مُلا منصور کی باقیات طالبان کے حوالے

cctalibnewsonline550-20130807-070554

مُلا منصور اختر کی ہلاکت کی تصدیق ابھی تک افغان طالبان کی طرف سے نہیں کی گئی ہے تاہم ایسی اطلاعات سامنے آ رہی ہیں کہ ہفتے کے روز طالبان شوریٰ کے اراکین نے افغان سرحد سے ملحق ایک نامعلوم پاکستانی مقام پر ملاقات کی ہے، جس میں طالبان کے آئندہ سربراہ کے انتخاب کے بارے میں صلاح مشورے کیے گئے ہیں۔

نیوز ایجنسی رائٹرز نے طالبان کے دو سینیئر عہدیداروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ کوئٹہ میں ملا منصور کی بری طرح جلی ہوئی باقیات تدفین کے لیے ان کے حوالے کر دی گئی ہیں تاہم پاکستانی حکام نے ان خبروں کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ باقیات کسی کے حوالے نہیں کی گئی ہیں۔

دوسری طرف آئی ایس پی آر جو پاکستانی سیاست پر بیان جاری کرنے میں ماہر ہے بھی خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ اسی طرح پاکستان کا اردو میڈیا ، اینکر پرسن ، دفاعی تجزیہ نگار اور جنگجو کالم نگار بھی خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔

امریکی حکام کے مطابق ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والے طالبان کے سربراہ کابل میں امریکیوں کے خلاف نئے حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ مُلا منصور اختر کو ڈرون حملے میں ہلاک کرنے کی اجازت امریکی صدر نے بذات خود دی تھی۔

پینٹاگون کے ایک ترجمان جیف ڈیوس نے کہا ہے کہ ملا منصورکو ہلاک کرنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ افغانستان میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کے لیے ’’ایک مخصوص خطرہ تھے‘‘ اور کابل میں حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ ایک دوسرے امریکی عہدیدار کا نام ظاہر نہ کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’طالبان کابل میں ہمارےمفادات اور ہمارے لوگوں کے خلاف نئے حملے کرنے والے تھے۔‘‘

اس امریکی عہدیدار کے مطابق ملا منصور کی ہلاکت سے طالبان پر دباؤ بڑھے گا اور وہ مذاکرات کے حوالے سے اپنا رویہ تبدیل کرنے پر مجبور ہوں گے،’’وہ مفاہمت کا راستہ اختیار کریں گے۔‘‘۔

تاہم اس موقف کے برعکس تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ طالبان کی سمت کے بارے میں کوئی بھی پیشن گوئی کرنا انتہائی مشکل ہوگا۔ وہ اپنے ’’موسم بہار کے حملے‘‘ جاری رکھے ہوئے ہیں اور ان میں کمی مشکل سے ہی ہو گی۔ ایک دوسرے امریکی خفیہ عہدیدار کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا، ’’منصور کی ہلاکت سے مفاہمت کی راہ میں حائل ایک رکاوٹ دور ہو گئی ہے لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ مفاہمت کا راستہ صاف ہو گیا ہے۔‘‘۔

جنوبی ایشیائی امور کے ماہر ایک دوسرے خفیہ اہلکار کا اس بارے میں مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’اس بات کا امکان بھی بہت زیادہ ہے کہ منصور کو ہلاک کرتے ہوئے طالبان کے کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات کا آخری دروازہ بھی بند کر دیا گیا ہے۔ منصور کا جانشین مذاکرات کے حوالے سے اُس سے بھی زیادہ سخت ہو سکتا ہے۔‘‘۔

دوسری جانب اس وقت طالبان انتہائی محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ چند سینئر طالبان کمانڈروں کے مطابق وہ اپنے سربراہ کی ہلاکت سے آگاہ ہیں لیکن وہ کسی بھی تقسیم سے بچنے کے لیے اس کا اعلان کرنے سے گریزاں ہیں۔

صوبہ ننگرہار کے طالبان کمانڈر کا کہنا تھا، ’’طالبان قیادت بہت محتاط ہے کیوں کہ ایک بھی غلط قدم گروپ میں تقسیم پیدا کر سکتا ہے اور ہمیں اس وقت اختلافات کم کرنے کی ضرورت ہے۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ہلاکت کا اعلان کیا جائے، مسئلہ جانشینی کا ہے۔‘‘

اطلاعات کے مطابق طالبان کے نئے سربراہ یا تو ملا منصور کے نائب سراج الدین حقانی ہو سکتے ہیں اور یا پھر ملا عمر کے بیٹے ملا محمد یعقوب۔ طالبان شوری کے ایک اہلکار کے مطابق حقانی کو پاکستان کی حمایت حاصل ہے جبکہ ملا یعقوب کو افغانستان میں لڑنے والے زیادہ تر افغان کمانڈروں کی۔

یہ امر اہم ہے کہ طالبان نے ابھی تک اپنے کمانڈر ملا منصور کی ہلاکت کی تصدیق نہیں کی ہے۔ طالبان کے ایک اہم جنگجو نے اے ایف کو بتایا ہے، ’’حقیقی چیلنج یہ ہے کہ طالبان کی تحریک مزید تقسیم کا شکار نہ ہو۔‘‘ اس جنگجو کے مطابق طالبان کی سپریم کونسل اپنی اس مشاورت کے لیے میٹنگ کے مقامات کو مسلسل تبدیل بھی کر رہی ہے تاکہ ممکنہ فضائی حملے سے بچا جا سکے۔

نام ظاہر کیے بغیر طالبان کے اس جنگجو نے مزید کہا کہ نیا کمانڈر منتخب کرنے میں کچھ عرصہ درکار ہو گا۔ طالبان کے نئے سربراہ کے طور پر مُلاعبدالغنی برادر کا نام بھی لیا جا رہا ہے، جو اس تحریک کا نائب سربراہ ہونے کے علاوہ پاکستانی فوجی اسٹبلشمنٹ کے قریب بھی تصور کیا جاتا ہے۔

مُلا برادر کو سن 2010 میں پاکستان سے گرفتار کر کے کی ایک جیل میں قید کرد یا گیا تھا۔ بعدازاں اسے ستمبر سن 2013 میں افغان امن عمل کی کوششوں کے سلسلے میں رہا کیا گیا تھا۔ مبینہ طور پر یہ جنگجو تب سے پاکستانی حکام کی سرپرستی میں نظر بند ہے۔

DW

Comments are closed.