جرمنی میں امام مسجد کے خطبوں کی نگرانی

Islamic cleric Pierre Vogel gestures as he delivers his speech during a pro-Islam demonstration in Hamburg July 9, 2011. The book he is holding is a German edition of the Koran. REUTERS/Morris Mac Matzen

یورپ میں مسلمانوں کی انتہا پسندی اور انتہا پسند رویوں کے خلاف دائیں بازو کے انتہا پسند گروپ و جماعتیں عوام میں مقبولیت حاصل کر تی جارہی ہیں۔ اور مسلمانوں پر مختلف حوالوں سے پابندیاں لگانے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ سویڈن اور جرمنی میں دائیں بازو کے گروہ مسلمانوں کی مساجد پر حملے کر رہے ہیں۔جرمنی کی دائیں بازو کی تنظیم اے ایف ڈی نے کہا کہ اسلام جرمنی کا حصہ نہیں ہے ۔ جماعت کی طرف سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ مسلمان اپنی مسجدوں پر مینار تعمیر نہیں کر سکتے، اذان نہیں دے سکتے اور چہرے پر نقاب نہیں اوڑھ سکتے۔

جرمنی ایک سیکولر ملک ہے جس میں نئے نامزد ہونے والے کسی بھی بشپ کے لیے یہ لازمی ہوتا ہے کہ وہ اپنا عہدہ سنبھالنے سے پہلے متعلقہ صوبے کے وزیر اعلیٰ سے اس کی سرکاری رہائش گاہ پر جا کر ملے۔ وہاں جب وہ آئین کی وفاداری کا حلف اٹھاتا ہے تو اس نے اپنا بایاں ہاتھ انجیل پر رکھا ہوتا ہے۔اس کے برعکس کسی وزیر اعلیٰ کو اپنے انتخاب کے بعد کسی بشپ کے پاس جا کر اپنے عقیدے کا ثبوت پیش نہیں کرنا پڑتا کیونکہ کلیسا کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی کہ وزیر اعلیٰ کیا مانتے ہیں یا نہیں مانتے۔یعنی جرمنی میں ریاست اور مذہب کے درمیان صدیوں سے چلی آ رہی جنگ کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ یہ فیصلہ ریاست کے حق میں ہوا ہے۔ یہ چیز جدید مغربی مسیحی دنیا کی اہم ترین خصوصیات میں سے ایک ہے۔

یورپ میں مسلمانوں کی طرف سے بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کے واقعات ،دہشت گردی اور خاص کر مسلمان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد کی آمد کے بعد اب جرمنی میں یہ نئی بحث چھڑ گئی ہے کہ یہاں کی مساجد میں غیر ملکی امام، جو جرمن معاشرے اور اقدار کے بارے میں بہت کم واقفیت رکھتے ہیں، اپنے خطبوں میں کیا کچھ کہتے ہیں؟ 

جرمن تجزیہ نگارکے مطابق ریاست توقع رکھتی ہے کہ مساجد میں لوگوں کو جرمن آئین اور قانون کے خلاف اکسایا نہیں جائے گا۔ مذہبی آزادی وہاں ختم ہو جاتی ہے، جہاں لوگ مذہب کو ناجائز طور پر ریاست کے خلاف جنگ کے لیے استعمال کرنے لگتے ہیں۔اگر جرمن چانسلر انگیلا میرکل یہ کہتی ہیں کہ اسلام جرمنی کا حصہ ہے تو پھر حقوق اور فرائض کا جو نظام کلیساؤں کے سلسلے میں رائج ہے، وہی مساجد کے سلسلے میں بھی رائج کیا جانا چاہیے۔

مسئلہ ایک ایسے ادارے کی غیر موجودگی کا ہے، جس کے ساتھ ریاست سارے معاملات طے کر سکے۔ اس مسئلے کے حل ہونے تک اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ انفرادی طور پر مختلف مساجد کی نگرانی کی جائے۔ کاؤڈر کی تجویز مذہبی آزادیوں پر کوئی قدغن نہیں لگاتی۔اس تجویز میں کسی مذہب کے پیروکاروں کو نہیں بلکہ ان کی عبادتوں کی سربراہی کرنے والوں کو قاعدے قانون کے اندر لانے کی بات کی گئی ہے، خواہ وہ پادری ہوں، امام ہوں یا بھر ربی۔

برطانیہ میں مقیم تجزیہ نگار سبطِ حسن گیلانی کہتے ہیں کہ مغربی معاشروں میں مقیم مسلم کمیونٹی میں فرقہ وارنہ تشدد سرایت کرتا جارہا ہے ۔ گورنر سلمان تاثیر کے قتل پر برطانیہ میں کچھ علماء نے ایک مقامی ٹی وی پر ایک ٹاک شو میں یہ فتویٰ صادر فرمایا کہ جس جس نے بھی مقتول گورنر کی نماز جنازہ میں شرکت کی وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ ایک اور مذہبی چینل پر گستاخ رسول کو قتل کرنے والوں کو ہیرو قراردیا گیا۔گیلانی کہتے ہیں کہ لندن میں واقع ریڈ برج کی ایک لائبریری میں ایسے علماء کی کتب موجود ہیں جن پر دیگر مسلم ممالک میں پابندی عائد ہے۔ ایسی ہی ایک کتاب کا نام ہے’’ تلوار کا قرض‘‘۔۔۔ 

کتاب کے منصف ریٹائرڈ بیوروکریٹ ہیں انہوں نے اپنی کتاب ایک معتوب مسلمان فرقے کے خلاف لکھی ہے جس میں تاریخی واقعات سے ثابت کیا گیا ہے کہ اس طرح کے عقائد رکھنے والوں کو بہترین علاج تلوار اور خنجر ہے ۔ پچھلے دنوں ایک احمدی کا قتل بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔

جارج واشنگٹن یونیورسٹی، امریکہ میں پی ایچ ڈی کے طالب علم عنصر محمود کا کہنا ہے کہ صرف جرمنی ہی نہیں بلکہ دوسرے یورپی ممالک میں بھی ایسی ہی تجویز پر غور ہورہا ہے کہ مساجد میں دیئے گئے خطبوں کو کیسے مانیٹر کیا جائے۔حقیقت یہ ہے مساجد نفرت کا منبع ہیں۔ جہاں فرقہ وارنہ نفرت کے ساتھ ساتھ جو تعلیم دی جاتی ہیں اس میں مغربی معاشرہ کو ایک گناہکار اور بھٹکاہوا معاشرہ بتایا جاتا ہے ۔ مغربی تہذیب سے نفرت کا اظہار کیا جاتا ہے ۔ انہوں نے کہ مسلمان مغربی معاشروں سے تمام تر سہولیات سے فائدہ بھی اٹھاتے ہیں اور ان کے رسوم و رواج کو حقارت کی نظر سے بھی دیکھتے ہیں۔ اپنے آپ کو دنیا کی بہترین قوم سمجھتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ یہ لوگ اپنا کلچر چھوڑ کر اسلامی(عرب) کلچر اپنائیں۔

عنصر محمود کا کہنا ہے کہ جب تک مسلمانوں میں یہ سوچ موجود ہے کہ اسلام نے دنیا پر غالب آنا ہے اس وقت تک کوئی بہتری پیدا نہیں ہو سکتی اور مسلمان یورپی معاشروں کے لیے مسلسل مشکلات پیدا کرتے رہیں گے ۔مسلمان جمہوریت کو ایک غیر اسلامی نظام سمجھتے ہیں اور خلافت کے قیام کو درست سمجھتے ہیں۔ مسلمان تنظیمیں سیکولر ازم کی آڑ میں مذہبی آزادی کا ناجائز استعمال کرتی ہیں اور زیادہ سے زیادہ سہولیات طلب کرکے حقیقتاً سیکولرازم کی نفی کررہی ہیں۔

عنصر محمود کامزید کہنا ہے کہ مغربی ممالک کو مساجد کی نگرانی کا ایک کڑا قانون بنانا چاہیے تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ وہ اپنے خطبوں میں ریاست یا مقامی کلچر سے نفرت کا پیغام دیتے ہیں یا دنیا پر غالب آنے کی خواہشات کا اظہار کرتے ہیں۔

News Desk

Comments are closed.