بلاول بھٹو اور کشمیر پالیسی

4212_109624585991_3851843_nبیرسٹر حمید باشانی۔ٹورنٹو

ذولفقار علی بھٹو جیسا لیڈر نہ بھٹو سے پہلے پاکستان میں تھا، نہ بھٹو کے بعد اس کو نصیب ہوا۔یہ نابغہ روزگار شخص مخصوص تاریخی حالات اور ضروریات کی پیداوار تھا۔تاریخی ضروریات بدل چکی ہیں چنانچہ پاکستان پھر کبھی کوئی دوسرا بھٹو نہ دیکھ سکے گا۔بھٹو کے عشاق اگر بلاول میں اس کی شبیہ دیکھ رہے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔مگر اگر بلاول اپنے آپ میں بھٹو دیکھنے لگے تو اس میں بہت حرج کا اندیشہ ہے۔

بلاول کا تعلق بھٹوز کی تیسری نسل سے ہے۔درمیان میں وقت کی طویل خلیج ہے۔بے نظیر بھٹو جس نے براہ راست ذولفقار علی بھٹو کے ہاتھوں سے پرچم تھاما تھا، حتیٰ کہ اس نے بھی اپنے آپ میں بھٹو دیکھنے کی کوشش نہ کی۔حالانکہ ان کے درمیان زمانے کی اتنی خلیج نہ تھی اور ان کے اردگرد کی دنیا ابھی تک اتنی نہ بدلی تھی جتنی اب بدل چکی ہے۔ یہ دنیااس حد تک بدل چکی ہے کہ اگر آج خود ذولفقار علی بھٹو بھی ہوتے تو یکسر ایک مختلف آدمی ہوتے۔

بے نظیر بھٹو نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز مقتل سے کیا تھا۔ یہ مقتل اس کی آنکھوں کے سامنے سجا تھا۔پھر اس نے جنرل ضیا کی ساری خباثت اور کمینگی کو بچشم خود دیکھا۔ظلم و نا انصافی اس کے لیے محض کوئی الفاظ نہیں تھے۔یہ سب خود اس پر بیتا تھا۔اگر اس کے لہجے میں تلخی یا سوچ میں ناراضگی کا اظہار ہوتا تو یہ سمجھ میں آنے والی بات تھی۔مگر ایسا ہوا نہیں۔بے نظیر بھٹو نے ، ذولفقار علی بھٹو کا انداز تو ضرور اپنایا مگرایک ایک کر کہ ذولفقار علی بھٹو کی ہر پالیسی سے اختلاف کیا۔پاکستان کے سماجی و معاشی ڈھانچے سے لیکر کشمیر پالیسی تک اس نے نئے راستوں کا انتخاب کیا۔

کشمیر پالیسی پر ان کا انداز فکر بھٹو کے روایتی موقف سے یکسر مختلف تھا۔اگرچہ بدقسمتی سے بے نظیر بھٹو کو اپنی حکومت کے دونوں ادوار میں اسٹبلشمنٹ نے کشمیر پالیسی پر اثر اندوز ہونے کی اجازت نہیں دی۔ مگر اس حوالے اس ان کے خیالات مختلف تھے۔اور اگر انہیں اس حوالے سے کچھ کہنے یا کرنے کی اجازت دے دی جاتی تو وہ یقیناًکچھ نیا ہی کرتیں۔اگرچہ سیاسی ضروریات کے مطابق انہوں نے بھی ایک ادھ بار سخت مکالمہ بازی کی۔مگر وہ شعلہ نوائی نہیں کی، جو اس موضوع پر بھٹو صاحب کا خاصہ تھی۔نہ ہی وہ جذباتیت کی اس نہج پر پہنچی جو اب بلاول بھٹو کا خاصہ ہے۔

اپنے حالیہ دورہ آزاد کشمیر کے دوران بلاول بھٹو نے اپنے نانا ذولفقار علی بھٹو کے جوش و جذبات کو دہرایا۔جوش و جذبہ تو اپنی جگہ مگر کشمیر پر جو موقف انہوں نے اختیار کیا وہ ان جیسے نوجوان اور جدید شخص سے میل نہیں کھاتا۔نئی نسل کا ایک جوان سال رہنما اگر اس مسئلے پر وہ ساٹھ سالہ پرانی گھسی پٹی باتیں دہرائے تو یہ نوجوان نسل کے لیے ایک مایوس کن بات ہے۔ یہ حقیقت اب کسی اظہار کی محتاج نہیں کہ پاکستان کی روایتی کشمیر پالیسی کے اندر مسئلہ کشمیر کا کوئی حل نہیں ہے۔اور اس حقیقت کو پاکستانی اسٹببلشمنٹ اور فوج کا اپنے وقت کا سب سے طاقتور نمائندہ جنرل پرویز مشرف بھی عملی اور زبانی طور پر تسلیم کر چکا ہے۔

اس حقیقت کا اظہار جب اس نے کیا تو وہ بیک وقت فوج ، ریاست اور اانتظامیہ کا سربراہ تھا۔پانچ سات سال کی طویل غور و فکر اور دپلومیسی کے بعد اس نے ریاست، انتظامیہ اور فوج کی حمایت سے کشمیر پر پاکستان کے روایتی موقف کو ترک کر کے سرکاری سطح پر بھارت کے سامنے مسئلہ کشمیر کا نیا حل تجویز کیا۔اس حل کو ترتیب دینے میں مشرف کے ساتھ پاکستان کی وزارت خارجہ اور فوج کے لیڈر پیش پیش تھے۔جنرل مشرف کے اس جرأت مند قدم سے یہ سوچ کمزور پڑھ گئی کہ مسئلہ کشمیر پر مختلف انداز میں سوچنا کوئی غداری نہیں ہے۔بلکہ ملک کے طاقت ور حلقے بھی اس مسئلے پر روایتی موقف سے ہت کر سوچ سکتے ہیں۔

یہ پیپلز پارٹی جیسی جدید ترقی پسند پارٹی کے لیے ایک خوش کن خبر ہونی چاہیے تھی۔خصوصاً اس لیے بھی کہ اس پارٹی کی قیادت ایک نوجوان شخص کے ہا تھوں میں جا رہی تھی۔مگر لگتا یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے گارڈ فادرز نے اس شخص کے نوجوان کندھوں پر صدیوں پرانا اور فرسودہ بوجھ لادنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔مانا کہ آزاد کشمیر میں مسئلہ کشمیر ایک جذباتی اور پاپولر ایشو ہے۔لوگ اس مسئلے کے حل کی خواہش بھی رکھتے ہیں۔مگر کوئی بھی ایسا شخص جس کی زندگی سے منطق نام کی کسی چیز کا دور پرے کا بھی تعلق ہے وہ اس بات سے اتفاق نہیں کر سکتا کہ رائے شماری بھی اس مسئلے کے کئی ممکنہ حل میں سے ایک ہے۔

اس کے بر عکس اس بات سے انکار کرنا نہ ممکن ہے کہ اس زمانے میں کشمیر کے اندر رائے شماری بر صغیر میں آگ و خون کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کرنے کا فارمولہ ہے۔بلاول بھٹو کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ انیس سو سنتالیس نہیں سن دوہزار سولہ ہے۔اور جو کشمیری ایسی انہونی، نا قابل عمل اور خیالی باتوں پر تالیاں بجاتے ہیں ان کو بھی اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ یہ ان کی تیسری نسل ہے جو اس طرح کھوکھلے اور بانجھ نعروں کے ذریعے بے وقوف بن رہی ہے۔اور اگر انہوں نے یہ روش نہیں بدلی تو ان کی آئندہ تین نسلیں بھی رائے شماری جیسے بظاہر خوش کن اور نا قابل عمل نعروں کا شکار رہیں گے۔

One Comment