طلاق کے اسلامی طریقہ کار کی مدافعت کا فیصلہ

muslims-women

سائرہ بانو مقدمہ میں پرسنل لاء بورڈ فریق ہوگا ، شاہ بانو مقدمہ کی یاد تازہ

لکھنو ۔ 18 اپریل ۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے سائرہ بانو مقدمہ میں ایک فریق بننے اور طلاق ثلاثہ کو ختم کرنے کی کسی بھی کوشش کی شدت سے مخالفت کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی شاہ بانو مقدمہ جیسی محاذ آرائی کے امکانات بڑھ گئے ہیں جس نے 1980 ء کی دہائی میں کافی ہلچل مچادی تھی ۔

سنہ 1985 ء میں اندور کی ایک 62 سالہ خاتون شاہ بانو نے جن کے پانچ بچے تھے اور اُنھیں شوہر نے طلاق دیدی تھی ، سپریم کورٹ سے نان و نفقہ کا حق حاصل کرلیا تھا۔ اُس وقت کی راجیوگاندھی زیرقیادت کانگریس حکومت نے مسلم علماء کی موثر نمائندگی کے باعث مسلم خواتین ’’طلاق کی صورت میں تحفظ کے حقوق ‘‘ ایکٹ 1986 ء منظور کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے فیصلے کو بے اثر کردیا تھا۔

اس طرح مسلم خواتین کو اسلامی احکامات کے مطابق طلاق کے بعد نان و نفقہ سے روک دیا گیا تھا ۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ نے ہفتہ کو سائرہ بانو مقدمہ میں فریق بننے کا فیصلہ کیا ، جنھوں نے سپریم کورٹ سے رجوع ہوکر ایک نشست میں تین مرتبہ طلاق کے طریقہ کار کو ختم کرنے اور اسے غیردستوری قرار دینے کی خواہش کی ہے ۔ سپریم کورٹ نے اُترکھنڈ سے تعلق رکھنے والی سائرہ بانو کی درخواست گزشتہ ماہ قبول کرلی ۔

مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اس معاملہ میں مرکز کی کسی بھی مداخلت کی کوشش کو ناکام بنانے کا فیصلہ کیا ہے ۔ سپریم کورٹ نے اس مقدمہ میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کو بطور فریق قبول کرلیا ہے اور اب بورڈ سائرہ بانو مقدمہ میں بھی مداخلت کی خواہش کرے گا ۔ ظفریاب جیلانی نے کہا کہ عدالت میں اپنے موقف کو موثر انداز میں پیش کرنے کیلئے ممتاز وکلاء کی خدمات حاصل کی جائیں گی ۔

درخواست گذار سائرہ بانو نے مسلم پرسنل لاء ( شرعی ) اطلاق قانون 1937 کی دفعہ 2 کے دستوری جواز کو چیلنج کیا ہے ۔ جس میں کثرت ازدواج ، تین مرتبہ طلاق اور نکاح حلالہ کو جائز قرار دیا گیا ہے ۔ انھوں نے مسلم میریجز ایکٹ 1939 ء کو بھی چیلنج کیا اور کہا کہ یہ ہندوستانی مسلم خواتین کو ایک سے زائد شادیوں سے تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے ۔

عدالت میں پیش کردہ اپنی درخواست میں سائرہ بانو نے خود اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ اُنھیں ظلم اور جہیز کے مطالبات کے ساتھ ساتھ ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا ۔ انھوں نے کہا کہ مسلم خواتین مجبور ہوتی ہیں کیوں کہ طلاق کے تمام تر اختیارات شوہر کے پاس ہوتے ہیں ۔ اس طرح کے امتیازی سلوک اور عدم مساوات کو ترقی یافتہ 21 ویں صدی میں قابل قبول قرار نہیں دیا جاسکتا ۔

نکاح حلالہ کا تذکرہ کرتے ہوئے سائرہ بانو نے کہاکہ جب کسی خاتون کو طلاق دیدی جاتی ہے تو اُس کا شوہر دوبارہ بحیثیت بیوی رجوع نہیں کرسکتا اور اگر وہ حالت نشہ میں بھی یہ حرکت کربیٹھے تو اُسے رجوع کرنے کا اُس وقت تک اختیار نہیں جب تک کہ مطلقہ بیوی حلال نہ ہوجائے ۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ کسی اور مرد سے نکاح کرے اور جب وہ طلاق دیدے تو پھر وہ اپنے پہلے شوہر سے شادی کرسکتی ہے ۔

پینتیس35 سالہ سائرہ بانو دو بچوں کی ماں ہے اور وہ گزشتہ سال اکتوبر میں علاج کیلئے میکے آئی ہوئی تھی کہ اُسے طلاق نامہ وصول ہوا ۔ اس کے بعد اپنے شوہر سے رجوع ہونے کی اُس نے متعدد مرتبہ کوشش کی لیکن کوئی ربط قائم نہ ہوسکا ۔ سائرہ بانو اپنے بچوں کے بارے میں کافی فکرمند تھیں، آخرکار اُس نے عدالت سے رجوع ہونے کا فیصلہ کرلیا ۔

Daily Siasat, Hyderabad, India

Comments are closed.