بھوک کا شکاریمن کے شہری

another-family

، عرب ملک یمن کے شہری کسی امریکی و یہودی سازش کا شکار نہیں ہوئے بلکہ پچھلے کچھ عرصے سے مسلمانوںکی اپنی روایتی سیاست کی سزا بھگت رہے ہیں۔بین الاقوامی میڈیا میں زیادہ تر مغربی ممالک کی طرف سے مسلمانوں پر ڈھائے گئے مظالم کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔میڈیا افغانستان ،عراق اور شام میں ہونے والے مظالم کی کہانیاں تو سناتا ہے مگر جب مسلمان ہی مسلمانوں پر ظلم ڈھائیں تو اس کا چرچا ذرا کم ہی ہوتا ہے۔

اس وقت یمن کے تقریباً 76 لاکھ شہری بھوک کے خطرے سے دوچار ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق یمن میں انسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی کے لیے ایک اعشاریہ آٹھ ارب ڈالر کی امداد کی اپیل کی گئی تھی لیکن اس کا صرف سولہ فیصد حصہ ملا ہے۔

دوسری طرف سعودی عرب یا خلیجی ممالک جو اپنے فوجی بجٹ پر اربوں ڈالر خرچ کرنے کے ساتھ ساتھ انتہا پسند تنظیموں کی مالی امداد تو کرتے ہیں لیکن انسانیت کی مدد کے مسئلے پر کوئی توجہ دینے کو تیار نہیں۔

گزشتہ برس مارچ میں سعودی اتحاد نے یمن پر فضائی حملوں کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ ان حملوں کا مقصد ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں اور یمن کے سابق صدر علی عبداللہ صالح کے مسلح حامیوں کو یمن پر مکمل قبضے سے روکنا تھا۔ ابھی تک اس لڑائی میں چھ ہزار دو سو سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور ان میں سے نصف تعداد عام شہریوں کی ہے۔

اقوام متحدہ کی امدادی سرگرمیوں کے ڈائریکٹر جان گِینگ کا نیویارک میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بنیادی طبی خدمات کے حوالے سے یمن کے دس ملین شہریوں کا انحصار بین الاقوامی امداد پر ہے۔

انہوں نے مزید بتایا، ’’بنیادی انسانی بنیادوں پر امداد اور ڈونر فنڈنگ کے لحاظ سے گزشتہ چند ماہ کے دوران ہم نے حیران کن کمی دیکھی ہے۔‘‘ گنگ کا کہنا تھا کہ وہ بین الاقوامی برادری سے صرف اتنی امداد مانگ رہے ہیں، جس سے ان مشکل حالات میں لوگوں کو زندہ رکھا جا سکے۔

یمن کے دورے سے واپس امریکا پہنچنے والے اقوام متحدہ کے اس عہدیدار کا کہنا تھا کہ سن 2016 میں جن ڈونر ممالک نے امداد دینے کا وعدہ کیا تھا، ان میں امریکا، برطانیہ، یورپی کمیشن اور جاپان بھی شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کی یمنی اس احساس میں مبتلا ہو چکے ہیں کہ دنیا نے انہیں تنہا چھوڑ دیا ہے۔

کھانے پینے کی اشیاء اور ادویات کے لحاظ سے یمن کا زیادہ تر انحصار درآمدات پر ہے لیکن ملک میں جاری لڑائی کی وجہ سے اس ملک میں تجارتی

جہازوں کی آمد ورفت نہ ہونے کے برابر ہے اور ملک کی اسی فیصد آبادی کو انسانی بنیادوں پر امداد کی ضرورت ہے۔

رواں ماہ کے آغاز پر اقوام متحدہ نے اعلان کیا تھا کہ حوثی باغیوں کے زیر کنٹرول بندرگاہوں پر تجارتی جہازوں کی چیکنگ کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے تاکہ تجارتی درآمدات میں اضافہ ہو سکے اور باغیوں کو ہتھیاروں کی ممکنہ ترسیل روکی جا سکے۔

DW/News Desk

Comments are closed.