جرمنی میں اسلام کی مقبولیت

Demonstrators display signs with crossed mosques during a protest in front of a mosque in Berlin, Germany, Saturday, Aug. 18, 2012. A Berlin court had allowed the demonstration of the far-right group ' Pro Deutschland' held under the slogan "Islam does not belong in Germany — stop Islamization." (AP Photo/Gero Breloer)

جرمنی میں مسلمان مہاجرین کی آمد اور یورپ میں مسلمانوں کی دہشت گردی کے بعد جرمن معاشرے میں یہ بحث شروع ہوگئی ہے کہ کیا اسلام جرمنی کا حصہ ہے؟ دائیں بازو کی جماعتیں اور گروہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ مسلمانوں کویہاں سے نکالا جائےیہ ہماری ثقافت کے لیے شدید خطرہ ہیں۔

کونسا اسلام جرمنی کا حصہ ہے؟اس موضوع پر ڈی ڈبلیو کے ماتھیاس فان ہائن نے فرینکفرٹ میں منعقد ہونے والی ایک کانفرنس کی منتظمہ سوزانے شروئٹر کے ساتھ بات چیت کی۔

پروفیسر سوزانے شروئٹر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بلاشک و شبہ اسلام ویسے ہی جرمنی کا حصہ ہے، جیسے کہ مسیحیت یا پھر یہودیت لیکن ان دیگر دو مذاہب کے مقابلے میں اسلام کے ساتھ کچھ زیادہ مسائل ہیں، جن کی وجہ سے اس موضوع پر گفتگو کرنا وقت کی ضرورت تھی کہ جرمنی میں جو لوگ اسلام کی نمائندگی کرتے ہیں، وہ دراصل کس طرح کے اسلام کی بات کرتے ہیں۔

اس سوال کے جواب میں کہ آیا اسلام یورپی رنگ اختیار کرتا جا رہا ہے یا یورپ اسلام کے رنگ میں رنگتا جا رہا ہے، پروفیسر سوزانے شروئٹر نے کہا کہ کچھ حلقے اسلام کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا چاہتے ہیں جبکہ دیگر حلقے یورپ کو اسلام کے رنگ میں رنگ دینے کی کوشش میں ہیں اور ان دونوں حلقوں کے درمیان ایک تنازعے کی سی کیفیت ہے۔

اُن کے خیال میں یورپ میں اسلام پھیلانے کی کوشش کچھ ایسی قدامت پسند تنظیمیں کر رہی ہیں، جن کے اندر وہ لوگ بھی سرگرم ہیں، جنہیں انتہا پسندانہ رجحانات کا حامل قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ لوگ یورپ میں مسلمانوں کے لیے زیادہ سے زیادہ خصوصی حقوق حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں، جیسے کہ تعلیمی اداروں میں کھیلوں کے پریڈ میں یا جب کلاسیں کسی سفر پر جاتی ہیں تو یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کو الگ الگ رکھا جائے۔ مسلمان لڑکیاں اکثر استثنیٰ کی درخواست دے دیتی ہیں۔ یہی بات مسلمان استانیوں کے لیے اسکارف یا پردے کے معاملے میں بھی کہی جا سکتی ہے۔ یہ سارے حقوق یہ کہہ کر مانگے جاتے ہیں کہ یورپ میں مذہبی آزادی ہے، اس لیے ہمیں یہ حقوق ملنے چاہییں۔

پروفیسر سوزانے شروئٹر کے خیال میں سوال یہ ہے کہ اگر مسلمانوں کو یہ سارے حقوق مل جاتے ہیں تو کہیں ایسا تو نہیں کہ ان سے ہمارے ہاں ریاست کے بنیادی اصولوں اور ہماری اُن اَقدار کے لیے مسائل جنم لیتے ہوں، جو وقت کے ساتھ ساتھ مستحکم ہو چکی ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ مسلمانوں کی مرکزی کونسل بھی اسلام میں روشن خیالی کی بحث کو مکمل طور پر اپنے ہاتھوں میں رکھنا چاہتی ہے اور مھند خورشید جو (جرمن شہر میونسٹر کی یونیورسٹی میں اسلامیات کے مرکز کے انچارج) جیسے لوگوں کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتی، جو اسلام کے انسان دوست تصورات کو زیادہ نمایاں کرتے ہیں۔

پروفیسر شروئٹر کے مطابق جب بھی کوئی دہشت گردانہ حملہ ہوتا ہے، مسلمانوں کی مرکزی کونسل کے لوگ یہی کہتے ہیں کہ اس طرح کی سرگرمیوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ وہ اس موضوع پر کسی بحث کے لیے تیار نہیں ہوتے اور تھوڑی سی بھی تنقید ہونے پر اُسے اسلام دشمنی سے تعبیر کرنے لگتے ہیں۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ جرمن یونیورسٹیوں میں اماموں کی تربیت کے پروگرام کو تیزی سے آگے بڑھایا جائے تاکہ جرمنی میں مسلمانوں کی مخصوص برادریوں میں اُس نوجوان نسل کو انتہا پسندی کی جانب راغب ہونے سے بچایا جا سکے، ’جس کے لیے سلفی اسلام اور جہادی ثقافت ایک طرح کا پوپ کلچر بنتی جا رہی ہے‘۔

پروفیسر شروئٹر کے مطابق وہ ایک ایسے ’یورپی اسلام‘ کی خواہاں ہیں، جو معاشرے کی اکثریت سے لاتعلق نہ رہے یعنی مسلمان اپنے مذہب پر مکمل آزادی کے ساتھ عمل کریں لیکن اسلامی قوانین کو یہاں کے معاشرے پر مسلط کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ یہاں کی آئینی ریاست کے اصولوں کے ساتھ اتفاقِ رائے سے رہتے ہوئے زندگی گزاریں، اپنی مساجد تعمیر کریں اور کسی ڈر اور خوف کے بغیر اپنے تہوار منائیں:’’ہمارے معاشرے کا یہ فرض ہے کہ ہم اپنی اور اُن کی حدود کا بھی تعین کریں لیکن ان لوگوں کی طرف خیر سگالی کا ہاتھ بھی بڑھائیں۔ یہ نہ کہیں کہ آپ ہمارا حصہ نہیں ہیں اور ہم کبھی بھی یہ نہیں چاہتے تھے کہ آپ یہاں آئیں‘‘۔

DW

Comments are closed.