توہینِ مذہب کےالزام پر عربی کا استاد گرفتار

blasphemy_law

جنوبی پنجاب کے ایک سرکاری اسکول کے استاد کو مبینہ طور پر چھٹٰی جماعت کے دو طالب علم بھائیوں کو بروقت کلاس میں نہ آنے پر مارنے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا تھا تاہم بعد ازاں ان پر توہین مذہب کا الزام عائد کر دیا گیا۔

ایک سرکاری اسکول کے عربی زبان کے استاد کو چودہ مئی کو مبینہ طور پر چھٹی جماعت کے دو طالبعلم بھائیوں کو کلاس میں وقت پر نہ آنے کی وجہ سے پیٹنے کے مبینہ الزام میں گرفتار کیا گیا تھا بعد ازاں ان پر توہین مذہب کا الزام عائد کر دیا گیا۔

ان دونوں بھائیوں کے والدین نے جبریل احمد نامی اس ٹیچر کے خلاف ضلع مظفر گڑھ کے گُرمانی اسکول کی انتظامیہ کو شکایت درج کرائی تھی۔ اس اسکول کے سربراہ نے اے ایف پی کو بتایا کہ 40 سالہ ٹیچر جبریل احمد کو ایک انکوائری کے بعد معطل کر دیا گیا ہے۔ ان والدین نے چار روز بعد اسی ٹیچر کے خلاف پولیس میں جا کر شکایت درج کرواتے ہوئے جبریل احمد پر توہین مذہب کا مرتکب ہونے کا الزام لگایا۔

دریں اثناء اسکول انتظامیہ نے کہا کہ اس ٹیچر کے خلاف اس سے پہلے کبھی توہین رسالت کا مرتکب ہونے کا الزام سامنے نہیں آیا تھا۔

توہین رسالت قدامت پسند اسلامی مملکت پاکستان میں ایک انتہائی حساس معاملہ ہے۔ یہاں تک کہ غیر ثابت شدہ الزامات پر بھی ملزم کے ساتھ مار پیٹ اور تشدد کیا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق پاکستان میں توہین مذہب کے قوانین کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے اسے معمولی انتقام حاصل کرنے کے لیے بھی بروئے کار لایا جاتا ہے۔

ملتان کے ایک وکیل شہباز علی گُرمانی، جو ملزم کے والد کے ساتھ بات چیت کر چُکے ہیں، کے بقول، ’’جبریل احمد پر لگایا جانے والا الزام بھی اسی نوعیت کا ہے‘‘۔

اے ایف پی کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے وکیل شہباز گرمانی کا کہنا تھا، ’’عربی ٹیچر کا کیس جعلی ہے اور یہ بدلا لینے کے لیے درج کرایا گیا ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’بد قسمتی سے پاکستان بھر میں جہاں کہیں بھی ایسے کیسز درج کروائے جا رہے ہیں اُن میں سے زیادہ تر کے پیچھے ذاتی، سماجی یا سیاسی عوامل کار فرما ہوتے ہیں‘‘۔

جبریل احمد کے سلسلے میں اُن کے اسکول کے ہیڈ ماسٹر قاضی محمد اجمل کا بھی یہی کہنا ہے کہ اس عربی ٹیچر کے خلاف جو ابتدائی مقدمہ درج کروایا گیا تھا اُس میں توہین مذہب کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ انہوں نے کہا،’’جبریل احمد بچوں کی پٹائی کیا کرتے تھے اور اس لیے اُنہیں معطل بھی کر دیا گیا لیکن اُن پر توہین مذہب کا الزام بالکل بے بنیاد ہے‘‘۔

ہیڈ ماسٹر قاضی محمد اجمل نے یہ بھی کہا کہ عربی کے ٹیچر پر لگائے جانے والے الزام کے غلط ہونے کی تائید اُن کے اسکول کے اساتذہ کی اکثریت نے بھی کی ہے۔

پاکستان میں ایک مسلمان ٹیچر کو توہین مذہب کے الزام میں موت کی سزا تک سنائی جا سکتی ہے۔ اس پر اسکول اہلکاروں اور انسانی حقوق کے لیے سرگرم عناصر کی طرف سے سخت احتجاج کیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ توہین مذہب کا قانون زیادہ تر کیسوں میں ناجائز طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے اور اس کا مقصد محض ذاتی انتقام لینا ہوتا ہے۔

دریں اثناء اسکول ٹیچر جبریل احمد کے والد فضل الرحمان نے اے ایف پی کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ پولیس نے اُن کا بیان لینے سے انکار کر دیا ہے اور وہ یہ بھی نہیں واضح کر رہی کہ اُن کے بیٹے کو اُس نے کہاں زیر حراست رکھا ہوا ہے۔

Comments are closed.