اسلامی نظریاتی کونسل :خواتین پر تشدد کی ذمہ دار

images

پارلیمنٹ کے ایوان بالا کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق نے خواتین کے خلاف تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات کا ذمے دار اسلامی نظریاتی کونسل کو ٹھہرایا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ یہ کونسل ختم کی جانی چاہیے۔

اس موضوع پر سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کی چیئر پرسن سینیٹر نسرین جلیل نے اسلام آباد میں بدھ 29 جون کو ڈوئچے ویلے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا:”اسلامی نظریاتی کونسل ایک خاص مقصد کے لیے بنی تھی اور یہ محدود مدت کے لیے تھی۔ اسلامی نظریاتی کونسل نے جب 1997ء میں پارلیمنٹ میں اپنی آخری رپورٹ پیش کر دی تھی تو اس ادارے کا کام مکمل ہو گیا تھا۔ اب اس کے برقرار رہنے کا قانونی اور آئینی جواز ختم ہو چکا ہے لیکن یہ کونسل ابھی تک قائم ہے‘‘۔

سینیٹر نسرین جلیل کے مطابق سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اسلامی نظریاتی کونسل نے خود ایک بات کی نشاندہی کی ہے کہ مردوں کو اس بات کی اجازت ہونی چاہیے کہ وہ عورتوں کی ہلکی پھلکی پٹائی کر سکیں، تو کیا عورتوں کے خلاف ایسی سفارشات سے عام لوگوں کے ذہنوں میں کوئی منفی سوچ پیدا نہیں ہو گی؟ انہوں نے کہا، ’’اس سے نہ صرف تشدد کے واقعات بڑھے ہیں بلکہ ان کی شدت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ ماروی سرمد، شیریں مزاری اور دوسری خواتین کی تذلیل ہو رہی ہے۔ یہ تمام واقعات عام لوگوں میں منفی سوچ کی جھلک دکھا رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ’’اس حوالے سے خواتین کی بہت سی شکایات بھی ہمیں موصول ہوئی ہیں۔ اس ساری صورتحال کے ذمہ دار دوسرے عناصر بھی ہیں لیکن اس کی ایک بڑی وجہ اسلامی نظریاتی کونسل بھی ہے، جس پر سینیٹرز کو بہت تشویش ہے‘‘۔

سینٹ کی انسانی حقوق کی کمیٹی کی سربراہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ایک دوسری بات یہ بھی ہے کہ جب آئین کی رو سے اس کمیٹی کی موجودگی کی کوئی گنجائش ہی نہیں، تو یہ کس طرح ابھی تک موجود ہے؟ اس لیے ہم نے حکومت سے پرزور مطالبہ کیا ہے کہ اس کمیٹی کو مکمل طور پر ختم کیا جائے کیونکہ سی آئی آئی نے مختلف اوقات میں جو باتیں کی ہیں، وہ معاشرے کو آگے کے بجائے پیچھے کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ سینیٹ میں ہماری کمیٹی کا خیال ہے کہ جو ادارہ معاشرے میں فائدے کے بجائے نقصان کا باعث ہو، اسے ختم کیا جانا چاہیے‘‘۔

اسلامی نظریاتی کونسل کی واحد خاتون رکن سمعیہ راحیل قاضی نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ’’اسلامی نظریاتی کونسل ایک قانونی اور آئینی ادارہ ہے اور اس کی حیثیت آئین کی وضع کردہ ہے۔ آئین کے آرٹیکل 227 اور 228 میں اس کے رولز واضح کر دیے گئے ہیں۔ اس ادارے کو ختم کرنے کے لیے پارلیمینٹ میں دو تہائی اکثریت کی ضرورت ہو گی۔ جہاں تک اس ادارے کو ختم کرنے کے مطالبے کا تعلق ہے تو یہ اس کونسل کے مخالفین کی خام خیالی ہے کہ وہ کبھی ایسا کر سکیں گے‘‘۔

سمعیہ راحیل قاضی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’جہاں تک بات ہے خواتین پر تشدد کی، تو میں اس کونسل کی واحد خاتون ہونے کے حوالے سے اس کی سختی سے مذمت کرتی ہوں۔ اور پھر اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی کبھی یہ نہیں کہا کہ خواتین پر تشدد کیا جائے۔ بلکہ وہ تو خواتین کے حقوق کے تحفظ کی حامی ہے۔

جب ڈی ڈبلیو نے سمعیہ قاضی سے یہ پوچھا کہ کیا سی آئی آئی نے خواتین کی ہلکی پھلکی پٹائی کی بات نہیں کی، تو انہوں نے کہا،’’جس اجلاس میں یہ بات ہوئی، میں اس میں شریک نہیں تھی۔ لیکن وہاں یہ بات اس طرح نہیں ہوئی تھی، جیسے میڈیا میں اچھالی گئی ہے۔ میڈیا کو چاہیے کہ پہلے تحقیق کرے، کسی بات کی، گہرائی تک جائے، اس کی روح کو جانے کہ اصل بات کیا ہوئی تھی، پھر اس پر کوئی بات کی جائے‘‘۔

اپنے انٹرویو میں سمعیہ راحیل نے شکایت کرتے ہوئے کہا،’’پوری دنیا میں خواتین پر تشدد ہوتا ہے۔ لیکن پاکستانی میڈیا ذرا سی بات کو بہت بڑا بنا کر پیش کرتا ہے۔ دراصل پاکستانی میڈیا کچھ ایسے سیکولر لوگوں کے ہاتھوں میں ہے، بلکہ سینٹ اور قومی اسمبلی میں بھی دو تین فیصد لوگ ایسے ہیں، جو اپنے دین کے بنیادی ارکان کے خلاف بات کرتے ہیں۔ پیغمبر اسلام خواتین پر ظلم و جبر کے سخت مخالف تھے۔ تو ہم کیسے خواتین پر تشدد اور ظلم کی بات کر سکتے ہیں؟ یہ سب باتیں جھوٹ پر مبنی ہیں‘‘۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے بارے میں ہی ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی عاصمہ جہانگیر نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،’’میں سمجھتی ہوں کہ سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق نے بالکل ٹھیک کہا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کو ختم کر دینا چاہیے۔ اس لیے کہ اس کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اس کونسل نے آج تک کبھی کوئی مثبت کام نہیں کیا۔ اب جب ہم سوچ رہے ہیں کہ پاکستان میں، اور یہ سوچا جانا چاہیے، کہ ایسے ادارے جو بالکل تعمیری نہ ہوں، ہم ان پر پیسے خرچ کریں اور یہ لوگوں کو اکسائیں کہ لوگ جنسی تشدد کریں۔ ایسے اداروں کو فوری طور پر ختم کر دینا چاہیے‘‘۔

جب عاصمہ جہانگیر سے ڈی ڈبلیو نے یہ پوچھا کہ کونسل کا تو کہنا ہے کہ اسے ختم نہیں کیا جا سکتا، تو عاصمہ جہانگیر نے کہا،’’کیوں ختم نہیں کیا جا سکتا؟ اس کے لیے باقاعدہ ایک قانونی ترمیم ہے، جس کے تحت پارلیمنٹ اس کو ختم کر سکتی ہے۔ اور ایسے ادارے جنہوں نے کبھی کوئی مثبت کام نہیں کیے، ان کو تو بلا تاخیر ختم کر دینا چاہیے‘‘۔

پاکستانی سینیٹ کی فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے دیگر اداروں نے بھی غیرت کے نام پر خواتین کے قتل کے حالیہ واقعات پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل کے مقدمات میں معافی کا سلسلہ ختم کیا جائے تاکہ ملزمان کے لیے سزا کو یقینی بنایا جا سکے۔

DW

Comments are closed.