زہر آلود تعلیم وتربیت۔۔۔ آخری فتح حیوانیت کی

سبط حسن

56e3d50ff0d61

’’۔۔۔ ایک بہت خوبصورت لڑکی ہے، اتنی کہ جیسے خوبصورتی او رپاکیزگی کے تصوّر سے تراشی ہو۔۔۔ اچانک ایک حیوان جیسے انسان کے ہاتھ پڑجاتی ہے، جو اس سے جبراًزنا کرتا ہے اور وہ ٹوٹی لڑکی اپنی حفاظت کے لئے کتا فروش کے یہاں جاتی ہے اور ایسا کتا خریدنا چاہتی ہے جو صحیح معنوں میں اتنا حیوان ہوکہ بڑے سے بڑے وحشی انسان سے اس کی حفاظت کرسکے۔۔۔ کتا فروش ایسا کتا تلاش کرتا ہے اور وہ لڑکی اسے خرید لیتی ہے۔ کتے کی روزانہ سکھلائی کی جاتی ہے۔۔۔ کسی اجنبی پر جھپٹنے اور کاٹ کھانے کی۔۔۔ آہستہ آہستہ کتے کو اس لڑکی سے اس قدر لگاؤ ہوجاتا ہے کہ وہ اپنی جان پر کھیل کر بھی اس لڑکی کی حفاظت کرتا ہے۔

اور پھر۔۔۔ وقت آتا ہے، جب لڑکی کو کسی مرد سے محبت ہوجاتی ہے۔۔۔ ایک طرف لڑکی اپنے محبوب سے ملنے کے لئے دیوانی ہے اور دوسری جانب اس کا کتا اس کی حفاظت کے لئے اس قدر پختہ ارادہ رکھتا ہے کہ لڑکی کا محبوب اس کے پاس آنے کی جرأت بھی نہیں کرسکتا۔

اب حیوانیت سے گھبراکر حیوانیت کی پناہ لینے والی لڑکی کے پاس کوئی راستہ نہیں کہ وہ پھر سے انسانیت کی کسی راہ پر قدم رکھ سکے۔۔۔ اور اسے کتّے کو ہی قبول کرنا پڑتا ہے۔۔۔ ہم جنس کی طرح۔۔۔‘‘۔

۔۔۔ ایک طرح کی حیوانیت سے گھبرا کر انسان دوسری طرح کی حیوانیت کی پناہ لیتا ہے۔ ایک اندھیرا ہے جو مسلسل بنا رہتا ہے۔۔۔ ایک تشدّد ہے جو مسلسل بنا رہتا ہے۔۔۔ ایک انتقام ہے جو مسلسل بنارہتا ہے۔۔۔ اور انسان ایک بار جب خون میں اور آنسوؤں میں بھیگنے لگتا ہے تو بھیگتا چلا جاتا ہے۔۔۔ صرف کچھ انسان ہوتے ہیں جو حیوانیت سے گھبرا کر حیوانیت کی پناہ نہیں لیتے اور انسانیت کی دھوپ میں کھڑے ہوکر اندھیروں کی داستان کہہ سکتے ہیں، سن سکتے ہیں۔۔۔ ٹھیک یہی پل تھا، جب سارا شگفتہ کی ایک نظم کا ایک ٹکڑا ہوا میں تیرنے لگا۔۔۔’’میرے آنگن میں جتنی دھوپ تھی، میں نے تیرے کپڑے سکھادیے۔۔۔ نظم پڑھتے ہوئے آنکھ بھر آئی۔۔۔ کہا۔۔۔ کمبخت مرگئی۔۔۔ جو انسانیت کی دھوپ میں کسی کے آنسوؤں سے بھیگے ہوئے یا خون سے بھیگے ہوئے کپڑے سکھانے کی جرأت کرے گا، اس کو کیسے زندہ رہنے دیا جائے گا۔۔۔‘‘(اک تھی سارہ، امرتاپریتم)

سارا شگفتہ نے جتنی دفعہ شادیاں کیں، اُتنی دفعہ ہی خودکشی کی کوششیں بھی۔۔۔ وہ ساری زندگی کسی انسان کا ساتھ ڈھونڈنے کی کوشش میں لگی رہی مگر حیوانوں سے اس کی مڈبھیڑ ہوتی رہی۔ اس نے تیس سال کی عمر میں کامیاب خودکشی کی۔ سارا کو زندگی سے پیار تھا مگر زندگی کی گنجائش نہ بن سکی۔ اسی تنگی او رپھانس کو اس نے اپنی شاعری میں رستہ دیا۔ وہ مردوں اور روایت کے کولہو میں سے کچلتی ہوئی، پور پور دکھ سہتی ہوئی گزری۔ اس کی روح اور جسم کا دکھ اس کی شاعری میں ڈھلا۔ یہ تماش بینوں کی روایتی شاعر نہیں کہ جس میں جسم کے چسکوں کی غلاظت ہو۔ سارا کی شاعری پگھلتی ہوئی روحوں اور صدیوں سے سلگتی ہوئی عورتوں کے دکھوں کا کشید کیا ہوا عرق ہے۔ اسے زندگی سے پیار تھا مگر وہ جی نہ سکی۔ اس نے احتجاج کے طور پر خودکشی کی۔ ایک آخری کوشش، یہ بتانے کے لئے کہ یہ معاشرہ انسانوں کو حیوان بناتا ہے اور سب حیوان مل جل کر ایک دوسرے کو کھا جاتے ہیں۔

ایک لڑکی مرضی سے شادی کر لیتی ہے۔ بیچ بازار لوگوں کے سامنے، لڑکی کا باپ، اس کے بھائی اور منگیتر مار مار کر نیچے گرادیتے ہیں اورپھر اینٹوں کی ضربیں لگا کر سرکچل کر ماردیتے ہیں۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ باپ او ربھائی کیا ہیں؟ روایت سے ملنے والے پاگل پن اور حیوانیت کے نمائندے۔۔۔ اسی روایت میں باپ اور بھائی’’بابل‘‘ سمجھے جاتے ہیں اور بابل کا ویہڑا تحفظ اور سلامتی کی ضمانت دیتا ہے۔ کیا یہ ضمانت غلامی سے مشروط ہے؟ یعنی یہ کہ عورتوں کی قسمت جس طرح اس پاگل پن اور حیوانیت نے لکھ دی، اس سے انحراف کی صورت میں تحفظ کی گارنٹی نہ رہے گی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ’’بابل کے ویہڑے‘‘ کے ساتھ تعلق دراصل غلامی ہی ہے، جذباتیت جو بھائی او رباپ کے ساتھ منسوب ہے، محض مجبور بنانے اور جذباتی اپاہج پن جاری رکھنے کا ایک آلۂ کار۔۔۔ جب باپ اور بھائیوں نے منصوبہ بندی کی، جب وہ صبح سویرے گھات لگا کر بیٹھ گئے، جب انہوں نے تشدّد شروع کیا اورجب انہوں نے اپنی بچی (جو تپتے فرش پر گر گئی) کے سر پر اینٹ ماری۔۔۔ اس سارے سلسلے میں کہیں جذباتیب، بچی سے تعلق اور درد کا نشان بھی نظر نہیں آتا۔۔۔ ایک دھوکہ تھا، جس نے بتایا کہ یہ بچی فلاں کی بیٹی اور فلاں کی بہن تھی۔۔۔ ایک فریب۔۔۔ آخر میں پتہ چلا کہ باپ اور بھائی دراصل اس حیوانیت کی روایت کے محافظ تھے جہاں کوئی رشتہ نہیں ہوتا، انسان بھی نہیں ہوتے، سب اسیر ہیں، شکار ہیں۔۔۔ بچی کا یہ قتل، ہزاروں سال کی اسی روایت کا ایک تسلسل ہے، توسیع ہے۔


II

ان کی شادی کو دس سال گزر چکے ہیں۔ لڑکا، اپنے دیگر بہن بھائیوں کے ساتھ، اپنی امّی کے ساتھ ان کے کمرے میں سوتا ہے۔ لڑکے کا اپنی بیوی کے ساتھ ازدواجی تعلق ہرگز نہیں۔ وہ اب بھی باکرہ ہے۔ سارا دِن چاکری کرتی ہے۔ ماں باپ اور معاشرے کے غلیظ ایجنٹ کہتے ہیں کہ جیسے تیسے گزارہ کرو۔ لڑکی نے ہمت کی اور مزید تعلیم کے لئے ایک ادارے میں داخلہ لے لیا۔ اس کے شوہر نے انتقامی کارروائی کی۔ وہ چند روز اپنی بیوی کے کمرے میں سویا اور اسے حاملہ کردیا۔۔۔ ساتھ ہی لڑکی سے کہہ دیا کہ اگر اس نے حمل گرانے کی غلطی کی تو وہ تمام رشتے داروں میں ڈھنڈورا پیٹ دے گا کہ اس حمل کا نطفہ اس کا نہ تھا۔

تاریخ میں عورت کی اسیری دراصل اس کی ماں بننے کی فطری صلاحیت کے باعث ہی ہوئی۔ مرد جنسی میلاپ کے بعد، اپنی مردانگی کی فتوحات بڑھانے کے لئے فرار ہوجاتا تھا جبکہ عورت کو حمل ٹھہر جانے کی صورت میں یا پاداش میں نوماہ بچے کو پیٹ میں پالنا او رپھر پیدائش کے بعد بڑا ہونے تک اس کی پرورش کرنا ہوتی تھی۔ اسی حیاتیاتی مجبوری کے باعث قدیم تریب ادوار میں عورت بے بس رہی۔ حالات وواقعات کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ عورت کی اس حیاتیاتی ذمے داری میں تبدیلیاں آتی رہیں۔ مثال کے طور پر کھیتی باڑی کرنے سے پہلے کے ادوار میں لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہتے تھے۔ سفر کی دشواریوں کے باعث حمل اور بعد از پیدائش بچوں کی نگہداشت خاطر خواہ ممکن نہ تھی۔ اس دور میں ایک عورت اپنی پوری زندگی میں دویا تین مرتبہ سے زیادہ حاملہ نہ ہوتی تھی۔ جب لوگوں نے کھیتی باڑی شروع کی تو وہ ایک جگہ پر بس گئے۔ اس قیام کے بعد ایک عورت اپنی زرخیزی کی عمر میں آٹھ سے دس بار حاملہ ہوجاتی تھی۔

صنعتی انقلاب اور بالخصوص عالمی جنگوں کے بعد، جب مرد حضرات کی تعداد نہایت کم ہوگئی تھی، عورتوں کو گھر سے باہر تقریباً ہر کام سنبھالنا پڑا۔ یہی وہ دور تھا جب مصنوعی طور پر حمل کو ساقط کروایا جاسکتا تھا۔ چونکہ اس دور میں عورت کی حیاتیاتی ذمے داری یا مجبوری ترقی کی راہ میں حائل ہورہی تھی، اس لئے اسقاط حمل کے حق میں تحاریک شروع ہوگئیں۔ اس حق کے مل جانے سے عورت کے لئے روایتی اور حیاتیاتی مجبوریوں سے آزادی کے امکانات پیدا ہونے لگے۔

ایک فرانسیسی مصنفہ سیمون کا خیال ہے کہ عورت اور عورت سے منسلک مخصوص مزاج دراصل معاشرتی اختراع ہے۔ یعنی یہ کہ عورت فطری طو رپر اپنی حیاتیاتی ذمے داریوں پر قابو پانے کے بعد اب کچھ بھی کرسکتی ہے۔ کام کرنے کے سلسلے میں اب مرد اور عورت کے درمیان تفریق ایک بے معنی بات ہے۔ بلکہ یہ سمجھنا چاہئے کہ کوئی فرد دراصل اپنے کام کے اعتبار سے شناخت حاصل کرتا ہے، اس بنیاد پر نہیں کہ وہ مرد ہے یا عورت۔۔۔

III

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جنس کی بنیاد پر تفریق کا پھر کیا مطلب ہے؟ تاریخ میں اب تک مرد اور عورت نے مل کر ارتقاء کی منزلیں طے کیں۔ تمام کاموں کو کرنے کے لئے محنت کی تقسیم کی گئی۔ محنت کرنے میں مرد اور عورت دونوں کی حیثیت مساوی تھی۔ آخر کمتری اور بڑائی کے مخصوص تصورات اور روایات کیونکر پیدا ہوئیں۔۔۔؟

ایک فرانسیسی مفکر فوکونے ایسے ہی کمتر واعلیٰ رشتوں کو سمجھنے کی کوشش کی۔ اس کا کہنا ہے کہ جب طاقت اور تحکم معاشرے کی بنیاد میں موجزن ہوتو پھر اس معاشرے میں بننے والے رشتے دراصل اپنی کوئی وقعت نہیں رکھتے۔ وہ دراصل طاقت کے رشتوں کے وسیع تر پھیلاؤ کو برقرار رکھنے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ یہی نہیں یہاں پیدا ہونے والا علم اسی طاقت کے پھیلاؤ کے لئے تعلیم وتربیت کا وسیلہ بنتا ہے۔ طاقت کے پھیلاؤ اور اس پھیلاؤ کے زیر اثر رشتے دراصل طاقت کے جواز اور اس کی غیر انسانی رمق پر قائم ہوتے ہیں۔ یہ رمق حیوانیت ہے۔ اسی حیوانیت پر ہمارا معاشرہ، ہم لوگ، ہمارا شعور، ہمارے نصب العین اور آدرش پنپتے ہیں۔ جب سارا شگفتہ خودکشی کرتی ہے، جب باپ اور بیٹے، ایک بچی کو قتل کرتے ہیں او رجب ایک خاوند ایک لڑکی کی آزادی کی کوشش کو کچلتا ہے تو فتح دراصل اسی طاقت کے نظام اور رشتوں کی ہوتی ہے۔

یہ نظام اور رشتے ہمارے اندر بستے ہیں۔ ہم ان کی غلامی کرتے ہوئے حیوانیت پر اتر کر اپنوں کو قتل کرتے ہیں، تحقیر کرتے ہیں اور پھر اسی حیوانیت کی فتح پراتراتے ہیں۔

One Comment