اسلام کا مقدمہ اور وکلاء اسلام

sibte hasan سبط حسن گیلانی۔ لندن


دنیا میں اس وقت جتنے بھی مذاہب رائج ہیں۔سب کے سب زرعی دور کی پیداوار ہیں۔آج کے مروجہ مذاہب میں سب سے قدیم ہندومت ہے۔ محققین کی اکثریت کا اس پر اتفاق ہے کہ سب سے قدیم مذہبی کتاب رگ وید ہے۔اس کے بعد یہودیت ہے۔ جس کا کلینڈر تقریباً ساڑھے پانچ ہزار سال مکمل کر چکا ہے۔ عیسائیت کی عمر دوہزار سال سے تجاوز کر چکی ہے ۔پارسی۔جینی۔اور بدھ مت۔تقریباً ہم عمر ہیں۔

برصغیر میں جنم لینے والا سب سے کم سن مذہب سکھ مت ہے۔جو چھٹی صدی کا مسافر ہے۔ یہودیت اور عیسائیت کی جنم بھومی فلسطین تھی۔اسلام نے یہاں سے کافی دور مکے میں آنکھ کھولی۔یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ان دونوں مذاہب کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ کافی حد تک ان سے متاثر ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسلام کو ملت ابراھیمی کا ہی سلسلہ کہا جاتا ہے۔اسلام نے ان رسموں اور روایات سے شعوری پرہیز کیا جو اس سے پہلے یہودیت اور عیسایت میں رائج ہوکر ان مذاہب کو ان کی اصل روح سے دور کر چکی تھیں۔

یہی وجہ تھی کہ اس مذہب کو دین حنیف کہا گیااور کبھی مستقیم۔ یعنی سیدھا اور صاف۔بانی اسلامؐ نے اپنے مذہب کو ایک جگہ معتدل مذہب بھی کہہ کر متعارف کروایا۔اسلام دیگر مذاہب کے مقابلے میں رسم ورواج و عبادات سے زیادہ زور انفرادی کردار سازی اور پھر اس کے ذریعے اجتماعی معاشرہ سازی پر دیتا ہے۔یہی وجہ تھی کہ بانی اسلام نے اپنے شہر کے لوگوں سے جو سب سے پہلا خطاب کیا اس کا موضوع اپناذاتی کردار قرار دیا۔

’ ’ اگر میں تم سے کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے دشمن کا لشکر گھات لگائے بیٹھا ہے جو تم پر حملہ آور ہونے والا ہے، تو کیا تم مان لو گے؟۔تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ سب کے سب نے یک زبان ہو کر کہا۔ ہاں۔ اس لیے کہ ابن عبداللہ ہم نے کبھی آپ کو جھوٹ بولتے نہیں سنا۔اپنی زندگی کے آخری دنوں میں لوگوں سے پھر اپنے کردار پر گواہی لی۔ مجھ سے کسی کی کوئی حق تلفی ہوئی ہو؟۔تو مجھے سے کہے تاکہ میں اس کا ازالہ کر سکوں۔

عصر حاضر کی عظیم مستشرقہ کیرن آرم سٹرانگ نے بانی اسلام پر ایک کتاب لکھ کر اس بات کا اعتراف کیا ہے۔ مغربی معاشروں کے سکالرز لکھ رہے ہیں کہ ہمیں امن پسند اور شدت پسند اسلام میں فرق روا رکھنا ہوگا۔انہی دنوں فرانس کے قانون دانوں نے صدر کی طرف سے دہشت گردی میں ملوث پائے گئے مسلم نوجوانوں کی شہریت منسوخ کرنے کے عمل کی مخالفت کی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ہمیں مٹھی بھر دہشت گردوں کے خوف سے اپنی بنیادوی اقدار سے منحرف نہیں ہونا چاہیے۔ ہم اس کا مقابلہ کریں گے مگر اپنی عظیم روایات پر قائم رہتے ہوئے۔

دنیا بلا شبہ ایک گلوبل گاؤں کا روپ دھار چکی ہے۔اور اس گاؤں کی پنچایت میں جو مقدمہ اس وقت ٹاک آف دی ٹاؤنہے وہ بھی بے شک اسلام ہی ہے۔اور یہ اسلام کی تقریباً ڈیڑھ ہزار سالہ زندگی میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ اسے پوری بنی نوع انسان کی عوامی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑا ہے۔اور بدقسمتی ملاحظہ کیجیے کہ اس عظیم مذہب پر یہ کڑا وقت غیروں کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کے اپنے نام لیواوءں کی وجہ سے آیا ہے۔ اس مقدمے کا اہم ترین حصہ جو دنیا اس وقت ڈسکس کر رہی ہے۔ وہ بھی کردار ہی ہے۔ایک مسلم کا انفرادی اور پھر اجتماعی کردار۔

اور سب سے بڑا سوال یہ ہے جو مذہب اپنے پیروکاروں کے اعتبار سے دنیا کے بہترین انسان مہیا نہیں کر سکا وہ رہنمائی کا دعویٰ کیسے کر سکتا ہے؟ اور آج کی مہذب دنیا کی ترقی اور امن میں اس مذہب یا اس کے پیروکاروں کا حصہ کتنا ہے؟۔یہ ایک عالمی سطح کا سوال ہے۔ جس کا جواب اس مذہب کے علما ٰ کی ذمہ داری ہے۔

دوسری طرف بالعموم مسلم دنیا اور بالخصوص پاکستانی سماج ہے۔ جسے اپنی مذہبی شناخت پر سب سے زیادہ اصرار ہے۔لیکن کردار ؟ ۔ اس کی ایک جھلک دنیا نے اس ہفتے کے ایک مذہبی دھرنے میں دیکھی جو ریاست کے دارالحکومت میں مسلسل چار دن دیا گیا۔اس دھرنے میں شریک عام مسلمان کو چھوڑیے قول و فعل کی جوجھلک مذہبی رہنماوں نے پیش کی؟۔اس کا ہزارواں حصہ بھی کیا اس مذہب کی اخلاقی تعلیمات کی عکاسی کر سکتا ہے؟۔

میرا خیال ہے ہم اس وقت مذہب اور اس کی تعلیمات کو ایک طرف رکھ کر عام طور پر بنیادی انسانی اخلاق کی بات کریں تو زیادہ مناسب رہے گا۔جس کی ہم ناخواندہ سے ناخواندہ انسان سے بھی توقع رکھ سکتے ہیں۔یہاں مسلسل چار دن جس قول و فعل کا مظاہرہ کیا گیا؟اس کے بعد کیا ہم بنیادی طور پر مہذب انسان کہلوانے کے حقدار ہیں؟ اگر پھر بھی ایسا سمجھتے ہیں تو کس بل بوتے پر؟کیا ہم اس قابل بھی نہیں رہے کہ اپنے گریبان میں جھانک کر اصلاح کی کوئی تدبیر سوچ سکیں۔

کیا ہماری صفوں میں ایسے علما کا وجود اُٹھ چکا جو باہر نکل کر کلمہ حق بلند کرکے اپنے اسلاف کی پیروی کر سکیں؟جو دنیا کو بتا سکیں کہ اس طوفان بدتمیزی کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں۔یہ سماجی پستی کی ایک شکل ہے۔ جس کی کئی دیگر سماجی و سیاسی وجوہات ہیں۔کیا ریاست کے مقتدر حلقوں میں ایسے انسان موجود ہیں جو ان سماجی و سیاسی وجوہات کا ادراک کر سکتے ہوں؟ اور ان علامات و وجوہات کا ریاستی سطح پر تدارک کرنے کی قوت و صلاحیت بھی رکھتے ہوں؟

Comments are closed.