پانامالیکس

anbارشد نذیر

پاناما کی لاء فرم موزیک فونسیکا کی ساڑھے گیارہ ملین خفیہ دستاویزات کے منظرِ عام پر آنے سے دنیا بھر کے بڑے بڑے سیاستدانوں اور سرمایہ کاروں کے پول کھل گئے ہیں۔یہ خفیہ دستاویزات گزشتہ چالیس سال کا ریکارڈ ہیں جن میں 140 سیاستدانوں اور سرکاری افسران کی بنائی گئی آف شور ہولڈنگ کو بے نقاب کیا گیا ہے ۔ ان میں 12 موجودہ اور سابقہ سربراہانِ مملکت اور شاہی خاندان کے افراد بھی شامل ہیں ۔ ان دستاویزات سے یہ بھی عیاں ہوا ہے کہ کس طرح سے رقم کو چھپا کر ٹیکس چوری، دہشت گردی اور منشیات جیسے مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ کون سرمایہ کو کیوں اور کس طرح تحفظ دیتارہا ہے، سب کے کالے کرتوت منظرِ عام پر آنے لگے ہیں۔کہا جا رہا ہے کہ یہ انکشافات وکی لیکس سے بھی بڑے پیمانے کے انکشافات ہیں۔

ترقی یافتہ، ترقی پذیر اور غریب ترین ممالک کے بڑے کاروباری ، سرمایہ دار اور سیاستدان سب کے سب کسی نہ کسی طرح اس میں شامل ہیں۔ اس نے نہ صرف کارپوریٹ کلچر کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے بلکہ سرمایہ داری میں تمام اخلاقیات کی ناکامی کا مژدہ بھی سنایا دیا ہے۔
مالی راز داری میں سویٹزلینڈ، ہانگ کانگ، امریکہ ، سنگاپور، لگزمبرگ، لبنان، جرمنی ، بحرین ، متحدہ عرب امارات شامل ہیں ۔

میڈیا میں یہ خبریں بھی شائع ہو رہی ہیں کہ ایئن کیمرون جو برطانوی وزیرِاعظم ڈیوڈ کیمرون کا والد ہے نے 2010 ء میں بلیئر مور ہولڈنگ کمپنی ٹیکس بچانے کے لئے قائم کی تھی۔ بین الاقوامی تنظیم برائے تحقیقاتی صحافت کے ایک کنسورشیم نے اس پر تحقیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ صرف ولادیمر پیوٹن کے دوستوں نے بنکوں کے نیٹ ورک اور ان کمپنیوں کے ذریعے 2 ارب ڈالر سے زاید کا کاروبار موزیک فونسیکا کے ساتھ کیا ہے۔ چین کے صدر کے بہنوئی اور شام کے ڈائریکٹرز بھی اس کمپنی کے ساتھ کاروبار کرتے رہے ہیں۔

ان پیپرز پر تحقیقاتی رپورٹ مرتب کرنے والی صحافیوں کی تنظیم نے کچھ میڈیا ہاؤسز کے مالکان کے بارے میں بھی بتایا ہے کہ وہ بھی اس کاروبار میں شریک رہے ہیں۔ مثلاً پاناما لیکس کے مطابق یہ انکشاف ہوا ہے کہ لیکسن گروپ کے ذوالفقار لاکھانی ، جو کہ ایکسپریس میڈیا گروپ کے مالکان ہیں، جیو کے میر شکیل الرحمان اور چینل 24کے ملک اعجاز گوہر نے بھی سال 2000 سے آف شور کمپنی میں انویسٹمنٹ کر رکھی تھی۔ہمارے وزیرِ اعظم کے بچوں کے نام بھی اس میں شامل ہیں۔ پیپلز پارٹی کی سابقہ وزیرِ اعظم بےنظیر بھٹو اور رحمان ملک کے ناموں کے علاوہ دیگر دو سو سے زاید شخصیات کا نام بھی اس میں شامل ہے۔

صورتحال کو بہتر طور پر سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہمیں آف شور کمپنیوں کے بارے میں پتا ہو کہ یہ کیا ہیں اور کس طرح سے کام کرتی ہیں۔
جب کوئی سرحد پار اس غرض سے کہ اُس کے سرمائے کو ٹیکس چھوٹ حاصل ہو، ایسے ملک میں جہاں اس طرح کی ٹیکس چھوٹ دی گئی ہو، میں کاروبار کرے یا اس غرض سے کوئی جوائنٹ ویچر قائم کرے ، تو ایسی کمپنیوں کو آف شور کمپنی کہا جاتا ہے۔ اس طرح غیر مستحکم ملکوں کے کاروباری اپنے سرمائے کو تحفظ دینے کے لئے ایسی کمپنیوں میں اپنی انویسٹمنٹ کر دیتے ہیں۔

لیکن ان بیان کردہ مقاصد سے ہٹ کر یہ کمپنیاں اکثر ناجائز سرمائے کو تحفظ فراہم کرنے اور ٹیکس چوری جیسے مقاصد حاصل کرنے کے لئے قائم کی جاتی ہیں۔ آزربائی جان کے صدر کی بیٹی کا سونے کی کانوں پر قبضہ کا قصہ ہو ، شمالی افریکا کے صدر کے بھتیجے جیکوب زوما کا عوامی جمہوریہ کانگو کے تیل کے معاہدے پر قبضے کا قصہ ہو، یا پھر آئس لینڈ کے وزیرِاعظم کی بیوی کی ملکی بنکوں کی ناکامی کے بعد ان کمپنیوں میں انویسٹمنٹ کا قصہ ، ان سب بڑے سیاسی اور معاشی واقعات کے پیچھے یہ آف شور کمپنیاں ہی کھڑی ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ اگر ان حصص کے مالکان باقاعدہ اپنی شناخت ظاہر کرکے اور ٹیکس ادا کرکے اپنے سرمائے کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے ایسی کمپنیوں میں انویسٹمنٹ کریں ، تو ایسا کرنا ناجائز نہیں ہے۔ لیکن صورتحال اس کے بھی بالکل برعکس ہے۔ ان کمپنیوں کا مقصد تو عوامی رقوم کو خرد برد کرنا، عوام کی لوٹی ہوئی رقوم کو ایسی کمپنیوں میں چھپانا ، کاروبار میں ناجائز اتار چڑھاؤ لانا ہو، کالے دھن کو سفید کرنا، بڑے بڑے بدعنوان سرکاری افسروں کی کرپشن کو چھپانا اور ٹیکس چوری ہے۔

ایسی تمام کمپنیوں میں چونکہ کارپوریٹ قواعد و ضوابط بھی بہت آسان ہوتے ہیں اور ان میں سرمایہ کاری کے لئے شہریت کی کوئی قید نہیں ہوتی ۔ نیز ایسی کمپنیاں انویسٹمنٹ کی تمام معلومات کو عوام سے پوشیدہ رکھتی ہیں۔لہٰذا ان کمپنیوں کی آڑ میں سرمایہ کار اور بدعنوان سیاستدانوں اور ان کے چیلے چپاٹوں کو کھل کھیلنے کا موقع ہاتھ آجاتا ہے۔

پاناما پیپرز میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ صرف شیل کی بیسیوں گمنام کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں۔ شیل کے اصل سرمایہ کار کرائے کے افرادکے ذریعے سے ان کمپنیوں میں اپنے حصص خریدتے ہیں اور ان کرائے کے افراد کی آڑ میں اپنی شناخت چھپالیتے ہیں اور اربوں ڈالرز کے ٹیکس چوری کرتے ہیں۔

پاناما پیپرز میں یہ انکشاف بھی کیا گیاہے کہ ان کمپنیوں کی بڑی مارکیٹ چین ہے اور ان کا سب سے مصروف دفتر ہانگ کانگ ہے۔ ان کمپنیوں کی کل انویسٹمنٹ کا ایک تہائی کاروبار انہیں کمپنیوں کے ذریعے ہوتا ہے ۔ یہاں صرف حامل رقعہ حصص ہی خریدو فروخت کر سکتا ہے جس پر کوئی قانونی پوچھ گچھ نہیں ہے۔

برمودا۔برطانیوی آئس لینڈ۔کے مین آئس لینڈ کے علاوہ امریکی ریاستوں میں اس طرح کی کمپنیاں موجود ہیں۔
آٹھ اپریل 2016 کے بی بی سی نیوز نے لندن سکول آف اکنامکس سے تعلق رکھنے والے جیسن ہاہیکل کی اس حوالے سے دی گئی رائے کو پیش کرتے ہوئے بتایا ہے کہ دنیا کی کل نجی دولت کا ایک میں سے چھٹا حصہ انہیں ٹیکس ہیون کمپنیوں میں چھپایا گیا ہے۔

اکیسویں صدی کے آغاز ہی میں تنظیم برائے اقتصادی تعاون اور ترقی نے اس قسم کی ٹیکس چھوٹ کو ختم کرنے کے لئے عالمی مہم کا آغاز کیا تھا۔اس مہم کے نتیجے میں اس طرح کے کاروبار کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا تھا۔ اس کے باوجود یہ کمپنیاں کسی نہ کسی شکل میں آج تک قائم چلی آرہی تھیں۔

آئل کمپنیوں ، جینرک ہولڈنگ کمپنیوں کے کاروباری لین دین، جوائنٹ وینچرز اور لسٹنگ وہیکلز وغیرہ جیسے کاروباروں کے لین دین میں بھی ایسی کمپنیاں استعمال کی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ نجی کاروباری بھی ٹیکس چوری کے لئے ان کمپنیوں کو استعمال کرتے ہیں۔

تنظیم برائے اقتصادی تعاون و ترقی ٹیکس چوری اور کالے دھن کو سفید کرنے سے روکنے کے لئے ٹاسک فورس (فنانشل ایکشن ٹاسک فورس آن منی لانڈرنگ) بھی قائم کی۔ لیکن یہ ٹاسک فورس بھی عملی طور پر ناکام ہوئی۔

نواپریل 2016 کے ا کنامسٹ جریدے نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس قسم کی بدعنوانی دنیا میں زیادہ غربت اور عدم مساوات کو جنم دیتی ہے۔جب سیاستدان کرپشن کرتے ہیں تواس کا مطلب ہوتا ہے کہ انہیں نے عوام کے لئے سڑکوں اور سکولوں جیسے منصوبوں کے لئے موجود رقم کی قلت پیدا کی ہے۔جب وہ اپنے چہیتوں کو اس طرح کے معاہدوں کے ذریعے نوازتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ شریف لوگوں کے دیئے گئے ٹیکس کے ساتھ فراڈ کیا ہے۔ یعنی ایسے لوگ ملک میں ایماندار کمپنیوں کی سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹ ڈالتے ہیں۔ اس سے ملکی پیداوار کمزور ہو جاتی ہے۔

اس صورتحال سے نبردآزما ہونے کے لئے جریدے نے تجویز پیش کی ہے کہ اس طرح کی آف شور کمپنیوں کے قواعد و ضوابط کو سخت کیا جائے۔ ان کے حصص مالکان کی شناخت کو یقینی بنایا جائے۔ ایسی کمپنیوں کی رجسٹریشن کے دوران غلط بیانی پر سخت گرفت ہونی چاہئے۔

اسی طرح کی اصلاحات کچھ دیگر لبرل معیشت دان بھی دے رہے ہیں۔ ان کی دی گئی اصلاحات یہ ظاہر کر رہی ہیں کہ وہ ایسی کمپنیوں کے قیام کے مخالف نہیں ہیں بلکہ وہ سرمایہ داری نظام ہی میں رہتے ہوئے ان میں کچھ اصلاحات نافذ کرکے ان بیماریوں کا علاج تلاش کر رہے ہیں۔ نیز وہ ایسی کمپنیوں کے قیام کی بھی مخالفت نہیں کر رہے۔

سرمایہ داری نظام میں طلب اور رسد معیشت کا بنیادی محور تصور کیا جاتا ہے ۔ سرمایہ کار اپنا سرمایہ ایسی جگہوں پر رکھنے کو ترجیح دیتا ہے جہاں اُس کے سرمائے کو تحفظ حاصل ہو۔ لہٰذازیادہ تر ایسی کمپنیاں صرف صنعتی اور ترقی یافتہ ممالک میں کام کرتی ہیں۔بصورت دیگر ایسے ملکوں میں ان کا سیٹ اَپ بنایا جاتا ہے جہاں سے اپنے سرمائے کے تحفظ کی ضامن مل سکے۔ سرمایہ وہی منتقل ہوتا ہے جہاں اس کی طلب اس طرح کی کمپنیاں پوری کرسکیں۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محض اصلاحات کی خواہش عالمی سطح پر اس نظام کو ٹھیک کر دے گی اور پوری دنیا میں یکساں کارپوریٹ کلچر پیدا کر لیا جائے گا۔ سرمایہ داری کی مقابلے بازی کی فضاء میں ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ ایسی خواہش بالکل اسی طرح ناکام ہو گی جس طرح کے سرمایہ داروں کے موسمی اور ماحولیاتی فضا ء میں آلودگی کو ختم کرنے کی ترقی یافتہ ممالک کی خواہش ہے۔

دوسری بات یہ ہے کہ موجودہ سرمایہ داری نظام ایسی کسی اصلاحات کے نفاذ کا بوجھ سہارنے کی پوزیشن میں ہی نہیں ہے کیونکہ پہلے ہی معاشی طور پر دنیا غربت اور محرومی کے حوالے سے کئی خطوں میں بٹی ہوئی ہے۔معیشت کے عالمی اور سامراجی کرداروں نے جس طرح دہشت گردی اور کالے دھن کی معیشت کے لئے فضاء ہموار کی ہے ، اب چاہتے ہوئے بھی اس پر پہلے جیسا کنٹرول حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ ان رازداریوں سے پردہ اٹھنے سے بہت سے تضادات سامنے آگئے ہیں۔

سرمایہ داروں اور جمہوری ریاستوں کے درمیان تعلق میں سرمایہ کاروں اور تجارت پیشہ افراد کے درمیان استحصالی کردار کھل کر سامنے آیا ہے۔ یہ بات اب راز نہیں رہی کہ سرمایہ دار خواہ ترقی یافتہ ممالک کا ہو، یا ترقی پذیر یا پھر غریب ممالک کا، وہ اپنے سرمائے کے تحفظ اور دفاع کے لئے کسی بھی حد تک بھی جا سکتا ہے ۔ اُس کی راہ میں آنے والی ہر اخلاقیات بے وقعت ہو کر رہ جاتی ہے۔

سرمایہ کار کی ترقی اور ٹیکنالوجی کا تضاد بھی سامنے آگیا ہے۔ یعنی ٹیکنالوجی اکاؤنٹس اور کمپنیوں کے دیگر معاملات کو جس سائنسی اور غیر جانبدارانہ انداز سے آگے بڑھانے کی صلاحیت رکھتی ہے، اُس کی اس صلاحیت سے مثبت فائدہ حاصل کرنے کے بجائے اس کو منافع اور ذاتی ہوس کے شکار سرمایہ کار ، بزنس مین رازداری ، فراڈ اور ٹیکس چوری کا کام کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔

میڈیا وکی لیکس کے بعد جس طرح اس سکینڈل کا سامنے لے آیا ہے ۔ آنے والا وقت تقاضا کرے گا کہ اس سے بڑا سکینڈل سامنے لایا جائے تاکہ اس سے میڈیا کی ریٹنگ بھی بڑھے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ ان کی جابنداری بھی قابلِ دید ہے۔ ایک طرف وہ دوسرے کے سکینڈلز پر تحقیقاتی صحافی ہونے کاْ کریڈٹ لینے کی کوشش کرتے ہیں تو دوسرے طرف جن میڈیا ہاؤسز پر آف شور کمپنیوں میں کاروبار کرنے کا الزام تھا اُن پر کوئی میڈیا آواز بھی نہیں اُٹھا رہا۔

جہاں تک پاناما لیکس اور پاکستان کا تعلق ہے ، تو اس پر تحقیقات کے لئے حکومت نے کمیشن قائم کرنے کا حکم صادر فرما دیا ہے ۔ اس کمیشن پر لے دے ہوگی۔ عدالتِ عظمیٰ میں کچھ آئینی اور انسانی حقوق کی پٹیشنز بھی دائر ہوں گی ۔ پی پی پی اور پی ٹی آئی جو حکومت کی مخالفت کا ڈھول پیٹ رہے ہیں کچھ عرصے بعد اس مطالبے سے پیچھے ہٹتے جائیں گے۔ پاکستان میں بنائے جانے والی کمیشنز پر آج تک کوئی فیصلہ سامنے آیا ہے اور نہ ہی اب آئے گا۔

Comments are closed.