ان کا راج ایسے ہی چلے گا !!۔

Razak khatti

رزاق کھٹی

پاکستان کی قومی اسمبلی ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام کی نمائندہ ایوان سمجھی جاتی ہے، اس ایوان میں چند ایک کو چھوڑ کر باقی جتنے بھی ارکان ہیں وہ یا تو جدی پشتی اس ایوان میں آتے رہے ہیں یا وہ ہیں جن کا تعلق اس طبقے سے ہے جسے عوام کے مسائل کا ادراک ہی نہیں۔

اس ایوان میں ان جرنیلوں کے بیٹے اور پوتے بھی ہیں جنہوں نے نہ صرف اس ایوان کو بے توقیر کیا بلکہ جمہوریت کو اٹھتے بیٹھے صبح شام گالیاں بھی دیں۔

اس ایوان میں موجود ایک بڑی اکثریت منتخب ہونے کے بعد اپنی آئینی مدت پوری کرنے تک ایک لفظ بھی اپنے منہ سے ادا کرنے کی زحمت نہیں کرتی۔،

ہم انہیں پھر بھی قانون ساز کہتے ہیں، جو اپنے اعمال سے روزانہ اس ملک کے قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہیں۔ آپ کو یہ کہیں مل جائیں ، آپ ان سے گپ شپ کریں، ملک کے عدالتی نظام کی بات کریں تو یہ اپنے فلسفہ جرگہ سے آپ کو قائل کرنے کی کوشش کریں گے۔ وہ ایسے دلائل دیں گے کہ آپ ان کی بات سننے پر مجبور ہوجائیں گے، وہ آپ کو بتائیں گے کہ اس ملک کا عدالتی نظام نہ صرف کمزور بلکہ بے اثر بھی ہے ۔ اس سے بہتر ہے کہ جرگے کا سہار لیا جائے، وہ بتاتے ہیں کہ سارے معاملات سب مل بیٹھ کر حل کرتے ہیں اور جو قصور وار ثابت ہوجائے اس پر جرمانہ عائد کرکے اسے عدالتوں کے چکر سے آزاد کرادیا جاتاہے۔

ان کے دلیلوں میں وزن نہیں ہوتا۔ ہمارا عدالتی نظام ہی بے وزن ہو تو پھر جرگے والوں کی دلیلوں میں وزن تو ہوگا۔!!

ماضی قریب کو بھی چھوڑیں، حال ہی کی بات کرتے ہیں، چند واقعات کا ذکر کرتے ہیں اور اندازہ لگائیں کہ ہم پستی کے کس درجے پر موجود ہیں۔ ہم جو دنیا کو درس دیتے پھرتے ہیں کہ ہم ہی ایک عظیم قوم ہیں اور یہ بھی دعوے کرتے ہیں کہ سارے جہاں کا درد ہمارے سینے میں ہے۔ ہمارے مبلغ کو معلوم ہو کہ وہ ایک معاشرے کی صورت میں کس حد تک ذلت کی کھائی میں گر چکے ہیں۔

بدین زیریں سندھ کا آخری ضلع ہے، تیل و گیس اور قدرتی وسائل سے مالامال ہے۔ لیکن اس کا شمار پاکستان کے پسماندہ اضلاع میں ہوتاہے۔ ٹھرے( کچی شراب) گھٹکا اور مین پوری اس علاقے سمیت ٹنڈو محمد خان ،ٹھٹھہ ، سجاول، ٹنڈوالہیار، میرپور خاص، اور دیگر اضلاع کی پچاس فیصد سے زائد نوجوان نسل کو نگل چکی ہے۔

اس ضلع میں شہناز نامی ایک پانچ سال کی بچی کو مسلسل زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا گیا، اس واقعے میں ملوث دو ملزمان گرفتار ہوگئے تو انہوں نے پولیس کو بتایا کہ جب پانچ سال کی شہناز کے ساتھ وہ باری باری زیادتی کرتے اور درد کے مارے جب وہ چیخیں مارتی تو وہ اس کو خاموش کرانے کیلئے مکے اور چانٹے مارتے، وہ تشدد اور زیادتی کا درد برداشت نہ کرسکی اور مرگئی۔

’’ہم نے اس کی لاش کو ایک کپڑے میں باندھا اور گھٹڑی بنائی، ماتلی کے ایک قبرستان میں دفنانے کیلئے لے جارہے تھے کہ کہ بس کے کنڈیکٹر کو شک ہوا، اس نے چیک پوسٹ پر موجود پولیس کو اپنے شک کے بارے میں بتایا تو گٹھڑی میں سے شہناز کی لاش نکل آئی ، ہم اس سے پہلے بھی اس طرح کی چار بچیوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کرچکے ہیں ان کی میتیں بھی اسی قبرستان میں دفن ہیں جہاں ہم شہناز کی لاش لیکر جارہے تھےِ‘‘ گرفتاری کے بعد قاتل پولیس کو بتارہے تھے۔

اس کہانی کا ایک پہلو اور بھی ہے، شہناز اور اس کے گھر کے تمام افراد بھیک مانگتے ہیں، شہناز کی پھوپھو اپنے بھائی کے گھر گھومنے آئی تھی، جب واپس اپنے گاؤں جانے لگی یہ کہہ کر شہناز کو اپنے ساتھ لے گئی کہ وہ اس کو اپنے گھر لےجارہی ہے، اس کی پھوپھو کے بقول جب وہ بس اسٹاپ پر پہنچی تو اس نے گھر جانے کے بجائے کسی اور گاؤں جانے کا فیصلہ کیا اور شہناز کو بس اسٹاپ پر موجود بھانجوں کے حوالے کیا کہ وہ اسے گھر چھوڑدیں۔ شہناز اب اپنے دو پھوپھی زاد بھائیوں کے ساتھ تھی اور وہ اسے گھر چھوڑنے کے بجائے اپنے ساتھ لے گئے ، گھر والے سمجھتے رہے کہ وہ اپنی پھوپھو کے ساتھ ہے، پتہ تب چلا جب اس کی لاش ملی، ملزمان گرفتار ہوگئے ، اللہ اللہ خیر صلا!!۔

میں ایک ، دو اور تین ہفتے تک انتظار کرتا رہا لیکن کہیں سے کوئی آواز نہیں آئی، پاکستان کے الیکٹرانک میڈیا میں اس واقعے کو کوئی اہمیت نہیں ملی، اس کیس کی سنگینی کو سماج میں ہونے والی دیگر برایوں کی طرح سمجھ کر بھلادیا گیا۔ شہناز کا باپ نہ صرف غریب تھا لیکن ایک غیر مسلم بھیل بھی تھا

پاکستان میں شراب پینا ممنوع ہے،1956میں بھارت سے آئے ہوئے ہمارے پکے مولویوں کے احتجاج پر سرکاری پارٹیوں میں شراب پر پابندی عائد کی گئی، اس کے بعد باقی کام سیکیولر بھٹو نے کیا جن مولویوں کے مطالبے کے آگے اس نے اپنے فکر کے خلاف فیصلے کیے اسی مولویوں نے آخر میں اسے تختہ دارتک پہنچایا۔ اب پاکستان میں ایک بڑی اکثریت آج بھی شراب نوشی کی دلدادہ ہے لیکن کسی میں اتنی جرات نہیں کہ وہ اس پر پابندی کے خلاف کہیں آواز اٹھائے۔

سندھ میں شراب کا استعمال ملک کے دیگر صوبوں سے زیادہ ہے، شراب کی قیمت زیادہ ہونے کے باعث سندھ کے بیشتر اضلاع کے دیہاتوں میں کچی شراب بڑے پیمانے پر کشید کی جاتی ہے۔ اسے مقامی زبان میں ’’ ٹھرا‘‘ کہتے ہیں۔ کچھ ماہ قبل ٹنڈو محمد خان میں کچی شراب کے استعمال سے پچاس سے زائد لوگ مرگئے، لیکن ٹھرے کا کام اسی زور و شور سے جاری ہے، کچھ روز یہ واقعہ گفتگو کا مرکز رہا لیکن لوگ اسے بھول گئے۔

ٹنڈو محمد خان میں پیپلزپارٹی کی ذیلی ونگ کے ایک مقامی عہدیدار کی شراب کی بھٹی سے بننے والی شراب سے یہ تمام ہلاکتیں ہوئیں، جن میں خواتین بھی شامل تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ ٹنڈومحمد خان کے قریب انصاری شوگرملز کے ساتھ ایک پلانٹ لگایا گیا ہے جس میں الکوحل تیار کیا جاتا ہے ، کچی شراب تیارکرنے والے بیشتر لوگ اس فیکٹری سے کیمیکل خرید کرتے ہیں، کیوں کہ اس کیمیکل کے استعمال سے کچی شراب ایک دن میں ہی بن جاتی ہے، جبکہ اس کے حقیقی فارمولا کے تحت کم سے کم ایک ہفتہ لگ جاتا ہے۔

جس کچی شراب کے استعمال سے یہ واقعہ پیش آیا ان دنوں دیوالی قریب تھی اور کچی شراب غریب ہندو زیادہ استعمال کرتے ہیں کیوں کہ ایک سو روپے میں ایک تھیلی مل جاتی ہے جس سے دو بندے اپنا کام چلالیتے ہیں۔ ایک ہزار تھیلیاں تیار کی گئیں ، جس میں سے ڈیڑھ سو تھیلیاں ایک بارات والوں نے خرید کیں ، جبکہ باقی آس پاس فروخت کی گئیں، پانچ سو تھیلیاں دیوالی کیلئے رکھ دی گئیں تاکہ ریٹ اچھے مل جائیں۔

کہا جاتاہے کہ کچی شراب بنانے والے نے اس میں کیمیکل زیادہ ڈال دیا، جس کے نتیجے میں جیسے ہی خریداروں نے وہ شراب استعمال کی تو اسی وقت گرتے گئے ، کئی اندھے ہوئے ، کوئی موقعے پر ہی دم توڑگیا، کسی نے ہسپتال میں پہنچنے کے بعد زندگی ہاردی، پولیس کیسز سے بچنے کیلئے بڑی تعداد میں لوگوں نے بات چھپادی ، اس کے باوجود پچاس لوگوں کی ہلاکت رپورٹ ہوئی۔ جیسے ہی خبر باہر آئی تو شراب بنانے والے نے فرار کی راہ اختیار کی ، اسی رات اس کا بھائی یہی شراب استعمال کرنے سے مرگیا، صدمے میں والد بھی فوت ہوگیا، پولیس اس کے بھینسوں کے باڑے پر بندھی تمام بھینسیں ساتھ لے گئی۔ اور لوگوں نے اس کے گھر کو آگ لگادی۔ ملزم کچھ روز بعد گرفتار ہوگیا، بات آئی گئی ہوگئی، اس طرح کے واقعات وقفے وقفے کے ساتھ ہوتے رہتے ہیں لیکن ان کو روکنے کیلئے کبھی بھی کوئی حکمت عملی نہیں بنائی جاتی۔

ایبٹ آباد میں ایک نوجوان لڑکی کو ایک جرگے نے اس بنیاد پر زندہ جلاڈالا کہ اس نے اپنی سہیلی کی مدد کی تھی کہ وہ اپنی مرضی سے شادی کرلے۔ جس لڑکی نے اپنی مرضی سے شادی کی اس کا خاوند دولتمند اور طاقتور تھا اس لیے اس کا کچھ بھی نہیں بگڑا، لیکن شامت آئی تو اس غریب کی جس کا باپ کراچی میں مزدوری کرکے اپنے گھر پیسے بھیجتا تھا کہ اس کےبچے سکون سے رہ سکیں، اس جرگے کا سربراہ کوئی اور نہیں ایک ایسا شخص تھا جسے مقامی لوگوں نے منتخب کرکےناظم بنایا تھا تاکہ وہ ان کے مسائل حل کرے۔

رسم و رواج کی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ اس بچی کی ماں بھی خوف کے مارے دو دن چپ رہی ، جب بات میڈیا تک پہنچی تو پھر اس نے بھی لب کشائی کی۔ اس بچی کو تشدد کیا گیا، پھر اسے بے ہوش کرکے ایک سوزوکی پک اپ کی سیٹ کے ساتھ باندھ کر آگ لگادی گئی۔ آپ اگر بچوں کے اور خصوصا بچی کے باپ ہیں تو تھوڑٰ دیر کیلئے سوچیں کہ کیا ہوا گا، ہم یہ سوچ کر لرز جاتے ہیں لیکن ہمارے اس پورے سماج کو کچھ بھی نہیں ہوا، ہم اسے ایک واقعے کی طرح بھول گئے۔

اب سندھ ضلع نوشہروفیروز کے قصبے پھل سے ایک خبر آئی کہ ایک مقامی وڈیرے کی کار کو جگہ نہ دینے کے جرم میں ایک جرگے میں فیصلہ ہوا کہ وہ منہ میں جوتا دباکر اس وڈیرے سے معافی مانگیں گے، جب اس فیصلے پر عمل ہوا تو کسی نے موبائل فون سے ویڈیو بنادی اور وہ سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کردی۔ دیکھتے دیکھتے بات ٹی وی اسکرین تک پہنچ گئی ، وڈیرہ گرفتار بھی ہوگیا، لیکن کچھ دنوں بعد اس کی ضمانت ہوجائے گی ، اس لئے کہ جن کے ساتھ زیادتی ہوئی وہ اپنی مدعیت میں مقدمہ درج کرانے کیلئے تیار نہ تھے، اس لیے مدعی بھی سرکار بنی۔ سندھ میں اس طرح کے واقعات کوئی نئی بات نہیں، یہ وڈیرے اور جاگیردار جب فیصلے کرتے ہیں تو کسی کی مجال ہے جو اس کے خلاف کوئی بات کرے، کیوں کہ سرکاری قانون اور ادارے انتھائی کمزور اور فرد زیادہ طاقتور ہیں۔ جن پر پر جرم ثابت ہوئے تو چٹی میں یہ قصور واروں کی بچیاں بے قصور ثابت ہونے والوں کو دے دیتے ہیں ، لیکن کوئی اف تک نہیں کرتا۔

یہی سبب ہے کہ ملک کے سب سے بڑے عوامی نمائندگی کے ایوان میں جو موجود ہیں وہ عوام کی نمائندگی کا حق ادا کرنے کے بجائے اپنی جدی پشتی رسومات کی تقلید کرتے ہیں تاکہ ان کا راج چلتا رہے

اور ان کے راج میں معصوم شہناز بے آبرو ہوکر مرتی رہے گی، پسند کی شادی تو درکنار اس کار خیر میں دوستی کی خاطر حصہ ڈالنی والی بچی کو جلایا جاتا رہے گا، زہریلی شراب پی کر مرجانے والے اس خوف سے فریاد نہیں کریں گے کہیں پولیس ایک کیس اور ہی نہ بنادے۔ اور منہ میں جوتا ڈال کر معافی مانگنا تو یہاں کا رواج بن چکا، ہر کوئی اپنے اپنے حصے کی بے عزتی برداشت کرتا ہے لیکن بولتا نہیں !!۔

One Comment