علی حیدر گیلانی بازیابی کے بعد گھر پہنچ گئے

ali

تین برس قبل اپنے آبائی شہر ملتان سے اغوا ہونے والے علی حیدر گیلانی کو افغانستان میں افغان اور امریکی افواج کے مشترکہ آپریشن کے نتیجے میں بازیاب کرایا گیا تھا۔ کل انہیں پاکستان کی فضائیہ کے خصوصی طیارے کے ذریعے کابل سے لاہور پہنچا دیا گیا ہے۔ لاہور میں گیلانی ہاؤس کے باہر کئی افراد نے علی حیدر گیلانی کا استقبال کیا۔

پاکستان کے وزیرِ اعظم کے حکم پر ایک خصوصی طیارہ علی حیدر گیلانی کو لینے کے لیے کابل پہنچا جو انھیں وہاں سے لاہور لایا ہے۔

دفترِ خارجہ کے مطابق طیارے پر علی گیلانی کے علاوہ ان کے بھائی قاسم گیلانی بھی موجود ہیں جو انھیں لینے کابل پہنچے تھے۔

پاکستان کے دفترِ خارجہ کے بیان میں علی گیلانی کی بازیابی اور پاکستان واپسی کے لیے افغان نیشنل آرمی اور نیٹو افواج کی کوششوں کی تعریف بھی کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ پاکستان پرامید ہے کہ خطے سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مل کر کام کرنے کا سلسلہ جاری رہے گا۔

کابل سے لاہور کے لیے روانہ ہوانے سے قبل علی حیدر گیلانی کا کہنا تھا ،’’میں افغان افواج کا شکر گزار ہوں، جنہوں نے مجھے دہشت گردوں سے بازیاب کرایا۔ افغان افواج کی کوشش سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغان حکومت خطے میں امن چاہتی ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ان کے بازیاب ہونے کے بعد امریکی فورسز نے انہیں کابل میں علاج کی سہولت فراہم کی تھی۔

بین الاقوامی خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق علی حیدر گیلانی کی بازیابی کے لیے امریکی اور افغان افواج کا مشترکہ آپریشن افغانستان کے صوبے پکتیکا میں کیا گیا تھا۔ اور اس آپریشن میں 4 دہشت گرد ہلاک ہوئے۔ علی حیدر گیلانی کو ان کے آبائی شہر ملتان سے پاکستان پیپلز پارٹی کے دفتر کے باہر سے 9 مئی 2013 کو مسلح افراد نے اغوا کیا تھا۔

گیلانی خاندان کے مطابق اغوا کاروں نے علی حیدر گیلانی کی رہائی کے لیے کبھی تاوان نہیں مانگا تھا بلکہ القاعدہ کے قیدیوں کی رہائی کے لیے پاکستان کی حکومت پر دباؤ ڈالنے کا مطالبہ کیا تھا۔

اسلام آباد میں موجود سابق وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے بیٹے کی واپسی پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’جب ہمیں علی حیدر کی بازیابی کی خبر ملی تو میں اپنے خاندان والوں کے ساتھ موجود نہیں تھا اور اب بھی دوپہر تک لاہور جاؤں گا اور شاید بلاول ہی کے ساتھ جاؤں۔ لگتا ہے کہ میں اپنے بیٹے کا نہیں میرا بیٹا میرا استقبال کرے گا۔‘

یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھا کہ علی حیدر گیلانی کے اغوا کے تین برس کے دوران انھوں نے کوشش کی تھی کہ وہ خود کو مصروف رکھیں اور اس واقعے کے بارے میں کم سے کم سوچیں اور اسی طرح وہ یہ وقت گزارنے میں کامیاب ہو سکے۔

Comments are closed.