طالبان، القاعدہ ، داعش، الشباب وغیرہ)سے ہے جس کی جڑیں مسلم حکمرانی کے دور میں پائی جاتی ہیں جبکہ برطانوی تسلط یا سامراج، جس پر مسلسل لعن طعن کی جاتی ہے، نے ہندوستان میں ایسے کوئی اثرات نہیں چھوڑے تھے جو اس کے مستقبل کے لیے خطرہ ثابت ہوں۔ ہندوستان کے روشن خیال دانشور، برطانوی سامراج کے خلاف کھل کر گفتگو کرتے ہیں اور اس کی خرابیاں گنواتے نہیں تھکتے لیکن اسلامی سامراج پر خاموش ہو جاتے ہیں ۔ تاریخ دان ، دانشوراور لکھاری اسلامی حملوں کے ان تفصیلات اور ان کے اثرات پر بحث نہیں کرتے جو درحقیقت ہندوستان کے مستقبل پر اثر انداز ہورہی ہیں۔ ایسے ہندو مورخ جو مارکسسٹ سوچ رکھتے ہیں وہ بھی مسلمانوں کے دور حکومت کو ایک شاندار دور سے تعبیر کرتے ہیں۔

تاریخ دانوں،دانشورں کایہ رویہ دراصل مسلمان حکمرانوں کے دور کے حقائق سے چشم پوشی کے مترادف ہے جن کا ذکر خود مسلمان مورخوں نے کیا ہے۔ یہ یورپین نوآبادی کی اتنی مذمت کرتے ہیں کہ ان ممالک کے دانشور اس پر اکثر شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے یہ تسلیم کرتے ہیں کہ انھوں نے ان علاقوں میں زیادتیاں روا رکھیں۔ ابن واراق ہندوستان میں برطانوی تسلط کی مذمت کے متعلق لکھتا ہے کہ ’’ 1947 کی آزادی کے فوراً بعد ہندوستانی تاریخ دانوں نے’’قومیت‘‘ پر مبنی جو تاریخ لکھی اس میں ہندوستان کی تمام خرابیوں اور ناکامیوں کا ذمہ دار سلطنتِ برطانیہ کا استحصالی دور ٹھہرایا گیا ‘‘۔۲۔

حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ آج کے جدید ہندوستان میں تعلیم کا شعبہ ہو یا صحت، ایڈمنسٹریشن ہو یا گڈ گورننس یامذاہب کا احترام اور انسانی حقوق یہ سب کچھ انگریزوں کے دور کی وجہ سے ہے جس کے خلاف ہمارے تاریخ دان اور دانشور چیختے چلاتے درہتے ہیں۔ 

ابنِ واراق مزید لکھتا ہے کہ کہ مسلمان حکمرانوں نے مشرقِ وسطیٰ سے لے کر ہندوستان، یورپ اور افریقہ پر اقتدار کے لیے جو حملے کیے اورقتل و غارت کیاس پر کسی نے توجہ نہیں دی جبکہ مسلمان بڑے فخر سے اس کو شاندار دور کہتے ہیں۔ آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس OIC کے ترکی سے تعلق رکھنے والے سیکرٹری جنرل اکمیل الدین کا مطالبہ ہے کہ ترکی کو یورپی یونین میں اس لیے شامل کیا جائے کیونکہ ماضی میں مسلمانوں کی یورپ کے لیے بہت خدمات ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’اسلام کا یورپ پر بہت احسان ہے اور یہ یورپ کی تہذیب و تمدن کا بانی عنصر ہے‘‘۔ پانچ صدیوں تک عثمانیوں نے بالکز میں حکمرانی کی اور آٹھ صدیوں تک اندلس پر راج کیا اس لیے اسلام کو بیرونی عنصر کہہ کر رد نہیں کیا جا سکتابلکہ اسلام یورپین تہذیب کا بنیادی عنصر ہے۔۳۔

آج ہندوستان کے خطے (بھارت ، پاکستان اور بنگلہ دیش) کے استحکام اور اس کے مستقبل کو مسلمان انتہا پسندوں اور عسکریت پسندوں، طالبان اور القاعدہ جن میں مقامی لوگ اور غیر ملکی عرب شامل ہیں، سے خطرہ لاحق ہے۔ لہذا یہ ضروری ہے کہ برطانوی استعمار کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں اسلامی استعماریعنی مسلمان حکمرانوں کی یلغار اور طرز حکمرانی سے متعلق ایک معروضی تجزیہ کیا جائے ۔

اسلامی فتوحات اور حکمرانی
آج کا ماڈرن تاریخ دان اور دانشور اس بات کا بڑا چرچا کرتے ہیں کہ انگریز کی آمد سے پہلے ہندوستان میں ہندو اور مسلمان آپس میں انتہا ئی امن و چین اور باہمی رواداری سے رہ رہے تھے لیکن جیسے ہی انگریز ہندوستان پر قابض ہوا تو اس نے لڑاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی اپنائی اور ہندو اور مسلمان کی یہ لڑائی آج تک چلی آرہی ہے۔اگر غیر جانبداری سے تاریخ کے بنیادی ماخذ اور مسلمان حکمرانوں کے طرز حکمرانی کو دیکھا جائے تو یہ دعویٰ کہ انگریز سے پہلے ہندو اور مسلمان باہمی اتفاق سے رہتے تھے ، بالکل غلط ثابت ہو تا ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جیسے ہی مسلمان حملہ آور ہندوستان میں آئے اسی وقت سے ہندو اور مسلمان میں اختلاف پیدا ہو گیا تھاا ور دونوں کبھی بھی امن سے نہ رہے۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ مسلمان حملہ آور جو کئی صدیوں تک ہندوستان پر حملہ کرتے رہے ان کا طرز حکمرانی کیا تھا۔

محمد بن قاسم کا حملہ
اسلام کا پیغام پھیلانے کے لیے حجاج بن یوسف نے چھ ہزار افراد پر مشتمل ایک لشکر تیار کیا اور اس حکم کے ساتھ ہندوستان بھیجا کہ تمام مردوں کو قتل کر دیا جائے اور عورتوں اور بچوں کو غلام بنا لیا جائے ۔ سندھ کے شہر دیبل کو فتح کرنے کے بعد محمد بن قاسم کے لشکر نے تین دن تک قتل عام کیا ۔ برہمن آباد میں چھ ہزار سے سولہ ہزار مسلح افراد کو قتل کیا گیا ۔ ملتان میں تمام مسلح افراد کو قتل کیا گیا۔۴۔

چچ نامہ کے مطابق راور میں محمد بن قاسم کی فوج نے ساٹھ ہزار افراد کو غلام بنایا‘‘۔ محمد بن قاسم نے تین سال کے دوران ، ہندوستان کا دفاع کرنے والوں کو بڑے پیمانے پر قتل کیا، عورتوں اور بچوں کو غلام بنایا۔ ان کے مندر ڈھادیئے ،مورتیاں اور بت توڑ دیئے گئے ، بتوں کو توڑکر بے شمار دولت اکٹھی کی اور ان کی جگہ مساجد تعمیر کی گئیں ۔

سلطان محمود غزنوی کا حملہ
سلطان محمود غزنوی نے (1000-1027) ہندوستان پر سترہ حملے کیے ۔ یہ حملے محمد بن قاسم کے حملے سے زیادہ شدید تھے جن میں پہلے سے زیادہ قتل وغارت اور لوٹ مار کی گئی اور عورتوں اور بچوں کی ایک بڑی تعداد کو غلام بنا لیا گیا۔ ہندوستان سے جو دولت لوٹی گئی اسے خمس کہا گیا ۔ سلطان محمود کی شمال مغربی ہندوستان میں لوٹ مار کے متعلق مسلمان مورخ ’’العطبی‘‘ لکھتا ہے کہ ’’کالے بادلوں میں تلواریں چمکتی تھیں اور خون کے پھوارے پھوٹتے تھے ۔ خدا کے دوستوں نے مخالفین کو شکست فاش دی ۔۔۔ مسلمانوں نے خدا کے مخالفین سے بھرپور انتقام لیا اور پندرہ ہزار افرا کو جہنم واصل کیا جو کئی دن تک جانوروں اور پرندوں کی خوراک بنے۔۔۔ اللہ نے انھیں بے شمار دولت کے علاوہ پانچ لاکھ غلاموں سے بھی نوازا جس میں خوبصورت مرد او ر عورتیں تھیں‘‘ ۔۵۔

العطبی مزید لکھتا ہے کہ 1008میں سلطان محمودنے ننگرکوٹ (کانگڑہ) پر قبضہ کیا یہاں سے سات کروڑ درہم کی مالیت کے سکے اور سات لاکھ من سونا اور چاندی کے ساتھ ساتھ قیمتی پتھر اور کڑھائی شدہ کپڑا لوٹا ۔ 1011 میں سلطان محمود نے تھانسیر پر چڑھائی کی تاکہ یہاں اسلامی تعلیمات پھیلائی جا سکیں اور بت پرستی کا خاتمہ ہو سکے۔اس جنگ میں کافروں کو بے دردی سے قتل کیا گیا اور ندیوں کے پانی کا رنگ اتنا تبدیل ہو گیا کہ وہ پینے کے قابل نہ رہا۔ سلطان نے بے تحاشا دولت کے ساتھ واپس لوٹا جس کا شمار ممکن نہیں تھا۔ یہ سب اللہ تعالیٰ کی مدد، جو اس نے مسلمانوں پر کی، کے بغیر ممکن نہیں تھا‘‘ ۔۶۔

العطبی مزیدلکھتا ہے ’’قنوج پر حملے کے وقت وہاں کے لوگوں کو کہا گیا کہ یا تو اسلام قبول کرو ورنہ لڑائی کے لیے تیار ہو جاؤ ۔ سلطا ن نے یہاں سے بے شمار دولت اورقیدی (غلام) قبضے میں کیے۔ دولت اتنی تھی کہ اس کا شمار کرتے کرتے انگلیاں تھک جاتی تھیں۔ بے شمار لوگ اپنی جانیں بچانے کے لیے بھاگ کھڑے ہوئے جو بھا گ نہیں سکے وہ مارے گئے ۔ سلطان نے ایک ہی دن میں سات قلعوں پر قبضہ کر لیا اور اپنے لشکر کو وہاں لوٹ مار کی اجازت دی۔۷۔

غوریوں کے حملے
ہندوستان میں اسلا می حکومت قائم کرنے کے نام پر تیسری بڑی یلغار 12ویں صدی کے آواخر میں غوریوں نے کی اور 1206ء میں حکمران ہوئے۔ فارسی تاریخ دان حسن نظامی اپنی کتاب ’’ تاج المسیر‘‘ میں لکھتا ہے کہ محمد غوری نے اجمیر کو فتح کرنے کے بعد وہاں سے ایک لاکھ ہندوؤں کو جہنم واصل کیا اور بے شمار دولت، سونا، ہیرے اور جواہرات ، لوٹی ۔ سلطان غوری نے جب دہلی کی طرف رخ کیاتو اپنے راستے میں آنے والوں کو خون میں نہاتا چلا گیا ۔۸۔

سنہ 1193ء میں محمد غوری کے جرنیل قطب الدین ایبک نے علی گڑھ میں سینکڑوں ہندؤں کو جہنم واصل کیا۔ ان کی لاشوں کے تین بڑے مینار بنائے گئے اور ان کے مردہ جسم جانوروں کی خوراک بنے۔یہاں سے بتوں کا مکمل صفایا کیا گیا اور کفر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا گیا۔۹۔

نظامی لکھتا ہے کہ ’’ قطب الدین ایبک نے بنارس کی طرف چڑھائی کی جو کہ ہندوستان کا مرکز تھا ۔ یہاں اس نے تقریباً ایک ہزار مندروں کو ڈھا کر مساجد تعمیر کیں۔ اسلامی شرعیت نافذ کی اور اسلامی حکومت کا آغاز ہوا ۔ جنوری 1197ء کو قطب الدین نے ایبک نہاروالہ کی طرف بڑھا جو کہ گجرات کا صدر مقام تھا یہاں 50 ہزار کافروں کو جہنم واصل کیا اور لاشوں کے ڈھیر لگائے کہ پہاڑی اور میدانی علاقوں میں کوئی تمیز نہ رہی۔ 20ہزار افراد کو غلام بنا لیا گیا اور ان کے جانور قبضے میں کر لیے گئے۔حسن نظامی قطب الدین ایبک کی شاندار فتوحات کا ذکر کرتے ہوئے 1202ء میں کالنجر کی فتح کو شاندار قرار دیتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’ مندروں کو مساجد میں تبدیل کر دیا گیا جہاں سے پانچ وقت اذان بلند ہونے لگی اور بت پرستی کا خاتمہ کر دیا گیا۔ پچاس ہزار ، مرد خواتین اور بچوں کو غلام بنا لیا گیا ۔۱۱۔

غوریوں کے حملے کے متعلق نہرو لکھتا ہے کہ ’’یہ مسلمان نہایت ظالم اور وحشی تھے ۔ ان مسلمان حکمرانوں کے حملوں کی وجہ سے لوگوں کی بڑی آبادی جنوب کی طرف نکل گئی۔۔۔تو ہنرمندوں اور کاریگروں کی ایک بڑی تعداد بھی جنوبی ہندوستان چلی گئی۔ مسلمان حملہ آوروں کی طر ف سے امن پسند ہندؤوں کا قتل عام ، انہیں غلام بنانا، زبردستی مسلمان کرنا، مندروں کو ڈھانا اور ان کی جگہ مساجد بنانا اور مندروں سے دولت لوٹنا کوئی انفرادی واقعات نہیں ہیں بلکہ ہندوستان میں تمام مسلمان حکمرانوں کا طرز عمل ایک جیسا ہی تھا۔۱۲۔

سلطان علاؤالدین خلجی (1296-1316) اور محمد شاہ تغلق (1325-1351) نے اپنے ادوار میں ہندوؤں کو مارا اور ان کی دولت لوٹی۔سلطان فیروز شاہ تغلق (1351-88)کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ مہربان اور رحم د ل حکمران تھا۔ جنگ کے دوران وہ اتنی احتیاط کرتا تھا کہ کسی مسلمان یا مخالف کو ناحق قتل نہ کرے۔شیراج عفیف کے مطابق اس رحم دل بادشاہ نے جب بنگال فتح کیا تو قتل ہونے والے بنگالیوں کے سر گنے گئے تو ان کی تعداد 180,000 کے قریب تھی ۔۱۲۔

فیروز شاہ سے پہلے جو مسلمان حکمران تھے وہ برہمنوں سے جزیہ وصول نہیں کرتے تھے۔ سلطان فیروز تغلق اتنا مذہبی تھا کہ اس نے کہا کہ پہلے بادشاہوں نے برہمنوں سے جزیہ نہ لے کر شرعی غلطی کی ہے۔ برہمن ہی تو بت پرستی اور شرک کے پیروکار ہیں ۔وہ بت پرستی کے سخت خلاف تھا اس لیے کئی مندر ڈھا دیئے ۔ اس کے جاسوس پوری سلطنت میں گھوم پھر کر اس بات کا کھوج لگاتے کہاں بت پرستی ہو رہی ہے۔ اس نے مندروں کو ڈھانے اور ان کے مجاوروں کو قتل کرنے کے متعلق تاریخ فیروز شاہی میں کئی واقعات لکھے ہیں۔ وہ کہتا تھا کہ ہندو اپنے مندروں میں بت نصب کرتے جو کہ صریحاً اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے لہذا انھیں توڑدینا چاہیے ۔ حکم الٰہی ہے کہ میں یہ تمام بت توڑ دوں اور ان کے رکھوالوں کو قتل کر دوں اور نرم ترین حکم یہ ہے کہ میں انہیں اس برائی پر اس وقت تک تنبیہ کرتا رہوں جب تک کہ وہ باز نہ آجائیں۔۱۳۔

ایک جگہ وہ لکھتا ہے کہ اسے اطلاع ملی کہ ہندوؤں نے کوہانہ میں ایک مندر تعمیر کیا ہے جہاں وہ اکٹھے ہو کر اپنی عبادت کرتے ہیں۔ میں نے حکم جاری کیا کہ انھوں نے اسلامی حکومت کی حکم عدولی کی ہے اور ان کی مکاری کی سزا یہی ہے کہ انھیں مندر کے گیٹ باہر سر عام قتل کر دیا جائے۔ میں نے یہ حکم بھی جاری کیا کہ کافروں کی تمام کتابیں ان کے بت اور ان کی عبادت کی اشیا کو سر عام جلا یا جائے۔ تمام غیر مسلموں کو تنبیہہ کی کہ آئندہ ایسی حرکت کوئی نہ کرے اور غیر مسلموں (ذمی) کو اسلامی ملک میں ایسی مکار حرکتوں سے باز رہنا چاہیے۔

عبدالقادر بدایونی لکھتا ہے کہ وسطی انڈیا کے علاقے گلبرکہ اور بدر کے باہمانی سلطان کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ ہر سال ایک لاکھ ہندو( مرد، عورتیں اور بچے) قتل کرتے تھے ۔۱۴۔تاریخ فرشتہ کے مطابق دکن کے باہمانی سلطان ہر مسلمان کے بدلے ایک لاکھ ہندؤں کو قتل کرنے کا اعلان کرتے تھے۔جب ہندو راجا دیورایا دوم نے دو مسلمان سپاہیوں کو جنگ میں پکڑا تو سلطان علاؤ الدین احمد شاہ باہمانی دوم (1436-58)نے کہا کہ اگرراجہ دیو رایا نے ان سپاہیوں کو قتل کیا تو وہ اس کے بدلے ایک لاکھ ہندؤوں کو قتل کر دے گا ۔ دیورایا اتنا خوفزدہ ہوا کہ اس نے فوری طور پر دونوں سپاہیوں کو رہا کر دیا اور سلطان کی شان میں تعریفی کلمات ادا کیے۔۱۵

امیر تیمور اپنی یاداشتوں ( ملفوظات تیموری) میں لکھتا ہے کہ اس نے ہندوستان پر حملہ کرکے اپنا اسلامی فرض پورا کیا تاکہ وہ کافروں کے خلاف لڑتا ہوا غازی یا شہید کا رتبہ پا سکے۔ وہ لکھتا ہے کہ دسمبر 1398 کو دہلی پر حملہ کرنے کے موقع پر ایک لاکھ کافروں کو جہنم واصل کیا۔۱۶۔

اورنگ زیب کا دور حکومت
شہنشاہ اورنگزیب کے اسلامی دور حکومت (1658- 1707) میں ہندوستان میں بڑے پیمانے پر مندروں کو ڈھایا گیا اور کافروں ( ہندوؤں اور سکھوں) کو ذبح کیا گیا ۔ وہ اپنی سوانح حیات ماثر عالمگیری میں لکھتا ہے کہ 1669 ء میں بے وقوف برہمن اپنے مدرسوں میں ہندو اور مسلمانوں کو فضول مذہبی کتابیں پڑھاتے تھے بلکہ دور دراز سے طالب علم یہاں آکر تحصیل علم کے لیے آتے تھے۔ اورنگ زیب اتنا مشتعل ہوا کہ اس نے تمام صوبائی گورنروں کو ہدایت کی کہ کافرانہ تعلیمات پر سختی سے پابندی لگا دی جائے، بت پرستی کو ختم کیا جائے اور ہندوؤں کے تمام مندر اور مدرسوں کو ختم کر دیا جائے۔ ۱۷۔
ہندوؤں کو ان کے امتیازی نشانات استعمال کرنے سے منع کر دیا گیا اور سزا کے طور پر جزیہ نافذ کیا گیا۔اورنگزیب اپنے آپ کو کافرانہ رسوم اور عبادت کے خاتمے کو نہ صرف مذہبی فریضہ سمجھتا تھا بلکہ اپنے آپ کو ان رسوم کے خاتمے کا چیمپین کہتا تھا۔ ماثر عالمگیری کے مطابق صرف ایک سال 1679ء کا احوال کچھ اس طرح درج ہے۔
۔۱۔ خاں جہاں بہادر جب جودھ پور سے آیا تو بے شمار بیل گاڑیاں بتوں اور مورتیوں سے لدے ہوئی تھیں جو مندروں کو ڈھا کر لوٹے گئے تھے۔ کچھ بتوں کو بڑی مساجد کے دروازوں کے سامنے ڈال دیا اور نمازی انھیں پاؤں سے روندتے ہوئے مسجد میں داخل ہوتے۔
۔۲۔ شہزادہ محمد اعظم اور خان بہادر اودھے پور گئے جس کا مقصد بت پرستی کا خاتمہ اور مندروں کو ڈھانا تھا لیکن بیس کے قریب ہندو راجپوت شہزادوں نے مندروں کے ڈھانے کے خلاف بغاوت کر دی ۔ جس پر اسلامی فوج نے ان راجپوت شہزادوں کو جہنم واصل کر دیا اور مندروں سے تمام بتوں کا صفایا کر دیا گیا۔
۔۳۔ اورنگزیب نے تین بڑے مندروں کو ڈھانے کا حکم دیا جو رانا یودیس گڑھ نے تعمیر کروائے تھے ۔ اس مہم سے واپسی پر حسن علی خان نے بتایا کہ یہ مندر محل کے نزدیک تعمیر کیے گئے تھے ۔ ان کو ڈھانے کے ساتھ ساتھ آس پاس کے دوسرے اضلاع میں بھی تقریباً 120 مندر ڈھا دئے گئے۔
۔۴۔ اورنگزیب چتوڑ کی طرف بڑھا جہاں 63 مندروں کو ڈھایا گیا۔ 
۔۵۔ بادشاہ کے حکم پر عمل درآمد کرنے کے لیے امبر کے مندروں کو بتوں سے صاف کر دیا گیا ۔ ابو تراب لکھتا ہے کہ تین بڑے بتوں اور چھ چھوٹے بتوں کو زمین کے برابر کر دیا گیا۔۱۸۔ 
سنہ1679
ء میں اورنگزیب کے حکم پر 200 سے زائد مندروں کو ڈھایا گیا کچھ کے نزدیک ان کی تعداد پانچ ہزار کے قریب ہے۔ مندروں کے پجاریوں کو بھی مار دیا جاتا ۔ اورنگ زیب نے اپنے بھائی داراشکوہ کو بھی نہ بخشا اور اسے ہندو مذہب میں دلچسپی رکھنے کے الزام میں قتل کر دیاتھا۔ اورنگزیب نے سکھوں کے گرو تیغ بہادر اور اس کے دو ساتھیوں کو اس الزام پر قتل کر دیا کہ وہ کشمیری ہندوؤں کو زبردستی سکھ بنانا چاہتے تھے۔

سنہ1738 میں ایرانی حکمران نادر شاہ نے ہندوستان پر حملہ کیا اور دو لاکھ افراد کوقتل کیا اور اپنے ساتھ بے شمار دولت لوٹ کر لے گیا جس میں خوبصورت لڑکیاں بھی تھیں۔ ایلین ڈینیلو (متوفی ۱۹۹۹) ایک فرانسیسی سکالر تھا جو ہندوستانی فلاسفی، مذہب ، تاریخ اور آرٹ کا ماہر تھا ، نادر شاہ کے دہلی پر حملے کی تفصیل لکھتا ہے کہ ’’۔۔۔ ایک ہفتے تک قتل و غارت جاری رہی۔۔۔ تمام عمارتیں تہ و تیغ کر دی گئیں اور یہ حالت ہو گئی کہ زندہ بچ جانے والوں کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا ۔ وہ قیمتی فرنیچر ، آرٹ کے نمونے ، گھوڑے ، کوہ نور ہیرا اور سونے کے سکوں سمیت تقریباً 150 ملین مالیت کا سامان ایران لے گیا ۔ اس نے اتنی دولت لوٹی کے اگلے تین سال کے لیے ایران میں ہر قسم کا ٹیکس معاف کر دیاگیا۔۱۹۔

مسلمان حکمرانوں نے ہندوستان میں ہندو ، بدھ مت ، جین مت اور سکھ مت کی مذہبی عبادت گاہوں کو جتنا تباہ و برباد کیا ہے دنیا کی تاریخ میں ایسی تباہی کسی اور حملہ آور کی طرف سے نہیں ہوئی۔ جب کوئی مندر ڈھایا جاتا تو اس کی مورتیوں میں چھپی دولت کو نکالا جاتا اور مندر کے ڈھائے گئے پتھر مساجد کی تعمیر میں استعمال ہوتے۔ دہلی کی مسجد قوت اسلام مندروں کے ڈھائے گئے میٹریل سے ہی تعمیر کی گئی تھی ۔مندروں کے بچاریوں اور رکھوالوں کو قتل کر دیا جاتا جس کا ذکر بڑے فخر سے امیر خسرو اور فیروز شاہ تغلق کرتے ہیں۔ ۲۰۔

ہندوستان میں مسلمان حملہ آوروں کی لوٹ مار اور قتل و غارت کا ذکر اپنے وقت کے مسلمان تاریخ دانوں نے بڑے فخر سے کیا ہے اور اسے اسلام کی فتح قرار دیتے ہیں۔مسلمان حکمرانوں کی لوٹ مار اور مندروں کو ڈھانے کے متعلق فرانسس واٹسن لکھتا ہے کہ مسلمان حکمرانوں کے ذہنوں میں بت پرستی کے خلاف سخت نفرت بھری ہوئی تھی ۔ وہ مندروں کو ڈھاتے ،بتوں کو توڑتے اور ان میں چھپی دولت لوٹتے اور اس کا ذکر خود مسلمان مورخین نے کیا ہے ۔ ہندوستان کے قدیم شہر واراناسی اور متھرا، اجین اور مہا شیور، جوالہ مکھی اور دوارکا میں قدیم دور کا ایک بھی مندر سلامت نہ رہنے دیا گیا ۔ ۲۱۔

مسلمان حکمرانوں میں شہنشاہ اکبر کو روشن خیال اور رحم دل کہا جاتا ہے اور اس کے دور کو ہندوستان کا شاندار دور کہا جاتا ہے۔ شہنشاہ اکبر نے 1588 میں چتوڑ میں تیس ہزار افراد کے قتل کا حکم دیا کیونکہ انھوں نے ہندو راجپوت شہزادوں کا ساتھ دیا تھا۔ جب آٹھ ہزار سپاہیوں کو قتل کر دیا گیا تو ان کی عورتوں کی تعداد جو کہ آٹھ ہزار بتائی جاتی ہے کو لونڈیاں بنا لیا گیا جنہوں نے اپنی عزتیں لٹ جانے کے ڈر سے آگ میں چھلانگ لگا کر اپنے آپ کو ختم کر لیا۔شہنشاہ جہانگیر لکھتا ہے کہ اس نے اور اس کے والد (شہنشاہ اکبر) کے مشترکہ دور (1556-1627) میں پانچ سے چھ لاکھ افراد کو ذبح کیا گیا تھا۔۲۲۔

ہندوستان میں مسلمان حکمرانوں کی آمد سندھ پر حملے سے شروع ہوئی اور قتل و غارت و بربریت کا ایک بھیانک دور شروع ہوا جو آخری مسلمان حکمران ٹیپو سلطان (1750-99) کی وفات تک جاری رہا ۔ تاریخ میسور از ہوادانہ راؤ کے مطابق 1790 کو ٹیپو سلطان نے میسو ر کی لنگرکمیونٹی کے سات سو مرد عورتیں اور بچوں کودیپاولی کی تقریبات کے موقع پر موت کے گھاٹ اتار دیا۔بعد میں ٹیپو سلطان نے برطانوی جنرل ہیرس جو کہ مدراس اور تیمور لنگ کا گورنر تھا سے معاہدہ کرلیا۔ ایک مغل جنرل محب الحسن ٹیپو سلطان کی زندگی کے متعلق لکھتا ہے کہ اس نے ٹراون کورTravancore کی جنگ میں دس ہزار ہندو اور عیسائیوں کو قتل کیا اور سات ہزار کو غلام بنایا ان غلاموں کو سرنگا پٹم لے جایا گیا جہاں ان کو زبردستی مسلمان کیا گیا، ان کے ختنے کیے گئے اور گائے کا گوشت کھلایا گیا۔۲۳۔مسلمان مورخ ’کرمانی‘ اپنی کتاب نشانِ حیدری میں لکھتا ہے کہ ٹیپو سلطان نے ستر ہزار Coorgies کو زبردستی اسلام قبول کرایا۔

کچھ ماڈرن تاریخ دان اس تعداد کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ کچھ مسلمان مورخ اپنے آپ کو اسلام کا چیمپین ثابت کرنے کے لیے تعداد بڑھا چڑھا کر لکھتے تھے(وکی پیڈیا) یہ اعداد و شمار درست ہیں یا نہیں لیکن ماڈرن تاریخ دان اس بات پر متفق ہیں کہ تلوار کے زور پر لوگوں کو مسلمان کرنا اس وقت بھی بڑے فخر سے ذکر کیا جاتا تھا جب ہندوستان میں مسلمان حکمرانوں کا اقتدار ختم ہورہا تھا۔ ایلین ڈینیلو ہندوستان میں مسلمانوں کی یلغار کے متعلق لکھتا ہے ’’ہندوستان میں 632 ء سے مسلمانوں کی آمد شروع ہو گئی تھی اور اس کے بعد قتل و غارت بربریت اور لوٹ مار کی لمبی تاریخ ہے ۔ ان جنگوں کو اللہ کی جنگ کہا گیا اور یہ جنگیں اللہ کی خوشنودی اور اس کی شریعت قائم کرنے کے لیے لڑی گئیں۔۲۴۔
محمود غزنوی نے 1018میں بربریت کی انتہا کرتے ہوئے متھرا، قنوج اور مشہور سومنات کے مندروں کو زمین کے برابر کر دیا جو ہندوؤں کی مقدس عبادت گاہیں تھیں۔ اس کے بعد آنے والوں نے محمود غزنوی سے بھی زیادہ بربریت کا مظاہرہ کیا۔بنارس کے علاقے میں 103مندروں کو مکمل طور پر ڈھا دیا گیا یہ مندر اس خطے کی تہذیب و تمدن کی علامت تھے۔ ایلین ڈینیلو لکھتا ہے کہ ان مسلمان حکمرانوں نے ایک منصوبہ بندی کے ذریعے ہندوستان کی تہذیب و ثقافت کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ 
امریکی تاریخ دان و فلاسفر ول ڈیورانٹ کے مطابق مسلمانوں کا ہندوستان پر حملے دنیا کی تاریخ مین سب سے زیادہ خونریز حملے کہے جا سکتے ہیں جبکہ مسلمان تاریخ دان 800ء سے 1700 عیسوی کے دور کو مسلمانوں کا شاندار دور کہتے ہیں اور فخریہ انداز سے اقرار کرتے ہیں کہ انھوں نے کافروں کو جہنم رسید کیا یا مسلمان کیا، عورتوں اور بچوں کو غلام بنایا۔ زبردستی مسلمان کیا گیا مندروں کو تباہ کیا اور لوٹ مار کو مالِ غنیمت کہا جاتا ہے ۔۲۵۔مسلمان مورخین محمد الکافی ، البلادری، العطبی، حسن نظامی، امیر خسرو ، ضیاء الدین برنی اور محمد قاسم فرشتہ نے ان تمام واقعات کا تفصیلاً ذکر کیا ہے۔

حملہ آوروں کی طرف سے ہندوستان میں قتل و غارت بربریت اور عبادت گاہوں کی اتنے بڑے پیمانے پر تباہی شاید ہی دنیا کی کسی اور قوم نے کی ہو۔ہندو کش پہاڑی سلسلہ کا نام بھی اس لیے دیا گیا ہے کہ بڑی تعداد میں ہندو افراد (عورتیں، لڑکے اوربچے) جنھیں غلام بنا کر وسطی ایشیائی ریاستوں میں لے جایا تھا کی بڑی تعداد اس پہاڑی سلسلے میں سرد موسم کو برداشت نہیں کرسکتی تھی اور راستے میں ہی ہلاک ہو جاتے تھے ۔ ابن بطوطہ لکھتا ہے کہ ہندوکش کا مطلب ہندؤوں کی قتل گا ہ ہے کیونکہ غلام لڑکے اور لڑکیوں کی بڑی تعداد برفانی پہاڑی سلسلے کو عبور کرتے ہوئے ہلاک ہو جاتی تھی۔اس پہاڑی سلسلے میں کتنے افراد سر دی کی وجہ سے ہلاک ہو ئے اس کا اندازہ لگایا نہیں جا سکتا ۔ مورلینڈ کے مطابق زندہ بچ جانے والے غلاموں کی تعداد اتنی زیادہ ہوتی تھی کہ غیر ملکی مارکیٹ میں یہ کم قیمت پر فروخت ہوتے تھے۔ ۲۶۔

ٰIslamic Jihad: A Legacy of Forced Conversion, Imperialism, and Slavery
(
انگریزی سے ترجمہ: عیسیٰ ملک)
حوالہ جات۔۔
۔۱۔نہرو صفحہ 213
۔۲۔ ابن واراق صفحہ 198
۔۳۔ ترکی روزنامہ زمان ،9 اکتوبر2008
۔۴۔ Muslim Slave system in India, New Delhi,by S.K Lal p18
۔۵۔ ایلیٹ اینڈ ڈاؤسن جلد دوم صفحہ 26
۔۶۔ ایضاً صفحہ 40
۔۷۔ ایضاً
۔۸۔ایلیٹ اینڈ ڈاؤسن جلد دوم صفحہ 216
۔۹ ۔ایضاً صفحہ224
۔۱۰۔ایضاً صفحہ 230 
۔۱۱۔نہرو صفحہ 208
۔۱۲۔ایلیٹ اینڈ ڈاؤسن جلد۳ صفحہ297
۔۱۳۔ایضاً صفحہ366
۔۱۴۔لال 1999 صفحہ 62 
۔۱۵۔تاریخ فرشتہ صفحہ 267-268
۔۱۶۔ ایلیٹ اینڈ ڈاؤسن جلد 3 صفحہ 394-436
۔۱۷۔ایضاً جلد ۷صفحہ 183-184
۔۱۸۔ایلیٹ اینڈ ڈاؤسن جلد ۷ صفحہ ۸۸۔۱۸۷
۔۱۹۔A brief History of India, A Danielou,p 290 
۔۲۰۔نادر شاہ، وکی پیڈیا
۔۲۱۔ٰIndia: A concise History, Watson F, Thames & Hudson p.96
۔۲۲۔Legacy of Muslim Rule in India, K.S Lal, Delhi p. 266
۔۲۳۔The History of Tipu Sultan, Hasan M, Aakar Books, Delhi,p362
۔۲۴۔A brief History of India, A Danielou,p 222
۔۲۵۔ول ڈیورانٹ، سٹوری آف سول لائزیشن۔ صفحہ 459 
۔۲۶۔اکبر سے اورنگزیب تک ، ڈبلیو ایچ مورلینڈ، لندن صفحہ 63

4 Comments