ایران میں ’غیر اسلامی ماڈلنگ پر گرفتاریاں

0,,16992427_303,00

ایران اور سعودی عرب اسلامی دنیا کے دو ایسے ملک ہیں جہاں کی حکومتیں اسلام کی متشدد تعریف پر یقین رکھتی ہیں ۔ ان ممالک میں حکومت کی جانب سے کی گئی اسلامی تشریح کی خلاف ورزی پر سخت ترین سزاوں کا سامنا کرناپڑتا ہے۔

ایران میں ایسے آٹھ افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے، جو سوشل نیٹ ورکنگ سائیٹ انسٹاگرام پر ’’غیر اسلامی ماڈلنگ‘‘ کو فروغ دینے والے ایک نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق ان افراد کی گرفتاری کا حکم ایران کی سائبر کرائم عدالت نے دیا تھا۔

ایران میں گزشتہ دو برسوں سے جاری ’’سپائیڈر ٹو‘‘ نامی آپریشن کے تحت ان افراد کی گرفتاریاں عمل میں لائی گئی ہیں۔

اس آپریشن میں دیگر افراد کے علاوہ ان ماڈلز کو بھی ہدف بنایا گیا، جو انسٹاگرام پر حجاب کے بغیر اپنی تصاویر شئیر کر رہی تھیں۔ واضح رہے کہ ایران میں سن 1979ء کے اسلامی انقلاب کے بعد سے خواتین کو سر ڈھانپنے کا حکم ہے۔

سپائیڈر ٹو آپریشن میں ایسے ایک سو ستر لوگوں کی نشاندہی کی گئی ہے، جو انسٹاگرام پر اپنے آن لائن پیجز چلا رہے ہیں۔ ان میں نواسی فوٹوگرافرز، اٹھاون ماڈلز، اکاون بیوٹی سلونز کے مینیجرز اور فیشن ڈیزائنرز شامل ہیں۔

اس حوالے سے حکومتی اہلکار جاوید ببائی کا کہنا ہے، ’’ہم نے پتا لگایا کہ انسٹاگرام پر کل بیس فیصد مواد ان ماڈلنگ نیٹ ورکس کا ہے، یہ افراد انٹرنیٹ کے ذریعے غیر اخلاقی اور غیر اسلامی اقدار کو فروغ دے رہے ہیں۔‘‘ ببائی کا کہنا تھا کہ اب یہ عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کو سزائیں سنائے۔

اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ان آٹھ افراد کے علاوہ اکیس دوسرے افراد کے خلاف بھی قانونی کارروائی شروع کی جا چکی ہے۔ اس اسٹنگ آپریشن میں انسٹاگرام کے تین سو اکاؤنٹس کی نگرانی کی گئی تھی۔

ایک سابق ماڈل ایلہام عرب نے بتایا، ’’ایک کامیاب ماڈل ماہانہ تقریباً تین ہزار تین سو امریکی ڈالر کما سکتی ہے۔‘‘ دوسری جانب آٹھ افراد کی گرفتاری سے متعلق عدلیہ کے ترجمان غلام حسین کا کہنا تھا کہ مارچ میں گرفتار ہونے والی آٹھ ماڈلز میں سے کچھ کو رہا کر دیا گیا تھا تاہم کچھ کو جسم فروشی جیسے سنگین الزامات کا سامنا ہے۔

واضح رہے کہ ایران میں فیس بک، ٹوئٹر اور یوٹیوب پر پابندی عائد ہے لہذا انسٹاگرام ایک معروف سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ ہے۔

DW/News Desk

Comments are closed.