تکبر، کٹھور پن اور منافقت

asaf jilaniآصف جیلانی

ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر دنیا کے سب سے پہلے دھشت گرد حملہ کے 71سال بعد حملہ آور امریکا کے صد ر کو اس ہولناک حملہ کی یادگار کی زیارت کی جرات ہوئی ہے جس میں ایک لاکھ چالیس ہزار افراد لقمہ اجل بنے تھے اور اب بھی اس علاقہ کے عوام ایٹمی تابکاری کے اثرات کے امراض سے چھٹکارہ حاصل نہیں کر سکے ہیں۔

صدر اوباما نے کس قدر کٹھور پن اور منافقت کے پھریرے لہراتے ہوئے اس ہولناک حملہ کا ذکر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ 71 سال قبل روشن دن میں آسمان سے موت اتری او ر دنیا بدل گئی۔ صدر اوباما کو اس حقیقت کا اعتراف کرنے کی ہمت نہیں ہوئی کہ اس موت کے پیچھے کس کا ہاتھ تھا اور اس موت کا حکم کس نے دیاتھا۔

اس موقع پر صدر اوباما کا کہنا تھا کہ انسانی اداروں کے فروغ کے بغیر ٹیکنالوجی کی ترقی ہمارے لئے تباہی ہے۔ ان کا اصرار تھا کہ جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ساتھ اخلاقی انقلاب درکار ہے۔ صدر اوباما کی زبا ن سے یہ کلمات ، چیخ چیخ کر منافقت کا اعلان کر رہے تھے خاص طور پر چند روز پہلے ہی انہوں نے پاکستان کی سرزمین پر طالبان کے سربراہ مُلا ختر منصور کو ہلاک کرنے کے لئے ڈرون حملہ کا حکم دیا تھا اور ڈرون طیاروں پر اتراتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ آیندہ بھی وہ ان افراد کو نشانہ بنانے سے نہیں ہچکچائیں گے جن سے امریکا کو خطرہ لاحق ہوگا۔

صدر اوباما نے کیمروں کے جھرمٹ میں دنیا کو دکھانے کے لئے ہیرو شیما پر ایٹم بم کے حملہ میں زندہ بچ جانے والے 91سالہ مسوبوئی سے ہاتھ ملاکر ہمدردی کا اظہار کیا اور 79سالہ شکاگی موری کو گلے لگاکر تاسف کا اظہار کیا ، لیکن اس موقع پر انہوں نے امریکا کے اس ہولناک حملہ پر معافی نہیں مانگی جس کا ساری دنیا کو انتظار تھا۔ جاپان روانہ ہونے سے پہلے انہوں نے نہایت تکبر کے انداز میں اعلان کیا تھا کہ وہ ہیرو شیما ناگا ساکی پر ایٹم بم کے حملہ پر معافی نہیں مانگیں گے۔ انہوں نے اس کی بھی وضاحت نہیں کی کہ وہ ا س قتل عا م پرمعافی کیوں نہیں مانگیں گے ۔کم از کم انہیں امن کے اس نوبیل انعام کی لاج تو رکھنی چاہیے تھی جو 2009میں ان کے صدر منتخب ہونے کے گیارہ روز بعد انہیں صرف جوہری اسلحہ پر پابندی کے حق میں تقریر پر دیا گیا تھا۔

امریکا کی طرف سے یہ دلیل پیش کی جاتی ہے کہ ہیرو شیما ناگا ساکی پر ہولناک ایٹمی حملہ کی معافی اس لحاظ سے جائز نہیں کہ یہ حملہ دوسری عالم گیر جنگ کے خاتمہ کے لیے کیا گیا تھا۔ امریکا کے اس استدلال میں وز ن نہیں کیونکہ تاریخی شواید اس کے بر عکس ہیں۔ ہیرو شیما پر ایٹمی حملہ سے پہلے ہی جاپان جنگ ختم کرنے اور ہتھیار ڈالنے کے لئے تیار تھا۔ خود امریکا کے جنرل آئزن ہاور نے یہ اعتراف کیا تھا کہ جاپان کم سے کم جانی نقصان کی خاطر ہتھیار ڈالنے کے لئے کوشاں تھا اور اس ہولناک حملہ کی ضرورت نہیں تھی۔ دوسری عالم گیر جنگ کے برطانوی رہنما ونسٹن چرچل نے بھی یہ اعتراف کیا تھا کہ یہ کہنا غلط ہے کہ جاپان کی تقدیر کا فیصلہ ایٹم بم نے کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایٹم بم کے حملہ سے پہلے ہی جاپان کی شکست یقینی تھی۔

یہ سوال پچھلی سات دہایوں سے بہت سے لوگوں کے ذہنوں کو پریشان کیے ہوئے ہے کہ اگر جاپان کو شکست ہو چکی تھی اور جاپان ہتھیار ڈالنے کے لئے آمادہ تھا تو ہیرو شیما اور ناگا ساکی کو ایٹم بم کے حملہ کا نشانہ کیوں بنایا گیا؟

اس سوال کا قابل یقین جواب یہ ہے کہ امریکا، جنگ کے بعد پورے مشرق بعید میں اپنی بالا دستی مسلط کرنا چاہتا تھا ۔ امریکا کا مقصد صرف جاپان پر اپنا سیاسی اور اقتصادی تسلط جمانا نہیں تھا بلکہ ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹمی حملہ کے ذریعہ سوویت یونین پر رعب جمانا چاہتا تھا اور یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ ایشیا ء اور مشرق وسطی میں اسے من مانی کاروائی کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اس زمانہ کے امریکی صدر ہیری ٹرومین اور ان کے وزیر جنگ ہنری اسٹم سن ، ایٹم بم کو سویت یونین کے خلاف امریکی سفارت کاری کا اہم آلہ کار قرار دیتے تھے۔

تمام تاریخی شواہد سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ دوسری عالم گیر جنگ کے خاتمہ کے لئے ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر وسیع پیمانہ پر ہلاکت اور تباہی کے لئے ایٹمی حملہ ضروری نہیں تھا بلکہ امریکا اس حملہ کے ذریعہ مشرق بعید میں سیاسی اور اقتصادی تسلط جمانا چاہتا تھا اور سویت یونین کو زیر کرنا چاہتا تھا۔ ایک لاکھ چالیس ہزار انسانوں کی جانوں کی بھینٹ چڑھا کر سیاسی اور اقتصادی تسلط کا حصول بلا شبہ ایک ایسا مجرمانہ اقدام تھا کہ جس پر امریکا پر یہ لازم ہے کہ وہ نہ صرف جاپان سے بلکہ پوری دنیا سے معافی مانگے۔

Comments are closed.