پانامہ لیکس اور پاکستانی

6421295a-8074-4623-affe-65103935357c

نعمان عالم

پانامہ لیکس نے سب سے پہلے تو یہ بات ثابت کر دی کہ مغرب جس کو ہمارا لبرل طبقہ پانی کی طرح صاف شفاف سمجھتا ہے ، وہ ہمارے سیاستدانوں اور جرنیلوں سے کچھ پیچھے نہیں ، میں نے ہمیشہ عرب و غرب کے تذبذب سے نکلنے کی بات کی ہے ، ہر کسی کی اچھی بات کا اقرار کوئی بری بات نہیں ہوتی ، چاہے وہ عرب ہوں ، شرقی یا غربی ۔مغرب میرا آئیڈیل کبھی نہیں رہا ، نہ ہی عرب ہاں اچھے کاموں ، اچھے فیصلوں کی ہم میں بہت کمی ہے اسی لئے کبھی کبھار دوسرے ممالک کی مثالیں دینا پڑتی ہیں۔

ہم سب مل کر پانامہ لیکس کی تو بات کر رہے ہیں ، لیکن یہ نہیں سوچ رہے کہ اگر آف شور بنکنگ کا نظام مغرب ہی کا فارمولا ہے ، یہ وہ فارمولا ہے جس کی بدولت مغربی بنک پوری دنیا کے کرپشن کے پیسے کو اکھٹا کرتے ہیں ، یہی وہ پیسہ ہے جو پھر بعد میں بلیک میل کر کے قسطوں میں واپس کیا جاتا ہے ، یا اس معاملے کو اتنا کھینچا جاتا ہے کہ رقم جمع کروانے والا اس دنیا سے کوچ کر جاتا ہے ، یہی وہ پیسہ ہے جو جنگوں میں لگتا ہے ، یہی وو پیسہ ہے جو مختلف ممالک کی اسلامی ، سیاسی ، جہادی اور دوسری جماعتوں کو اس ملک میں حکومت کو کمزور کرنے پر لگایا جاتا ہے تو پھر مغرب کہاں سے شاف شفاف ہو گیا ؟

پاکستانیوں کا شور کرپشن پر کم اور حکومت کو گرانے پر زیادہ ہے ، جو کہ مسئلے کا حل نہیں ، یعنی ایک شخص پر الزام لگے کہ اس نے ملکی پیسہ چرا کر دوسرے بنکوں میں جمع کروایا ہے ، تو اسکو ٹرائل کے بغیر چھوڑ دینا اسکو محفوظ راستہ دینے کے مترادف ہے ۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ جانبداری ہے ، اور یہی ہمارے تمام مسائل کی جڑ ہے ، پانامہ لیکس پر ساری جماعتیں نواز شریف کے خلاف اکھٹی اس لئے ہو رہی ہیں کہ میاں جی حکومت چھوڑ دیں اور وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوں ، یعنی نیا گٹھ جوڑ ہو ، اور جو اوپر نہیں پہنچ سکا، وہ پوری ۔کوشش کر کے اس جگہ پہنچے جہاں جا کر ویسا ہی پیسا کمایا جا سکتا ہو جیسا میاں جی نے کمایا ہے ۔

ہمارا تو احتجاج میں بھی دو نمبری ہوتا ہے ، ہمارے اصول مقصد کے حصول کی خاطر زگ زیگ کی طرح اچھلتے رہتے ہیں ، اس معاملے پر واقعی تمام پارٹیوں کو اکھٹا ہونا چاہیے ، اور ایک بنچ تشکیل دیا جانا چاہیے ، جو فیصلہ کرے اور اسکی رپورٹ ہر قومی اخبار میں چھپے ، اور ایسے ثبوت لانے چاہیں جن سے میاں جی کو سیدھا سلاخوں کے پیچھے بھیجا جائے اور کرپشن کے خلاف اس کار خیر کو رکنا ہی نہیں چاہیے ، ہر جرنیل ، مذھبی و سیاسی لیڈران کی پوری جانچ پڑتال کی جانی چاہیے اور کم از کم برائی اگر ختم نہیں تو اسکے اختتام کا آغاز تو لیا ۔ہی جانا چاہیے۔

ایک طبقہ ایسا ہے جو کہتا ہے کہ عدالتوں نے کیا کرنا ہے ، وہ تو کرپٹ ہیں ، ہمیں ان سے کوئی امید نہیں ہے ، تو ان سے عرض ہے کہ اپنے بچوں کو سکول بھی مت بھیجئے ، کیونکہ سکول پر بھی آپکا اعتماد کم ہے ، اگر کوئی آپ کی چوری کر لے تو تھانے مت جائیے کیونکہ تھانے والے تو ویسے ہی کرپٹ ہیں ، بیمار ہو جائیں تو ڈاکٹر کے پاس مت جائیے کیونکہ ڈاکٹر تو پیسا کمانے کے لئے بیٹھے ہیں ، اور اگر ڈاکٹر کوئی دوائی لکھ دے تو وہ بھی مت خریدیں کیونکہ دوائیوں میں ملاوٹ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ، یعنی ہماری منطق یہ ہوتی ہے کہ جو کچھ ہو بس ایسا ہو جائے جو میں چاہتا ہوں۔

Comments are closed.