بنے ہیں اہلِ ہَوَس مُدّعی بھی مُنصف بھی

12695990_10206729873699704_2066619818_n

منیر سامی

ٓآپ نے سیمورؔہرش Seymour Hersh کا نام تو سنا ہوگا۔ وہ دنیا کا ایک معروف صحافی ہے جسے اپنی خبروں اور رائے کے لیئے پلٹزر انعام بھی ملا ہے۔ یہ وہی صحافی ہے جس نے ویتنام کے ایک گائوں میں امریکی قتل و غارت گری کی خبر دی تھی، اور پھر عراق میں ابو غرائب کی جیل میں ہونے والی زیادتیاں بھی افشا کیں تھی۔ اس کا تعلق با ضمیر صحافیوں کے اس قبیلے سے ہے جو خود اس کے اپنے وطن امریکہ اور دیگر ممالک میں حکومتوں کی زیادتیوں کا احتساب کرتے ہیں، اور انہیں سچ بولنا سکھاتے ہیں۔یہ مجھے اور آپ کو وہ دکھاتے اور سناتے ہیں ، جو ہماری حکومتیں، ہمارے سیکیوریٹی ادارے، اور بندوق بردار ہمیں دکھانا اور سنانا نہیں چاہتے۔

اگر ہم پاکستان کی جانب دیکھیں توہم سمجھ سکیں گے کہ ہمیں سچ اور حقیقت سے بے بہرہ رکھنے کے لیئے کیا جتن کیئے جاتے ہیں۔ کبھی ہماری آنکھوں پر ’میمو گیٹ‘، ’دھرنا گیٹ‘، اور ’پنامہ گیٹ ‘ کی پٹیاں باندھی جاتی ہیں، کبھی ہمارے کانوں میں پاکستان کے ٹاک شو میڈیا کی چیخ و پکار سے سیسہ گھولا جاتا ہے، اور اگر حصارِ ظلم میں کوئی آواز بلند ہو تو اسے سلیم شہزاد کی طرح قتل کر دیا جاتا ہے، یا حسین حقانی کی طرح وطن بدر کر دیا جاتا ہے۔

حال ہی میں صحافی سیمورؔہرش کی کتاب، The Killing of Osama ben Laden شایع ہوئی ہے جس کا بنیادی موضوع امریکی جمہوریت کو لاحق وہ خطرات ہیں جو عوام کو دھوکے میں رکھنے سے پیدا ہوتے ہیں۔ چونکہ اس کتاب کا تعلق اوسامہ بن لادن سے ہے، سو یہ لامحالہ پاکستان سے بھی تعلق رکھتی ہے۔ سیمور ہرش اس طرح سے لکھتا ہے کہ، ’’ اوسامہ بن لادن کے قتل سے کچھ عرصہ قبل پاکستانی فوج کے ایک افسر نے امریکی ، سی آئی اے ، سے رابطہ کیا اور انہیں بتایا کہ اوسامہ بن لادن پاکستانی سیکیوریٹی اداروں کی حفاظت میں ہے۔ اس افسر نے یہ راز صرف اس لیئے افشا کیا تھاکہ وہ اوسامہ بن لادن کے سر پر لگائی گئی ، پچیس ملین امریکی ڈالروں کی رقم حاصل کرنا چاہتا تھا۔ سیمور ہرش کے اس بیان کی دو اور اہم صحافیوں کے بیان سے بھی تصدیق ہوتی ہے۔

سیمور ہرش یہ بھی لکھتا ہے کہ، اوسامہ بن لادن سنہ 2005 سے پاکستانی جاسوسی ادارے ، آئی ایس آئی ، کی تحویل میں تھا، اور یہ کہ پاکستانی افواج اُس کی ایبٹ آباد میں موجودگی سے پوری طرح آگاہ تھیں۔ وہ یہ حیران کُن انکشاف بھی کرتا ہے کہ اوسامہ بن لادن کی پاکستان میں رہائش اور تحویل کے اخراجات، سعودی حکومت ادا کر رہی تھی۔ جب امریکہ کو اوسامہ کی ایبٹ آباد میں رہائش کا پتہ چل گیا تو پاکستانی افواج کے اعلیٰ افسر اس بات پر راضی ہو گئے کہ، امریکہ اسے پاکستان سے نکال لے اور اسے قتل کر دیا جائے۔یہ سب کچھ اس کی کتاب میں ہے۔

پاکستانیوں کو تو شاید کسی ملزم کے اس طرح قتل کیے جانے پر کوئی اعتراض نہ ہو لیکن امریکہ اور مغرب میں کسی کو بھی اس طرح قتل کیے جانا خلافِ قانون ہے۔سی آئی اے کو بھی اس طرح قتل کرنے کے لیے امریکی صدر سے اجازت لینا پڑتی ہے، لیکن امریکی صدر ایسا صرف قانوناً کر سکتا ہے ، اور اس کے اس حکم کا باقاعدہ اندراج ہوتا ہے۔ امریکی اور مغربی جمہوریت صرف ایسی ہی قانونی پابندیوں سے چلتی ہے، اور یوں کسی کو بھی اپنے عمل کے لیے مادر پدر آزادی نہیں ہوتی۔

ہم پاکستانی جمہوریت کے اصولوں سے اس لیئے بے خبر ہیں کہ ہمیں جبراًان باتوں سے بے بہرہ رکھا گیا ہے۔ گزشتہ کئی دنوں سے پاکستان میں پنامہ کے بنک اکائونٹوں کا چرچا ہے۔ پاکستان کے بارے میں یہ خبر تھی کہ اس میں کوئی دو سو سے زیادہ پاکستانیوں کی فہرست شامل تھی۔ لیکن ہمارے سامنے صرف چند نام سامنے آئے ہیں، جن میں نواز شریف کے خاندان کا نام سب سے زیادہ اچھالا جا رہا ہے۔ اس میں ہمارے میڈیا کے اہم مالکان کے نام بھی تھے جو دبادیئے گئے ہیں ، یا ان کے بارے میں بہانے بازیاں کی جارہی ہیں۔ کیا ہمیں نہیں جاننا چاہیئے کہ مکمل فہرست کیا ہے۔ اور یہ کہ کیا اس میں کچھ ایسے پردہ نشینوں کے نام بھی ہیں جنہیں زبان پر لانے کی سزا زبان کا قلم ہونا ہے۔

پاکستانی میڈیا میں، جس کے بارے میں یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ اسے ہمارے سیکوریٹی ادار ے دھونس ، دبائو یا رشوت کے ذریعہ استعمال کرتے ہیں، منظم طور پر ہر چند سال میں جمہوریت اور سیاست کے خلاف ایک مہم چلائی جاتی ہے۔ جس میں سیاستدانوں کو مطعون کیا جاتا ہے ، اور پاکستان کے آیئن کو توڑنے مروڑنے کی بات کی جاتی ہے۔ پاکستان کا آیئن ویسے بھی ایک نامئہ بے معنی ہے جسے کبھی مئے ناب کے جام میں کبھی وضو کے لوٹے میں دھویا جاتا ہے، اور اس کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔

بار بار یہ کہا جاتا ہے کہ سیاستدان نا اہل ہیں ، بد کار ہیں، اور حکومت کرنے کے قابل نہیں ہے۔ پہلے یہ سب شہری میڈیا کو استعمال کرکے کیا جاتا تھا، لیکن اب سیکیوریٹی اداروں نے جو جمہوری اداروں کی ماتحتی میں کام کرنا ایک گناہ جانتے ہیں، ایک متوازی میڈیا نظام قائم کر لیا ہے جسے آئی ایس پی آر کہتے ہیں۔ اسی طرح پاکستانی کے اہم سراغ رساں ادارے آئی ایس آئی کا اپنا ایک متوازی نظامِ اطلاعات ہے۔ ان اداروں کے سامنے حکومت کی وزارتِ اطلاعات کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔

ہٹلر کے بدنامِ زمانہ افسسرِ اطلاعات ’گوئبلز‘ کی طرح ان اداروں کا کام بھی مسلسل ایسی خبریں اور اطلاعات فراہم کرنا ہے جن سے عوام کے ذہنوں پر اثر پڑے اور وہ آئین اور جمہوریت کو قبیح، اور کسی نہ کسی فوجی انتظامِ سیاست کو احسن سمجھنے لگیں۔ اطلاعات اور خبروں کا یہ طریقہ آپ کو کبھی نہیں بتائے گا کہ پاکستان کے قیام ، اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے اب تک، یہ ہماری افواج ہی ہیں جو ہمارے اوپر براہِ راست یا بالواسطہ حکمران رہی ہیں۔

اب بھی ہماری سیکیوریٹی، امورِ خارجہ ، اور اہم امور افواج ہی کے طابع ہیں۔ہماری افواج ہی کے حاضر سروس، یا ریٹائرڈ افسر ، ہمارے اہم اداروں مثئلاً، پی آئی اے، واپڈا، اسٹیل ملز ، وغیرہ کے سالہا سال کرتا دھرتا رہے ہیں۔ اگر یہ ادارے اب خستہ حال ہیں تو کیا ان کی ذمہ داری اس ادارے پر نہیں جاتی جس سے ان کا بنیادی تعلق تھا۔ اگر ہماری افواج پاکستان پر اس کی حکومت کے نصف سے زیادہ عرصہ پر آمرانہ طور قابض رہیں ہیں ، تو کیا وہ پاکستان کی تباہی کی نصف ذمہ داری بھی نہیں لیں گی۔

ہماری صورتِ حال تو یہ ہے کہ آئین شکن جنرل مشرف، غداری کے مقدمہ کے باوجود، کسی سزا کے بغیر ملک سے باہر ہیں۔ جنرل کیانی کی کچھ خبر نہیں۔ اگر فوج کے افسر بڑے غبن میں ملوث بھی ہوتے ہیں تو پاکی داماں کی حکایت سنانے کے لیئے ان میں سے چند کو ملازمت سے نکال کر گھر بھیج دیا جاتا ہے۔

ہماری حالت تو یہ ہے کہ ہمارے غریب کسانوں پر اوکاڑہ میں مبینہ طور پر فوجی اداروں کے حکم پر ظلم توڑے جاتے ہیں اور کسی کو خبر نہیں ہوتی۔ ہمارے سیکیورٹی شہری حکومت کی اجازت کے بغیر آپریشن شروع کرتے ہیں، اور اسے قانون کے تحت بعد میں لاتے ہیں۔ جن ملکوں میں اہلِ ہوس ہی مدعی اور منصف ہوں وہاں ایسا ہی ہوتا ہے۔ کیا ہمارے ہاں سیمور ہرش جیسے صحافی ہیں جو جمہوریت کی حفاظت اور شہریوں کے حقِ حکمرانی کا بول بالا کریں؟ یا ہم سب ہی نمک کی کان میں رہ رہ کر نمک بن گئے ہیں۔

Comments are closed.