مذہب اور فلسفہ

ارشد نذیر

wpid-philosophy-vs-religion
صوفی ، صوفیت ، وجد، وجدانیت، روح، روحانیت، الہام و وحی ، انبیاء و نبوت جیسے تمام تصورات فلسفے کے سوالات ہیں اور اتنے ہی اہم جتنا کہ علم التاریخ۔ مشرقی اور اسلامی دنیا نے ان قضایا پر منطقی اور تعقل پسندانہ نتائج پر پہنچنے سے قبل ہی اس کے تمام دروازے بند کر دیئے ہیں۔ یہ دروازے’’ مذہبی آزادی اور مذہبی دلآزاری‘‘ جیسے انسانی حقوق کی آڑ میں بند کئے گئے ہیں۔ لہٰذا اس قسم کے تمام وارداتِ قلبی کا کوئی غیر جانبدارانہ، منطقی اور تعقل پسندانہ تجزیہ نہ ماضی میں کیا گیا ہے اور نہ ہی دورِ جدید میں کیا جارہا ہے۔

اگر ماضی میں اس قسم کی کچھ علمی کاوشیں ہوئی بھی ہیں تو’’ مذہبی جنونیوں‘‘ اور ’’کٹر شریعت پسندوں‘‘ نے بیان کردہ انسانی حقوق کی آڑ میں ان کا گلہ گھونٹ دیا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ تمام اسلامی دنیا میں حقیقی معنوں میں کوئی منطقی اور تعقلیت پسندانہ تحریک موجود ہے اور نہ ہی ایسی کسی تحریک کی پذیرائی کی جا رہی ہے۔

علمِ تاریخ جس معیاری غیرجانبداری ، منطقیت اور تعقلیت پسندی کا تقاضاکرتا ہے، بیان کردہ تمام وارداتِ قلبی اس معیار پر پورے نہیں اترتے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ شدت پسندی ، تعصب اور علم دشمنی جیسے رویے پروان چڑھنا شروع کردیتے ہیں۔ ان نظریات کا پیروکار انہیں اپنی روزی روٹی کا ذریعہ بناتا ہے اور ’’خدا‘‘ تک رسائی ’’حلول‘‘ اور ’’مقصدِ حیات کے حصول‘‘ جیسے حربے استعمال کرکے لوگوں کی جذباتیت سے کھیلتا ہے۔ ایسانظریات کا پرچارک محروم طبقات کے جذبات سے زیادہ کھیلتا ہے ۔

آج کل سماج کی بالائی پرت کے کچھ روشن خیال انگریزی بولنے والے بھی جذباتیت کی اس رو میں بہہ رہے ہیں۔ اس کی کون سی علمی اور نفسیاتی وجوہات ہیں اس کا گہرائی میں جائزہ لینے کی ضرورت ہے جس پر آج تک کوئی کام ہی نہیں کیا گیا۔ پھر اس کا بھی تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کہ کون سا ’’جذباتی خلاء‘‘ ان بالائی طبقے کے نام نہاد پڑھے لکھوں میں پایا جاتا ہے کہ وہ بھی تعقلیت پسندی کے بجائے نری جذباتیت کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ سچ پوچھیئے تو ہمارے ہاں ’’جذبات‘‘ کی اتنی علمی آگاہی بھی نہیں ہے جتنی آج تک علمِ نفسیات نے حاصل کی ہے ۔ مغرب نے علمِ نفسیات کے اس پہلو سے استفادہ کرتے ہوئے اپنے لوگوں کی کردار سازی اور رویہ سازی کا کام لیا ہے ۔

طالبان ہوں، القاعدہ ہو، داعش ہو یا کہ بوکوحرام سب اس بات پر بضد ہیں کہ اُن کا اسلام کا فہم درست ہے اور تمام دنیا کو ہی ان کے بتائے ہوئے ضابطوں کو اپنا لینا چاہئے۔ شدت پسندی اور کٹر پن جیسے عناصر سب میں مشترک ہیں۔ کوئی بھی مروجہ سیاسی نظاموں پر یقین نہیں رکھتا۔ سب کے سب اپنا نظام بزورِ شمشیر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ان کو کھڑا کرنے والوں کو ان کے اندر پائی جانے والی اس ’’جذباتیت‘‘ کا خوب ادراک ہے ۔ جس کو وہ استعمال کرتے ہیں۔

ہمارے ہاں لفظ جبلت، فطرت اور جذبات جیسے الفاظ میں بہت ابہام پایا جاتا ہے ۔ بہت سے لوگ جب ان کی ماہیت کو سمجھنے سے قاصر ہوجاتے ہیں تو وہ اس ’’انسانی فطرت‘‘ کہہ کر چھوڑ دیتے ہیں۔ ان تمام اصطلاحات کے مفاہیم ہر فرد کے ہاں مختلف ہی ہیں۔ یہ مختلف مفاہیم اس کے رویوں کی تشکیل کا سبب بنتے ہیں۔ جہاں کہیں انسانی ذہن الجھتا ہے ۔ مذہب کے اوامر و نہی جیسے خدائی احکامات اس کے ذہنی تجسس کو مار دیتے ہیں۔ ذہن کی یہی سماجی تربیت گناہ اور ثواب کی آڑ میں اُس کی فکری حدود کا تعین کرکے اُسے روایت پسند اور مقلدِ محض بنا کے رکھ دیتی ہے۔ وہ متعین کردہ ذہنی حدود سے باہر سوچنے اور غور و فکر کرنے کے عمل کو شجرِ ممنوعہ سمجھتا ہے۔


دورِ جدید ان الجھنوں سے پردہ اٹھانے کا تقاضا کر رہا ہے۔ ان سے پردہ اُس وقت تک اُٹھ نہیں سکتا جب تک مذہب کی روایتی بنیادوں یعنی فنڈامنٹلز پر سوال نہیں اٹھایا جاتا۔ کیا ہمارا معاشرہ اس کے لئے تیارہے؟ کیا ہماری ریاست اس کو بطور چیلنج قبول کرنے کے لئے تیار ہے؟ کیا ہم بحیثیت قوم گھٹ ملاؤں اور مذہبی کٹر لوگوں سے بنردآزماہونے کے لئے تیار ہیں؟ ان پہلوؤں پرغورکرنے اور اپنی توجہ ان پر مرکوز کرنے سے ہی ہم اپنی منزل کا تعین کر سکتے ہیں۔ بصورت دیگر ہم منزل گم گشتہ ہی رہیں گے۔

اس کے لئے ہمیں ’’فکری آزادی‘‘، ’’آزادیِ تحریر و تقریر‘‘ اور ’’مذہبی آزادی‘‘کے درمیان کوئی فیصلہ کن لکیر کھینچنی ہو گی۔ اس سلسلے میں اب تک جو بھی ہوا ہے وہ سیاست کی نظر ہو گیااور یہ دونوں لفظ اپنے حقیقی معنوں میں سامنے ہی نہیں آسکے بلکہ اگر دریدا کی پسِ ساختیات میں ان کا جائزہ لیا جائے، تو کہا جاسکتا ہے کہ یہ آزادیاں سیاسی کلیشے سے زیادہ کچھ ہیں ہی نہیں۔

علمِ فلسفہ کا زیادہ مسئلہ ’’تصورِخدا‘‘ کی بجائے بیان کردہ تصورات ہیں۔ فلسفہ میں خدا کو کائنات میں کارفرما قوانین یا کونیاتی حدود سے باہر انسانی عقل سے ماورا ، غیر مادی ، لامتناہی اور ناقابلِ فہم ، ہر آن تغیر و تبدل کے مراحل سے گزرتا خیال یا آئیڈیا بھی تصور کیا جاسکتا ہے۔ اس میں ’’یقین‘‘ اور ’’تشکیک‘‘ دونوں کی گنجائش رہتی ہے۔ لیکن فلسفہ کو اس وقت مسئلے کا سامنا ہوتا ہے جب الہامی سچائیوں کو بیان کردہ طریقوں سے جانچ کر پورے سماج بلکہ پوری دنیا پر مسلط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔

اس طرح کی فکر اپنے اندر ہی ’’دوسرے تمام لوگ گمراہ ہیں اور حقیقت صرف ہمارے پاس ہے۔‘‘ جیسے تعصبات لئے ہوئے ہوتی ہے ۔ اس سوچ اور امن کے درمیان پایا جانے والا انمٹ فاصلہ فکری بے چینی اور ضرورت سے زیادہ پُر یقینی جیسی متضاد ذہنی کیفیتوں کو جنم دیتا ہے ۔ دنیا کے تمام مذاہب میں یہ کیفیات موجود ہیں ۔ اسلام میں کچھ زیادہ ہی ایسی کیفیات پائی جاتی ہیں جس کی وجہ سے ہمیں یہاں زیادہ مذہبی تشدد اورعدم رواداری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ سامراج اور بالادست طبقات جب بھی چاہیں ہماری ان کیفیات سے کھیل کر اپنے سیاسی اور معاشی مفادات حاصل کر جاتے ہیں۔

Comments are closed.