انتخابات اور تبدیلی

4212_109624585991_3851843_nبیرسٹر حمید باشانی

آزاد کشمیر میں الیکشن کی آمد آمد ہے۔اس کے ساتھ ہی تبدیلی کی باتیں بھی ہو رہی ہے۔تقریباً ہر شخص نئے نظام کی بات کر رہا ہے۔اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں، جو آج حکومت میں ہیں، یاپھر ماضی میں وہ حکومت میں رہے۔گویا تبدیلی یا نئے نظام کا نعرہ مل جل کر لگایا جا رہا ہے۔نہ نعرہ لگانے والوں کو کوئی شرمندگی محسوس ہوتی ہے نہ سننے والے اس پر کوئی اعتراض کرتے ہیں۔نہ سننے والے یہ سوال اٹھاتے ہیں اور نہ ہی کہنے والے اس وضاحت کی ضرورت محسوس کرتے ہیں کہ تبدیلی سے ان کی کیا مراد ہے ؟ وہ ایسا کیا نیا کام کریں گے جو ان کے پیشرو حکمرانوں نے نہ کیا ہو؟

گویا یہاں سیاسی مکالمہ نہیں ہو رہا۔ نہ کوئی سنجیدہ موضوعات پر کوئی مباحثہ ہو رہا ہے۔یہاں سیاست کار پر جوش تقاریر کرتے ہیں۔ عوام تالیاں بجاتے ہیں۔کسی کے پلے کچھ نہیں پڑتا کہ کوئی کیا کہہ رہا ہے۔ کوئی سنجیدہ بات نہیں ہوتی، کوئی پروگرام نہیں پیش کیا جاتا۔یہاں زور دوسرے سے زیادہ گلا پھاڑ کر بڑھک لگانے یا مخالفین پر ان سے بڑا رقیق حملہ کرنے پر دیا جاتا ہے۔عوامی حمایت اپنی خوبیوں کی بنا پر نہیں مانگی جاتی بلکہ مخالفین کے نقائص گنا کر مانگی جاتی ہے۔ 

عوام نے اگر انتخابات سے کچھ حاصل کرنا ہی ہے تو انہیں اس حوالے سے کچھ سنجیدگی دکھانی ہو گی۔کچھ سولات اٹھانے ہوں گے اور سیاست کاروں سے اپنے ان سولات کے جوابات مانگنے ہوں گے۔اس مد میں سب سے پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو سیاست کار تبدیلی کی بات کرتا ہے وہ پہلے اس بات کی وضاحت کرے کہ اسے موجودہ نظام میں کو کس نظر سے دیکھتا ہے ؟ 

کیا اسے اس نظام میں کوئی خرابی نظر آتی ہے ؟ اگر اس سوال کا جواب ہاں میں ہے تو اس خرابی کے اسباب کیا ہیں۔ اس خرابی کو دور کرنے کے لیے کن اسباب و وسائل کی ضرورت ہے ؟ اور وہ سیاست کار ایسے وسائل او اسباب کہاں سے لائے گا۔جب عوام یہ سولات اٹھائیں گے تو سیاست کاروں کی طرف سے کئی طرح کے جوابات سامنے آئیں گے۔ 

پہلا اور عام جواب یہ ہوگا کہ نظام میں کوئی خرابی نہیں ہے۔بلکہ جن لوگوں کے پاس اس نظام کی باگ ڈور ہے وہ لوگ ٹھیک نہیں ہیں۔گویا اگر اقتدار کی زمام ان لوگوں سے چھین کر ان صاحب کو دے دی جائے تو سارہ مسئلہ ہی حل ہو جاتا ہے۔یہ جواب عموماً سٹیٹس کو کے حامی سیاست دانوں کی طرف سے آتا ہے۔یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو ماضی میں کسی نہ کسی شکل میں اقتدار کا حصہ رہ چکے ہوتے ہیں۔لیکن وہ کبھی اس بات کی وضاحت نہیں کرتے کہ اپنے دور حکومت میں انہوں نے نظام بدلنے کی کوئی کوشش کیوں نہیں کی۔یا پھر نظام بدلنے سے کیا مراد ہے۔اس میں وہ ایسا کیا کام کریں گے کہ یہ ایک نیا نظام بن جائے گا۔

انتخابات میں اصل مقابلہ اسی طرح کے لوگوں کے درمیان ہوتا ہے۔گویا عوام نے ان لوگوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے جو نظام کو جوں کا توں رکھنے کے حامی ہیں۔ یہ لوگ نظام میں بنیادی تبدیلی کے مخالف ہوتے ہیں اور اقتدار کی اپنی طرف منتقلی کو تبدیلی کہتے ہیں۔جو لوگ اس نظام کے خلاف ہیں۔اورا س میں بنیادی تبدیلی کے ذریعے نئے نظام کی تعمیر کی بات کرتے ہیں ملک کی مروجہ انتخابی سیاست میں ان کا کوئی بڑا کردار نہیں ہے۔

لہذا گھما پھرا کر ایک ہی سوچ رکھنے والے سیاست کاروں کا آپس میں مقابلہ ہوتا ہے۔یہ لوگ ملک کے سیاسی اور انتظامی ڈھانچے میں تبدیلی کی بات سے گھبراتے ہیں۔اس لیے کہ ملک کے سیاسی و انتظامی ڈھانچے میں تبدیلی کے لیے ملک کے آئین میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔سیاسی و انتظامی تبدیلی سے مراد یہ ہے کہ ریاست کے جملہ سیاسی و انتظامی فیصلے کرنے کا اختیار کلی طور پر ریاست کے منتخب نمائندوں کے ہاتھ میں ہو۔لیکن یہ لوگ کوئی ایسا واضح مطالبہ کرنے سے کنی کترا جاتے ہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں یہ لوگ خود ایسے مطالبات کرنے والوں کو غدار اور وطن دشمن قرار دیتے رہے ہیں۔اپنی وفاداریاں ثابت کرنے کے لیے ان لوگوں نے ریاست میں ایسا ماحول پیدا کر دیا کہ اختیارات مانگنے والوں کی وفاداریوں کو ہی مشکوک سمجھا جانے لگا۔چونکہ یہاں حصول اقتدار کی بنیادی شرط عومی مقبولیت سے زیادہ وفاداری ہی رہی ہے اس لیے یہاں کوئی بھی اپنی وفاداری پر کسی قسم کے شک کے سائے پڑنے سے ڈرتا ہے۔

چنانچہ یہ تسلیم کرنے کے باوجود بھی کہ جب تک ریاست کے تمام وسائل ریاست پر خرچ نہیں ہوتے اور ریاست کے تمام سیاسی و انتظامی فیصلے ریاستی نمائندے نہیں کرتے اس وقت تک تبدیلی کی بات محض ایک دھوکے سے زیادہ نہیں۔

Comments are closed.