مولانا مودودی داعی نہیں انشا پر داز تھے

ترتیب :لیاقت علی ایڈووکیٹ

54a4ffe901d2d

ماہنامہ ’اردو ڈائجسٹ‘ کسی تعارف کا محتا ج نہیں ہے ۔پاکستان کی فوجی اشرافیہ کا بیانیہ ہو یا مذہبی سیاسی جماعتوں بالخصوص جماعت اسلامی کا ورلڈ ویو ، ا’ردو ڈائجسٹ‘ نے اس کی تشکیل اور ترویج میں نمایا ں کردار ادا کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی فوج کی لائبریریوں میں’ اردو ڈائجسٹ‘ کا ہمیشہ خیر مقدم کیا جاتا ہے ۔

ایک وقت تو ایسا بھی گذرا ہے جب پاکستان کے درمیانے طبقے کے گھروں میں’ اردو ڈائجسٹ‘ منگوانا، پڑھنا اور گفتگو کے دوران اس کا حوالہ دینا سٹیٹس سمبل خیال کیا جاتا تھا۔ روشن خیالی، فکری کشادگی اور خرد افروزی کی ہر کوشش کی مزاحمت’ اردو ڈائجسٹ‘ اور اس کے مدیر قریشی برادران کا طرہ امتیاز رہی ہے۔منتخب حکومتوں سے قریشی بھائی ہمیشہ ناراض اور بے زار رہے ہیں لیکن فوجی حکمرانوں بالخصوص جنرل ضیاء الحق سے ان کے تعلقات نہ صرف خوش گوار بلکہ دوستانہ رہے ۔

برادر بزرگ ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی اردو ڈائجسٹ کے مدیر اعلیٰ ہیں ۔88 سالہ اعجاز حسن قریشی ذہنی اور عملی طور پرچاک و چوبند اور متحرک ہیں۔ انھوں نے ایک اردو روزنامہ کے سنڈے میگزین کو ایک طویل انٹرویو دیا ہے جو اس اخبار نے 29مئی2016 کو شامل اشاعت کیاہے ۔ اپنے اس طویل انٹرویو میں سنیئر قریشی نے اپنی ذاتی زندگی ، صحافتی کیرئیر اورپاکستان کے مختلف سیاسی و مذہبی رہنماؤں اور بعض تاریخی واقعات کے بارے میں اپنے تاثرات اور خیالات کا اظہار کیا ہے ۔

انھوں نے قائد اعظم، مولانا مودودی اور ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست پر گفتگو کی ہے اور ان کے نقائص گنوائے ہیں لیکن کہیں بھی انھوں نے’ اردو ڈائجسٹ ‘کی پالیسی اور خود اپنے اور اپنے چھوٹے بھائی الطاف حسن قریشی کی تحریروں اورسیاسی وابستگیوں کا تنقیدی جائزہ لینے کی زحمت گوارہ نہیں کی بلکہ ہر مرحلے پر انھیں جواز فراہم کرنے کی سعی کی ہے۔وہ ہر مرحلے اور ہر موقع پر درست تھے اور ان کا موقف ہی راست اور صحیح تھا۔خو د ستائشی کا شاہکار ہونے کے باوجود اس انٹرویو کے بعض مندرجات بہت دلچسپ ہیں ۔


ملک میں صحافت کی صورت حال کے بارے میں اعجاز حسن قریشی کا کہنا ہے کہ ہمارے حکمران شروع ہی سے آزادی صحافت کے قائل نہ تھے ۔یہاں ابتدا ہی سے صحافیوں اور صحافتی اداروں پر پابندیاں لگتی رہیں۔جو بھی حکومتوں پر تنقید کرتا تھا وہ غدار شمار ہوتا ۔شروع کے سالوں میں جب حسین شہید شہروردی حکومت سے الگ ہوئے تو ان کے ساتھ بھی یہی ہوا ۔جو صحافی سچی بات لکھتا تھا اسے غدار قرار دے دیا جاتا تھا۔

اس کے علاوہ حکومتوں کا یہ وطیرہ بھی رہا ہے کہ وہ اپنے چنیدہ لوگوں کو باقاعدہ ایجنڈے کے تحت صحافی بناتے رہے ہیں ۔ حکومتوں کی تو یقیناًیہ پالیسی رہی ہے کہ وہ اپنے ’چنیدہ افراد ‘ کو بطور صحافی لانچ کرتی رہی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی نے بھی یہ کام پوری دل جمعی اور ثابت قدمی سے کیا ہے ۔ اپنے کارکنوں او ر ہمدردوں کوصحافیوں کے روپ میں اخبارات اور اشاعتی اداروں میں داخل کرنا جماعت اسلامی کی ایک ایسی پالیسی ہے جو ہنوز جاری و ساری ہے ۔ اعجاز حسن قریشی اور ان کے بر ادر خورد اس جماعتی پالیسی کے تحت صحافت سے وابستہ ہوئے تھے ۔

جماعت اسلامی کے اخبار’ تسنیم‘سے اپنی صحافتی سفر کا آغاز کرنے والے ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کہتے ہیں کہ حکومت سے اختلاف کی بنیاد پر اخبارات پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ پہلے پہل روزنامہ’ نوائے وقت‘ نے کیا تھا ۔یہ ’نوائے وقت ‘ہی تھا جس نے اداریہ لکھ کر’ تسنیم ‘ پرپابندی عاید کرنے کا مطالبہ کیا تھا ۔نوائے وقت نے ’تسنیم ‘ کے خلاف یہ اداریہ کیوں لکھا اس کو قریشی صاحب گو ل کر گئے ہیں ۔

دراصل جماعت اسلامی کے اس اخبار میں مولانا مودودی کا ایک بیان چھپا تھا جس میں مولانا نے کہا تھا کہ کشمیر پر قبائلیوں کی یلغار قطعاً جہاد نہیں ہے ۔ کیونکہ جہاد کا اعلان کوئی تنظیم یا گروہ انفرادی طور پر نہیں کرسکتا ایسا کرنے کا اختیار صرف حکومت وقت کو ہے ۔ڈاکٹر صاحب سے بہتر کون جانتا ہے کہ یہ بیان مودودی سے ’منسوب‘ نہیں تھا بلکہ یہ ان کا سوچا سمجھا نکتہ نظر تھا ۔ یہی وہ بیان تھا جس کو بنیاد بناکر’ نوائے وقت‘ نے تسنیم پر پابندی کا مطالبہ کیا تھا ۔

ہم سمجھتے تھے بھٹو اور مجیب دونوں ہی فاشسٹ ہیں۔ہم نے اردو ڈائجسٹ اور ’زندگی ‘ میں بھٹو پر سخت تنقید کی ۔(لیکن)اس سخت تنقید کے باوجود بھٹو 1970کا الیکشن جیت گئے ۔بھٹو کاعہد اقتدار ہمارے لئے بہت جاں گسل تھا ۔ہمیں ایک سے زائد مرتبہ جیل جانا پڑا تھا ۔ان دنوں مجید نظامی سی پی این ای کے صدر تھے لیکن انھوں نے ہماری رہائی کے لئے کوئی کوشش نہیں کی تھی بلکہ رہائی کے بعد جب ہماری ان سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ ’بھائی ہم تو جیل نہیں جاسکتے ‘۔

اعجاز حسن قریشی کہتے ہیں کہ میں نے ٹرانسسٹر پر بھٹو کی پہلی تقریر سن کرکہہ دیا تھا کہ یہ شخص پھانسی لگے گا اور میری پیشن گوئی پوری ہوگئی ۔ان کی پیشن گوئی پوری کرنے میں ہماری فوجی ایسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ نے جو رول ادا کیا تھا اس بارے میں اعجاز حسن قریشی خاموش ہیں۔

اعجاز حسن قریشی قیام پاکستان کا کریڈٹ قاید اعظم کو دینے کو تیار نہیں ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ پاکستان اللہ نے بنانا تھا جس کے لئے ایک شخص منتخب کیا گیا جس کا نام محمد علی جنا ح(تھا)۔ اپنے انٹرویومیں کہتے ہیں کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب قائد اعظم بھی مطالبہ پاکستان سے پیچھے ہٹ گئے تھے لیکن پاکستان کا قیام کیونکہ من جانب اللہ تھا اس لئے یہ بن کر رہا ۔ وہ کہتے ہیں کہ قائد اعظم کے بارے میں وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتے کہ وہ منافق تھے لیکن جہاں تک ان کے باقی ساتھیوں کا تعلق ہے تو وہ ’سارے منافق تھے ‘(قطعیت کے ساتھ)۔قائد اعظم کا یہ کہنا کہ ان کی جیب میں کھوٹے سکے ہیں درست تھا۔میں نے ان کے ساتھیوں اور نمائندوں کا کردار بہت قریب سے دیکھا اور آج جو کچھ نظر آرہا ہے یہ انہی کھوٹے سکوں کی کارستانیوں کا نتیجہ ہے ۔

عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ مولانا مودودی نے نظری طور پر قیام پاکستان کی مخالفت کی تھی ۔ ان کے خیال میں مسلم لیگ جس پاکستان کے قیام کامطالبہ کر رہی ہے وہ ایک ’نیشن سٹیٹ‘ہوگا نہ کہ ایک ’اسلامی ملک‘۔لیکن جب پاکستان بن گیا تو جماعت اسلامی نے مولانا مودودی کو بانئ پاکستان ثابت کرنا شروع کر دیا ۔ اعجاز حسن قریشی بھی مولانا مودودی کو قیام پاکستان کا مخالف تسلیم کرنے سے انکاری ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ’ ان ( مولانا مودودی ) کے بارے میں پھیلائی گئی یہ کہانی بالکل غلط ہے کہ وہ پاکستان کے مخالف تھے‘ ۔ قیام پاکستان کے بارے میں مولانا مودودی نے جو کچھ لکھا وہ ان کی کتاب ’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش‘ میں موجود ہے ۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ مولانا مودودی کی غلطی تھی لیکن یہ کہنا کہ یہ پاکستان کے قیام کی مخالفت تھی ،میں یہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں ۔مسلمانوں کے علیحدہ قو م ہونے کے بارے میں جو دلائل انھوں نے دیئے ہیں وہ مسلم لیگ نہیں دے سکی تھی ۔

اعجاز حسن قریشی جماعت اسلامی میں رہے ہیں ۔ ان کے نزدیک جماعت میں اچھے اور دیانت دار لوگ ہیں لیکن مودودی سے سیاست میں دو غلطیاں ہوئیں۔ایک یہ کہ وہ دین کے داعی تھے لیکن انھوں نے ایک تاریخ دان کا کردار اختیار کر لیا اور ’خلافت و ملوکیت‘لکھی۔حالانکہ داعی کا کام لوگوں کو اکٹھا کرنا ہوتا ہے ۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ مودودی کی یہ کتاب ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کے نزدیک مسلمان عوام میں تفریق کا باعث بنی ۔دوسرے یہ کہ پاکستان بننے کے بعد انھوں نے ’ترجمان القران‘ کے تین شماروں میں پاکستان بنانے میں قائد اعظم کی حکمت عملی پر شدید تنقید کی تھی (یہ غالبا 1948کی بات ہے )۔جب انھوں نے قائد اعظم پر تنقید کی تو لوگ ان کے خلاف ہوگئے ۔

روزنامہ ’نوائے وقت ‘ کے بارے میں اعجاز حسن قریشی کا رویہ خوش گوار سے زیادہ شکایت بھرا ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ جن دنوں مولانا مودودی قائد اعظم پر تنقید کر رہے تھے نوائے وقت نے تعصب کا مظاہر ہ کیا تھا ۔’میر ی سمجھ میں نہیں آیا کہ انہوں نے ایک غیر پنجابی (قائد اعظم) کو قبول کیسے کر لیا تھا ؟حالانکہ کوئی بھی غیر پنجابی ایسا نہیں جس کی انہوں نے مخالفت نہ کی ہو ۔لیاقت علی خاں کا کیا حال کیا انہوں نے؟یہ حقائق ہیں ۔ انہوں نے’ غیر پنجابی ‘ہونے کے ناتے مودودی صاحب کے خلاف بھر پور مہم چلائی ۔

ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کے نزدیک ایک ایسی خوبی جس کی بنا پر مولانا مودودی کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا وہ ہے ان کی انشاپر دازی ۔ مولانا مودودی کے بہت سے معاصرین ہمیشہ یہ کہتے رہے ہیں کہ مولانا ایک دینی مفکر سے زیادہ ایک اعلیٰ درجے کے انشا پرداز ہیں ۔سنیئر قریشی اس موقف سے متفق نظر آتے ہیں ۔’ اردو میں ان کی طرح کا انشا پرداز نہیں ہوا۔ ان کی نثر کا ایک ایک لفظ ایسا ہے جسے آپ ہلا نہیں سکتے ۔

مولانا امین احسن اصلاحی کے بارے میں ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی کا تبصرہ بہت دلچسپ ہے ۔ کہتے ہیں ’وہ ایک عالم دین تھے لیکن ان میں راجپوت ہونے کا احساس بہت تھا ۔وہ داعی نہیں ہوسکتے تھے کیونکہ داعی کا کام سب کو اکٹھا کرنا ہوتا ہے ۔ اور یہی کمزوری مولانا مودودی کی بھی تھی ‘۔جماعت اسلامی کے بارے میں کہتے ہیں ’جماعت اسلامی میں اب وہ پہلے والی بات نہیں رہی۔میرا تاثر یہ ہے کہ جماعت اسلامی درمیانے طبقے کی جماعت ہے ۔ جو شخص اوپری طبقے کا یہاں آتا ہے وہ ان میں فٹ نہیں ہو پاتا ۔دوسرے یہ کہ جماعتی عہدیدار کل وقتی کارکن ہیں جو جماعت سے معاوضہ لیتے ہیں ۔ان کی زندگی میں اپنی کوئی کنڑی بیویشن نہیں جس کی بنیاد پر قوم انہیں لیڈر سمجھے ‘۔

سنہ1970کے انتخابات میں بھٹو کی کامیابی ان کے نزدیک بھٹو کی بھارت مخالف پالیسیوں کا نتیجہ تھی۔انہوں نے بھارت کے خلاف ایک فضا بنا دی تھی جو ان کے کام آگئی۔نواز شریف سے اعجاز حسن قریشی کچھ زیادہ ہی ناراض ہیں ۔ کہتے ہیں ’میاں نواز شریف آرمی کے ذریعے آئے تھے ۔میں اس وقت ان کے کمرے میں بیٹھا ہواتھا جب جنرل جیلانی (گورنر پنجاب)نے فون کرکے ان سے پوچھا تھا کہ آپ کے پاس شیروانی ہے یا نہیں؟۔یہ سب مفادات کا چکر ہے ۔ ان کے والد اتنے بڑے کاروباری بنے۔اس کی وجہ بھی فوج تھی۔

اس زمانے میں باہر سے سپیئر پارٹس نہیں ملتے تھے ( غالبا ایٹمی پروگرام کے لئے سپیئر پارٹس)۔ ان کے والد صاحب وہ سپیئر پارٹس فینسی پرائس پر لا کر دیتے تھے ۔ہمیں تو اس ساری کہانی کا علم ہے۔میں تو ابھی چند دن پہلے میاں نواز شریف کی اسمبلی میں بیان کردہ کتھا سن کر ہنس رہا تھا ۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ ان کی بی ایم ڈبلیو گاڑیاں آئیں جس پر ڈیوٹی زیادہ تھی ۔فوری طور پر ایک ایس اوآر جاری ہوا اور ڈیوٹی کم کر دی گئی ۔جب ان کی گاڑیاں کلیئر ہو گئیں تو فورا ہی وہ ایس او آر معطل کر دیا گیا ۔ وہ ساری گاڑیاں فوجیوں کو انہوں نے رشوت میں دی تھیں۔

ہم شریف برادران سے اس لئے محبت کرتے تھے کہ یہ پیپلز پارٹی کے حق میں نہیں ہیں ۔لیکن جب ہم نے ان کے لچھن دیکھے تو ان سے بھی دل بھر گیا ۔میں نے تو انہیں ووٹ بھی نہیں دیا ۔وہ چیز اب سامنے آرہی ہے جس کی وجہ سے میں نے انہیں ووٹ نہیں دیا تھا ۔ میں ایک عرصے تک عمران خان کو اچھا سمجھتا تھا لیکن اب میرا خیال ہے اس میں لیڈ ر شپ کی صلاحیت نہیں ہے۔

اعجاز حسن قریشی دینی مدارس کو ختم کرنے کے حق میں ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ ’ہمارے تعلیمی نظام پر سب سے بڑا ظلم تو یہ دینی مدارس ہیں ۔ یہ بیکار نظام ہے ۔دہشت گردی ایسے ختم نہیں ہوگی ۔یہ وہ ( دینی مدارس کے طلبا اور اساتذہ وغیر ہ) طبقہ ہے جس کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ آپ اسلام کے خلاف چلتے ہیں ۔پھر ان میں ایک بڑا انتقامی جذبہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ اسکولوں کے بچوں کو پڑھ لکھ کر ڈاکٹر انجینئر بنتے دیکھتے ہیں اور یہ بے چارے مسجد کے امام کے علاوہ کچھ نہیں بن پاتے ۔ایسے لوگوں کی تعداد لاکھوں میں ہے ۔

پاکستان بننے کے بعد ان مدارس کو ختم ہو جانا چاہیے تھا ۔اب ان کی ضرورت نہیں رہی ۔نظام الملک والے نصاب کی تو آج کوئی حاجت نہیں ہے۔ 

One Comment