نیشنل ایکشن پلان اور دینی مدارس کی بڑھتی تعداد

hqdefault

نیشنل ایکشن پلان کے تحت انتہا پسندی کے خاتمے کے جو دعوے کیے گئے یا کیے جارہے ہیں ان کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔ حکومت جتنا روشن خیالی کی بات کرتی ہے اس کے ردعمل میں انتہا پسندی میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں مشرف دور کی روشن خیالی، پیپلز پارٹی کی لبرل ازم اور نواز شریف کی ترقی پسندی کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں۔ معاشرے میں رجعت پسندی بڑھ رہی ہے، جس کا ایک مظہر ملک میں دینی مدارس کی تعداد میں اضافہ ہے۔

حال ہی میں ایک بین الاقوامی ادارے کی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ پاکستانی عوام کی اکثریت مذہبی قوانین چاہتی ہے، جب کہ ملک میں مساجد اور امام بارگاہوں کی تعداد میں بھی ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ مبصرین کے مطابق حکومت پاکستان ابھی تک ایسا کوئی طریقہ کار طے نہیں کر سکی جس سے مدارس کی بڑھتی ہوئی تعداد کو روکا جا سکے۔ اگر حکومت ایسا کچھ کرنے کا ارادہ بھی کرتی ہے تو اس کے خلاف سخت ردعمل ہوتا ہے۔حکومت ابھی تک ان مدارس کا آڈٹ کرنے کے منصوبے پر عمل درآمد نہیں کرسکی۔

ذرائع کے مطابق ان مدارس کی مالی امداد سعودی عرب اور خلیجی ممالک کے علاوہ ملک کے درمیانے درجے کا تاجر بھی کر رہے ہیں۔ملک میں موجود کالعدم تنطیموں کی بڑھتی ہوئی فلاحی سرگرمیاں بھی مدارس کے اضافے کا سبب بن رہی ہیں۔

ملک کی آبادی کی ایک بڑی تعداد آج بھی بریلوی مکتبہ فکر سے وابستہ ہے لیکن مدارس میں سب سے بڑی تعداد دیوبندی مکتبہ فکر کے اداروں کی ہے۔ اس مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے مدارس کی تنظیم کا نام وفاق المدارس العربیہ ہے۔

اس تنظیم کے ترجمان مولانا عبدالقدوس نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’وفاق المدارس سے 18600 مدارس کا الحاق ہے، جن میں بیس لاکھ کے قریب طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ گزشتہ ایک سال میں مدارس کی تعداد میں دس سے بارہ فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اب صرف غریب علاقوں ہی سے طلبہ نہیں آتے بلکہ متوسط گھرانوں کے بہت سے طلبہ کا رجحان بھی مذہبی تعلیم کی طرف ہو رہاہے۔ کراچی، لاہور، اسلام آباد اور ملتان جیسے بڑے شہروں میں طلبہ کی تعداد خصوصاً بڑھی ہے‘‘۔

افغان طالبان اور پاکستانی طالبان بھی دیوبندی مکتبہ فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کی کئی بڑی سیاسی جماعتیں، جیسا کہ جمعیت علمائے اسلام بھی، اس مکتبہ فکر کی تقلید کرتی ہے۔

بریلوی مدارس کی تنظیم کو تنظیم المدارس کہا جاتا ہے۔ اس تنظیم کے سیکرٹری جنرل مولانا محمد عبدالمصطفیٰ ہزاروی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہمارے مدارس کی تعداد 2014 میں 8300 کے قریب تھی، جو اب9000 کے قریب ہے۔ اس میں پہلے تقریباً گیارہ لاکھ کے قریب طلبہ تھے، جو اب 13لاکھ کے قریب بنتے ہیں۔ ہم تجوید، حفظ اور درس نظامی پڑھاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بریلوی مکتبہ فکر کے تعلیمی ادارے منہاج القرآن نامی تنظیم کے تحت بھی کام کر رہے ہیں‘‘۔

جماعت اسلامی کے تحت چلنے والے مدارس کے وفاق کا نام رابطہ المدارس الاسلامیہ پاکستان ہے۔ اس تنظیم کے مولانا عبدالمالک نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ہماری تنظیم کے تحت 1018 مدارس چل رہے ہیں، جن میں ایک سال کے اندر اندر دس سے پندرہ فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ ان مدارس میں سے450 ادارے طالبات کے لیے ہیں۔‘‘

اہل حدیث مکتبہ فکر کے تحت 1400 مدارس چلائے جا رہے ہیں۔ ان کی وفاقی تنظیم کو وفاق المدارس السلافیہ کہا جاتا ہے۔ اس تنظیم کے رہنما یاسین ظفر نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’ہماری آبادی دوسرے مکاتبِ فکر کے لوگوں کے مقابلے میں کم ہے۔ اس تنظیم کے زیر اہتمام 1400مدارس فعال ہیں، جن میں 39000 کے قریب طلبہ پڑھتے ہیں۔ ان میں19000کے قریب طالبات بھی شامل ہیں۔ گزشتہ ایک سال کے دوران ہمارے اداروں کے طلبہ و طالبات کی تعداد میں دو فیصد اضافہ ہوا‘‘۔

اہل تشیع مکتبہ فکر کے پاکستان میں کل 460 مدارس ہیں۔ ان مدارس کی تنظیم کے رہنما نصرت علی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ان مدارس میں

سولہ ہزار سے لے کر اٹھارہ ہزار تک طلبا زیر تعلیم ہیں۔ ان کی تعداد میں ایک سال میں قریب تین فیصد اضافہ ہوا ہے۔‘‘۔

تحفظ ختم نبوت کے نام سے بھی کئی تنظیمیں اور ان کے مدرسے موجودہیں جن میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔یہ مدرسے سماج میں فرقہ وارانہ اختلافات اور نفرت پر مبنی تعلیم کے پرچار کے علاوہ کچھ نہیں کر رہے۔

پریسٹن یونیورسٹی کے ڈاکٹر بکر نجم الدین نے اس رجحان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ’’یہ رجحان پاکستان میں اداروں کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے۔ بڑھتی ہوئی غربت، دنیا میں اسلام پسندی کا رجحان اور ریاستی تعلیمی ادارو ں کی ناکامی بھی اس کے چند اہم اسباب میں شامل ہیں‘‘۔

اس بارے میں حکومتی ذرائع نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ان مدارس کے علاوہ جماعت اسلامی، جماعت الدعوة، دارالعلوم کراچی، اقرا روضتہ اطفال، مدینہ اطفال، اقراء حدیقہ اطفال اور دعوت اسلامی کے تحت بھی بہت سے دینی تعلیمی ادارے کام کر رہے ہیں۔ لال مسجد سے تعلق رکھنے والی جامعہ حفصہ سے ملحق 16مدارس کا وفاق المدارس سے الحاق منسوخ کیا جا چکا ہے‘‘۔

علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبہ مطالعہ پاکستان کے سابق چیئرمین پروفیسر امان میمن نے اس رجحان پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’جب تک آپ اچھے اور برے طالبان والی پالیسی ترک نہیں کریں گے، پاکستان میں رجعت پسندی بڑھتی رہے گی۔ یہ رجحان اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان میں دینی مدرسوں پر کوئی سختی نہیں کی گئی۔ گزشتہ چند سالوں میں مذہبی رواداری کو سندھ جیسے صوبے میں بھی دھچکا لگا، جیسے صوفیا کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ معاشرے میں مذہبی رجحان کو بڑھانے میں تبلیغی جماعتیں بھی بہت سرگرم ہیں، جنہوں نے پورے کے پورے خاندان تبدیل کر دیے ہیں‘‘۔

قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے ڈاکٹر فرحان حنیف صدیقی نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت میں کہا، ’’قدرتی آفات نے گزشتہ پندرہ سالوں میں لاکھوں پاکستانیوں کو متاثر کیا۔ مذہبی جماعتوں نے ان مواقع پر مصیبت میں گھرے لوگوں کی مدد کی اور بعد میں لوگوں کو اپنی طرف مائل کیا۔ زلزے اور سندھ میں 2008 میں آنے والے سیلاب کی وجہ سے جو ہزاروں خاندان معاشی طور پر بدحال ہو گئے تھے، ان میں سے کئی خاندانوں نے اپنے بچوں کو مدارس میں داخل کرایا، جہاں رہائش اور کھانا مفت ہوتا ہے۔ تاجر طبقے نے بھی مذہبی تنظیموں کی مالی مدد کر کے ان کو مضبوط کیا ہے‘‘۔

DW/News desk

Comments are closed.