نصاب اور آدھا سچ

بیرسٹر حمید باشانی

4212_109624585991_3851843_n


ہماری نصابی کتب میں علم اور سچائی کے علاوہ سب کچھ ہے۔اور یہ بات صرف تاریخ کی کتابوں تک ہی سچ نہیں۔معاشرتی علوم سے لے کر سانئس کی نصابی کتب تک بھی یہ بات صادق آتی ہے۔ان کتابوں کے انتخاب کے پیچھے بندذہن اور تنگ نظری صاف نظر اتی ہے۔ یہ علم اور سچائی کو عقیدے کے دائرے میں مقید کرنے کی واضح کوشش ہے۔

ان کتابوں کا انتخاب جو لوگ کرتے رہے ان کے ذہنوں میں دنیا نہیں بلکہ آخرت تھی۔اب ان کتابوں نے ہماری آخرت سنوارنے میں کیا مدد کی ؟ اس بات کا پتہ تو آخرت میں ہی چلے گا۔لیکن ہماری دنیا برباد کرنے میں جو کلیدی کرادر ان نصابی کتب نے ادا کیا وہ ہمارے سامنے ہے۔ساٹھ سال تک جو کچھ سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں اور مدرسوںں پڑھایا جاتا رہا ہے اب اس کے نتائج کھل کر سامنے آرہے ہیں۔

سائنس میں ہم نے اتنی ترقی کر لی کہ اب تک ہم ایک سوئی تک بنانے سے قاصر ہیں۔معاشرتی علوم میں ہماری دسترس کا اندازہ ہماری معاشرت اور معیار زندگی سے ہو رہا ہے۔اخلاقیات میں ہماری معراج کا اندازہ ہمارے اخلاقی زوال سے واضح ہے۔ ملک میں لوٹ، رشوت، سفارش، بد دیانتی، چور بازاری، ٹیکس چوری، بیرونی ممالک میں روپے چھپانے کے رحجانات سے لیکر روز مرہ کے لین دین اور کاروبار سے ہوتا ہے۔

ہمارے سماجی اور سیاسی شعور کا اندازہ ان لیڈروں کو دیکھ کر ہوتا ہے جن کو ہم منتخب کرتے ہیں۔ان کا کردار، ان کا اخلاقی معیار، ان کا ماضی اور ان کا حال سب ہمارے سیاسی شعور اور اخلاقی حالت کا گواہ ہے۔کس طرح کے لوگ ہم پر حکومت کرتے ہیں ؟ اس بات کا فیصلہ اس حقیقت سے ہوتا ہے کہ ہم کس طرح کے لوگ ہیں۔اور ہم جس طرح کے لوگ ہیں، یہ ہم راتوں رات نہیں ہو گئے۔ اس کے پیچھے نصف صدی کا طویل پراسس ہے۔اس پراسس میں بنیادی کردار نظام تعلیم اور نصاب تعلیم کا ہے۔اور اس کے ساتھ ساتھ سرکار کے زیر کنٹرول چلنے والے زرائع ابلاغ کا بھی جو عوام کو مذہب اور عقیدے کے نام پر ایک خاص قسم کا علم اور کردار منتقل کرتے رہے۔

اگر آپ اپنے بچوں کو کالج میں سائنس پڑھائیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کو پوری تاکید اور وضاحت سے یہ بھی بتائیں کہ بیٹا سائنس ضرور پڑھو مگر سائنس پر یقین مت کرنا۔ آئین سٹائن سے لیکر ڈاکٹر عبد السلام تک سارے سائنس دان کافر یا ملحد ہیں، یہ جہنم کا اندھن بن چکے ہیں۔ ان کی کسی بات پر یقین مت کرنا۔ اور یہ بات مت بھولنا کہ سائنس تمہارے عقیدے سے متصادم ہے اور جھوٹ کا پلندہ ہے۔پھر آپ ان بچوں سے یہ توقع رکھیں کہ وہ پڑھ لکھ کر سائنس دان بنیں گے۔نئی نئی ایجادات کریں گے۔ ملک کو ترقی کے راستے پر ڈالیں گے۔

اگر آپ کے ہاں کوئی سائنسدان پیدا نہیں ہوتا، یا آپ اپنی چیزیں بنانے کے بجائے ملک کو دوسروں کے سستے اور تیسرے درجے کے مال کی منڈی بنا دیتے ہیں تو اس کے پیچھے یہی عوامل کارفرما ہیں۔اگر آپ کی ایک پوری نسل تشخص کے بحران یا احساس کمتری میں مبتلا ہے تو اسکی وجہ بھی اپ کا نصاب تعلیم ہے۔بچوں کو غلط تاریخ پڑھائی جاتی رہی۔جن لوگوں نے تاریخی کتب ترتیب دیں یا نصاب کے لیے کتب کا انتخاب کیا وہ اپنے عقیدے کے اسیر تھے۔

انہوں نے تنگ نظری کی وجہ سے ان لوگوں کو آپ کا ہیرو بنا کر پیش کیا جنہوں نے آپ کی دھرتی پر حملے کر کہ اس کو تخت وتاراج کیا۔آپ کے جوانوں کو قتل کیا۔آپ کے خزانے لوٹے۔ایسے تاریخی ہیروز اور طلسماتی کرداروں کی ایک مثال محمود غزنوی کی ہے۔آپ کے بچوں کو یہ تو پڑھایا جاتا ہے کہ محمود غزنوی نے اسلام پھیلانے کے لیے ہم پر حملہ کیا تھا۔مگر ان کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ اگر ان حملوں کا مقصد اسلام پھیلانا تھا تو پھر ملتان کو فتح کرنے کی کیا ضرورت تھی جہاں پہلے سے حکومت مسلمانوں کے پاس تھی۔

بچوں کو یہ تو بتایا جاتا ہے کہ محمود غزنوی نے سومنات کے مندوروں پر سترہ حملے اس لیے کیے کہ ان کو بت پرستی سے نفرت تھی، مگر اس کے ساتھ یہ بات نہیں بتائی جاتی کہ ان سترہ حملوں کے دوران جو سونا لوٹا گیا اس کی مقدار کتنے ٹن تھی۔ان کو یہ بھی نہیں بتایا جاتا کہ ان حملوں کے دوران بر صغیر کو کس بے دردی سے تخت و تاراج کیا گیا۔کتنے لوگ قتل ہوئے۔کتنے غلام بنائے گئے۔ کتنی عصمتیں لوٹیں گئیں۔

بچوں کو یہ سادا سچ بھی نہیں بتایا جاتا کہ سلطان محمود غزنی ایک سلطان تھا جو دوسرے بادشاہوں اور سلطانوں کی طرح اپنی سلطنت و وسعت دینا چاہتا تھا۔ اس سلطنت کو چلانے اور اتنی بڑی فوج کے اخراجات برداشت کرنے کے لیے اسے وسائل کی ضرورت تھی۔اور اس وقت وسائل جمع کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ مال غنیمت تھا۔ چنانچہ بادشاہ اور سلطان مال غنیمت ، نوکر چاکر، اور کنیزیں و لونڈیاں جمع کرنے کے لیے دوسرے علاقوں اور ریاستوں پر فوج کشی کرتے تھے۔

چنانچہ سلطان محمود غزنی کوئی استثنا نہ تھا۔اس طرح ہمارے بچوں کو آدھا سچ بتایا گیا۔ یا سچ کو توڑ موڑ کر اپنے سانچے میں ڈھال کر پیش کیا گیا۔اس طرح اپنی تاریخ کی نفی اور دوسروں کی تاریخ کی توصیف ہماری نصابی کتب کی خصوصیت ٹھہری۔آج جو فصل ہم کاٹ رہے ہیں وہ اسی بیج سے اگی ہے۔

Comments are closed.