پراکسی وار ز کی سیاست ؟

4212_109624585991_3851843_nبیرسٹر حمید باشانی

آج کل ہر کوئی پراکسی وار کی بات کر ہا ہے۔مگر پراکسی وار کا ترجمہ کوئی نہیں کرتا۔یا یوں کہہ لیجیے کہ اس کا ترجمہ کرنے کی کوئی جرأت نہیں کر پا رہا۔پراکسی کا لفظ ڈکشنری میں موجود ہے۔اس کا ترجمہ بھی۔مگر انگلش ، اردو ڈکشنری میں لفظ پراکسی کو وار کے ساتھ جوڑ کر کئی نہیں دکھایا گیا۔گویا ان دو لفظوں کو الگ الگ پڑھ کر پھر جوڑنا پڑتا ہے۔پراکسی کا مطلب نیابت یا قائم مقام ہے۔یعنی سادہ الفاظ میں کسی دوسرے کیذریعے اپنا کام کروانا۔اور وار کا مطلب تو سب ہی جانتے ہیں کہ جنگ ہے۔تو پراکسی وار کا عوامی ترجمہ اپنی جنگ دوسروں کے ذریعے لڑنا ہے۔

اس سادہ اردو ترجمے کے بعد پراکسی وار کا تصور بالکل صاف ہو جاتا ہے۔عام فہم ہو جاتا ہے، اور عوام کی سمجھ میں آنے لگتا ہے۔اس کے باوجود اس کا ترجمہ نہیں کیا جاتا۔ یا نہیں ہونے دیا جاتا۔حالانکہ پراکسی وار کا ہماری سیاست سے چولی دامن کا ساتھ ہے۔یہ وارتقسیم بر صغیر کے ساتھ ہی ہماری زندگیوں میں در آئی تھی۔اس کا آغاز اکتوبر 1947 میں ہو گیا تھا۔

پاکستان کے اس وقت کے ارباب اختیار کشمیر کو اپنی شہ رگ تصور کرتے تھے۔ہر قیمت پر اس کو حاصل کرنے کے خواں تھے۔مگر سیاسی طریقے سے یہ ممکن نہیں تھا۔اس وقت کی متحدہ ریاست جموں و کشمیر کی سیاست کے دو فیصلہ کن کردار تھے۔مہاراجہ ہری سنگھ اور شیخ محمد عبداللہ۔مہاراجہ کے پاس آئینی، انتظامی اور عسکری طاقت تھی۔اس کا خاندان ایک سو سال سے ریاست پر حکمران تھا۔اس طویل عرصے کے دوران خوف و دہشت کے رشتے کے علاوہ بھی ان کا عوام سے کافی گہرا تعلق تھا۔جموں کے ڈوگروں کے علاوہ کئی با اثر مسلمان سیاسی اور عسکری شخصیات کا تعاون اسے حاصل تھا۔

شیخ محمد عبداللہ اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود ایک سحر انگیز کرشماتی لیڈر تھا۔کشمیر کی ساری تاریخ میں اس پہلے اور اس کے بعد کسی سیاسی لیڈر کو اس جیسی مقبولیت نصیب نہ ہو سکی۔وادی کے اندر تو لوگ اسے دیوتا مانتے تھے۔ مگر وادی سے باہر بھی ہر قابل ذکر شخص اسے اپنا لیڈر مانتا تھا۔کشمیر کے ساتھ معاملہ کرنے کے لیے ان دو آدمیوں سے معاملہ کرنا ضروری تھا۔ارباب اختیار ان دونوں میں سے کسی ایک کے ساتھ بھی معاملہ کرنے میں ناکام رہے۔اس وقت کے مخصوص سیاسی اور انتظامی تناطر میں کشمیر میں براہ راست فوج کشی ممکن نہ تھی۔چنانچہ کشمیر میں پراکسی وار یا دوسروں کے ذریعے اپنی جنگ لڑنے کی بنیاد ڈالی گئی۔

یہ بر صغیر کے دو نو ازئیدہ ممالک کے درمیان پہلی پراکسی وار تھی۔اس وار کے نتیجے میں خونریز واقعات کے بعد ریاست جموں کشمیر تقسیم ہو گئی۔کشمیر بر صغیر کے سینے پر ایک ناسور بن گیا۔پاکستان اور بھارت کے درمیان پراکسی وارز کا ایک سلسلہ چل نکلا جو مختلف شکلوں میں اب تک جاری ہے۔مگر پاکستان کا پراکسی وارز کا تجربہ صرف ہندوستان تک محدود نہیں رہا۔یہ تجربہ افغانستان میں سوویت یونین کے ساتھ ایک نئی شکل میں سامنے آیا۔مگر اب کی بار یہ امریکہ کی سوویت یونین کے خلاف پراکسی وار تھی جس میں پاکستان کا کردار ایک فٹ سولجر کا تھا۔مگر اس کو بہت زیادہ عظمت بخشی گئی۔

اس پراکسی وار کو ایک مقدس جہاد کا نام دیا گیا۔ڈالرز کی بوریوں سے لیکر مُلاؤں کے فتووں تک سب حربے آزمائے گئے مگر سوویت یونین کو فوجی طاقت اور پراکسی وار کیذریعے افغانستان سے نہ نکالا جا سکا۔سوویت یونین نے عسکری کمزوری نہیں اپنی اندرونی مجبوریوں کی وجہ سے افغانستان سے نکل جانے کا فیصلہ کیا۔جب جنیوا ایکارڈ پر دستخط ہو چکے تو پراکسی وار کے فٹ سولجر تاریخ کے طلسماتی اور ناقابل فراموش کردار کا روپ دھار کر سامنے آنے لگے۔تصوراتی جہاد اورنرگسیت پسندی میں اس حد تک چلے گئے کہ دیوار برلن کے گرنے کو بھی اپنے کھاتے میں ڈالنے لگے۔

پراکسی وارز کا یہ سلسلہ اگر یہاں رک جاتا ت شاید یہ خطہ مزیدخون خرابے اور غارت گری سے بچ جاتا۔ مگر سوویت انخلاء کے بعد یہ سلسلہ تیز تر ہو گیا۔گزشتہ تین عشروں کے دوران پراکسی کا یہ لہو رنگ کھیل کسی نہ کسی شکل میں جاری رہا۔پاکستان میں اسی کی دھائی سے لیکر جتناخون خرابہ اور قتل و غارت گری ہوئی یہ اسی پراکسی پالیسی کا شاخسانہ تھا۔کتنے بے گناہ معصوم لوگ ، عورتیں اور بچے اس خونی کھیل کی نظر ہوئے۔

پشاور کے سکول کے بچے ہوں یا باچا خان یونیورسٹی کے جواں سال طلبا،سب اسی پراکسی پالیسی کا شکار ہیں۔اتنے خون خرابے کے باوجود کسی میں جرأت نہیں کہ وہ اس پراکسی کا عوامی زبان میں ترجمہ کر ے اور لوگوں کو سادہ زبان میں سمجھائے کہ یہ پراکسی کیا ہے ؟ یہ کون کروا رہا ہے۔ اس کے پیچھے کون ہے ؟اور اس میں عوام کا کیا فائدہ یا نقصان ہے ؟

عوام کو اگر یہ پوری کہانی سمجھ میں آجائے تو وہ سڑکوں پر نکل سکتے ہیں۔احتجاج کر سکتے ہیں۔یا پھر ان رہنماوں کا گریبان پکڑ سکتے ہیں جو ان کا ووٹ لیکر اقتدار کے ایوانوں میں اندھے، بہرے اور گونگے بن کر بیٹھ جاتے ہیں۔وہ خاک و خون میں ڈوبے ہوئے عوام کو شہادت کے عظیم رتبوں پر فائز کرتے ہیں۔ان کو جھوٹی عظمتیں دیتے ہیں۔ تاکہ کوئی اصل سوال نہ پوچھ لے۔کوئی یہ نہ پوچھ لے کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے اور اس میں ہم کیوں مارے جا رہے ہیں۔

One Comment