شیخ چلی کی منصوبہ بندی 

qazi-310x387فرحت قاضی

جاگیردار کے پاس اس کی جائیداد اور پیسہ منصوبہ بندی کا ہی نتیجہ ہوتا ہے۔ 
جاگیر دارانہ نظام میں ایک جاگیردار کے پاس مال و دولت ہوتی ہے جس کے چوری کاا سے دھڑکا لگا رہتا ہے چنانچہ یہ خوف اور ڈر ا سے ذاتی باڈی گارڈ رکھنے پر مجبور کرتا ہے علاوہ ازیں،وہ ایسی روایات،رسومات، رواجات،ثقافت اور سماجی اور اخلاقی قدروں کو پیدا کرکے فروغ دیتا ہے جو اس کی مالی ، معاشرتی اور سماجی حیثیت کو مضبوط اور مستحکم بنانے کا موجب بنتے ہوں۔
ایک انسان کے پاس پیسہ آتا ہے تو اس میں مزید کے حصول کا لا لچ بھی پیدا ہونے لگتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ اس کے ملازم اسے چھوڑ کر بھی کہیں نہیں جائیں چنانچہ اس خیال کے پیش نظر وہ اپنے کھیت مزدور کو اتنا ہی کچھ دیتا ہے جو اس کے جسم اور روح کے رشتے کو برقرار رکھتا ہو چنانچہ یہی وجہ ہے کہ کاشتکار ہمیشہ اس کے دست نگر رہتے ہیں وہ ان کو اپنا غلام اور محتاج رکھنا چاہتا ہے اس لئے وہ ان کو جاہل اور ان پڑھ رکھتا ہے۔
ان میں تنازعات پیدا کرکے لڑاتا ہے اور پھر خود ہی ثالث بن کر ان پر ظاہر کرتا ہے کہ وہ اچھا انسان اور ان کا بہی خواہ ہے اور دو انسانوں میں لڑائی جھگڑے اور فساد کو ناپسند کرتا ہے وہ ان غریب دیہاتیوں کو مسائل میں الجھائے رکھتا ہے وہ اپنا مد مقابل پیدا ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا ہے اس لئے اس کے علاقے میں ہنر مند افراد کی کوئی وقعت اور قدر نہیں ہوتی ہے جدید تعلیم اور سائنس سے اس کا مقام اور درجہ گھٹتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ کسانوں کو ان سے دور رکھنے کی ہر ممکن سعی و کاوش کرتا ہے۔ اس کے پاس بنگلہ، کار اور جائیداد منصوبہ بندی کا ہی نتیجہ ہوتا ہے وہ اس کی اہمیت اور افادیت سے بخوبی واقف ہوتا ہے مگر منصوبہ ساز کو شیخ چلی اورمنصوبہ بندی کو حماقت کے ہم معنی اور مترادف قرار دیا ہوتا ہے۔
ایک دیہہ کا سرسری جائزہ لینے سے ہمارے سامنے جو کچھ آتا ہے وہ یہ ہے کہ اس میں دنیا کو سرائے سے تشبیہ دی جاتی ہے اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے منصوبہ بندی کو لالچ اور حرص سمجھا جاتا ہے دیہی باشندوں کو مالک کی جانب سے جو ملتا ہے اسی پر قناعت کرتے ہیں اس نوعیت کے تصورات جہاں حاوی ہوتے ہیں ۔لا محالہ وہ گاؤں ان کا عملی نمونہ بن جاتا ہے اس کے باسی اپنے ارد گرد گندگی اور آلودگی دیکھتے ہیں بارش میں پانی اور کیچڑ سے گزرتے ہیں ان کے آس پاس کھیتی باڑی کے لئے وسیع و عریض زمین ہوتی ہے کچھ ہی فاصلے پر دریا اور نہر بھی بہہ رہے ہوتے ہیں تو ان سے مستفید ہونے کا خیال ان کے اذہان میں نہیں آتا ہے۔ القصہ وہ جہاں بستے ہیں محنت اور کاروبار کرتے ہیں اس کی بہتری اور ترقی پر سر نہیں کھپاتے ہیں جاگیردارانہ نظام کے زیر سایہ یہ تصورات اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ مستقبل کے لئے کوئی منصوبہ بندی نہیں ہونی چاہئے ۔
ان تصورات اور نظریہ کو مزید تقویت پہنچانے اور عوام کے اذہان میں راسخ کرانے کے لئے قصے کہانیوں،لطیفوں اور احمقانہ کرداروں سے بھی مدد لی جا تی ہے ۔
منصوبہ بندی کو ایک پسماندہ دیہہ میں کیسا دیکھااور سمجھا جاتا ہے اس حوالے سے کئی کہانیاں اور حکایات ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہتے ہیں کہ ایک ضعیف العمر شخص چمار کے پاس کھڑا اس سے جوتوں کا ایک ایسا نایاب جوڑا بنانے کی فرمائش کررہا تھا جو کم از کم سو سال تک چل سکیں جب سفید ریش شخص چمار کے ساتھ بات چیت میں مصروف تھا تو اس دوران وہاں سے گزرتے ہوئے ایک شخص نے بوڑھے کی یہ بات سنی تو کھل کھلاکر ہنس پڑا وہ اسے حماقت سے تعبیر دیتے ہوئے طنزیہ انداز میں بولا کہ قبر میں پاؤں لٹکائے ہوئے ہیں اور سو سال ساتھ دینے والے جوتے بنانے کی فرمائش کرتا ہے ۔
اسی طرح کاایک اور قصہ بھی ہے ایک شخص نے بازار سے سودا خریدا اور مزدور کی تلاش میں نظریں دوڑانے لگا اس نے شیخ چلی کو مزدور سمجھا اور اپنا سامان گھر تک لے جانے پر بیس روپے دیہاڑی کا سودا کیا ۔
’’
میرا گھی کا یہ کنستر میرے گھر تک لے جاؤ تو بیس روپیہ مزدوری دوں گا‘‘
شیخ چلی نے ہاتھ بڑھایا کنستر اٹھاکر سر پر رکھا اور اس بندے کے ہمراہ چل پڑار استے میں سوچنے لگا کہ اس ایک روپیہ کی مرغی خرید وں گا جو انڈے دے گی تو انہیں جمع کرتا جاؤں گا ان سے بچے نکلیں گے انہیں بڑا کرکے بازار جاکر فروخت کردوں گا اور ایک بکری لے آؤں گا اس کے بچے ہوں گے وہ بڑے ہوں گے ان سب کو بیچ کر گائے خرید لوں گا ہوتے ہوتے مجھے بہت سا پیسہ ہاتھ آجائے گا میں علاقے کا امیر ترین شخص بن جاؤں گا بیٹا ایک روپے مانگنے پر اکتفا ء نہیں کرے گا بلکہ آکر کہے گا: ۔
’’
بابا! پچاس روپیہ دے دو اپنے لئے مٹھائی لینا ہے‘‘
میں اسے لات مارتے ہوئے کہوں گا چل جا کل بھی سو روپے دئیے تھے وہ یہ تصور کرکے مارنے کے لئے پیر اٹھاتا ہے تو گھی کا ڈبہ زمین پر آرہتاہے۔
اس کہانی میں ایک مفلس انسان خوشحال زندگی کے خواب دیکھنے لگتا ہے جبکہ جاگیردار کے لئے یہ ناقابل برداشت ہے کہ اس کے علاوہ کوئی اور بھی ایسے خواب دیکھے یا منصوبہ سازی کرنے لگے لہٰذا اس نے اس مزاحیہ داستان کے واسطے عوام کو ڈرایا ہے کہ جو کوئی بھی ایسے خیالات رکھے گا تو اس کو لامحالہ نقصان پہنچے گاعوام اس کا تمسخر اڑائیں گے اور وہ کسی کومنہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گا۔ہمارے دیہات میں شیخ چلی کے حوالے سے ایسی کئی کہانیاں آج بھی زبان زد عام ہیں جن کے ذریعہ عوام کو یہ سبق اور پیغام دیا جاتا ہے کہ منصوبہ بندی کرنے والے نرے احمق ہوتے ہیں۔
جاگیردارانہ نظام کے سائے میں پھلنے پھولنے والے ان سماجی، معاشی اور اخلاقی نظریوں کی جڑیں اتنی گہری اور مستحکم ہوتی ہیں کہ ان کے اثرات شہروں میں بھی محسوس کئے جاسکتے ہیں چنانچہ ایک شخص کوئی نیا منصوبہ بنانے کے ارادے کا اظہار کرتا ہے تو اسے اس سے باز رکھنے کے لئے اس کے دوست و احباب جلد ہی اس کو اس کی راہ میں حائل دشواریوں اور ہولناک نتائج سے آگاہ کرنے لگتے ہیں وہ اسے اپنا اخلاقی فرض سمجھتے ہیں۔
اب ذرا جاگیردار کی مالی ومعاشی خوشحالی اور پرتعیش زندگی کی طرف دیکھئے تو معلوم ہوگا کہ اس کی وسیع و عریض جائیداد اس کا کنال پر محیط مکان اور بے حساب دولت اس کی منظم سوچ اور منصوبہ بندی کا ہی نتیجہ ہوتا ہے چونکہ وہ کسی دوسرے کو اپنی طرح مال ودولت کا مالک اور صاحب حیثیت گوارا نہیں کرتاہے اس لئے وہ لوگوں کی نظروں میں منصوبہ سازوں کو احمق ثابت کرنا چاہتا ہے قدیم سماج میں شیخ چلی سمیت کئی کردار پیدا کئے گئے جو منصوبے بناتے ہیں اور ناکام ثابت ہوتے ہیں بلکہ ان کی وجہ سے بسا اوقات انہیں نہ صرف ہزیمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے بلکہ جسمانی اذیت بھی پہنچتی ہے ۔
شیخ چلی کردار کے ذریعے عوام کو بتایا گیا ہے کہ اگر وہ بھی شکست اور شرمندگی سے بچنا چاہتے ہیں تو کل اور مستقبل کے لئے کوئی منصوبہ بندی نہ کریں اور اگر ایسا کرتے ہیں تو یہ ان کی بھول اور نادانی ہی ہوگی کیونکہ ان سے غلطیاں ہوں گی اور پھر لوگ ان کے منہ پر اور پس پشت مذاق اڑائیں گے ہماری ملکی سیاست، خاندان، حجرے اور تعلیم میں یہ رویے اور رحجانات اپنا اظہار کرتے رہتے ہیں سیاست میں اس کا اظہار اس طرح ہوتا ہے کہ ملک میں کئی سیاسی جماعتوں کو حکومت کرنے کا موقع ملا جمہوری حکومتیں بنیں مگر وہ ملک اور عوام کے دیرینہ مسائل حل کرنے میں بری طرح ناکام رہیں گھروں میں ماں باپ اور بہن بھائی ننھے میاں کو بار بار ہاتھ سے پکڑ کر یاد دلاتے رہتے ہیں کہ ایسا مت کرو گر جاؤ گے ویسا مت کرو چوٹ لگ جائے گی القصہ یہ تمام رویے کوئی نیا کام کرنے اورمنصوبہ بندی کو بیکار محض سمجھتے ہیں۔
اس قسم کے رویے ایک کنبے میں ہوں ایک دیہہ یا ملک کی سطح پر پائے جاتے ہوں تواس کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ثابت ہوتے ہیں۔ 
دیہہ میں جاگیردار کا وسیع مکان اور ایکڑوں پر مشتمل زمین ہوتی ہے یاشہر میں آسمان سے باتیں کرتے ہوئے بلند وبانگ پلازے اور کارخانے دکھائی دیتے ہیں تو یہ سب بھی منصوبہ بندی کا ہی کرشمہ ہیں اور یہ ایک ہی مرتبہ سوچنے کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے اور ضرورت کے ساتھ سا تھ اس میں ردوبدل کیا جاتا ہے یہی حال سیاست اور گھروں کا بھی ہوتاہے اگر ایک بچہ اپنی غلطی سے گرکر زخمی ہوجاتا ہے تو وہ اس سے سیکھتا بھی ہے ایک بچے کی ماں یا باپ یا دونوں اسے بچپن میں ہی داغ مفارقت دے جاتے ہیں تو سماج اس کو جینا سکھادیتا ہے ۔
اس طرح سیاست میں بھی ووٹر سیاسی رہنماؤں اور پارٹیوں سے دھوکہ اور ٹھوکریں کھاتے ہوئے بالآخر اچھے اور بُرے کی تمیز پیدا کرلیتے ہیں ان کی طبقاتی تعلیم و تربیت ہوتی رہتی ہے جمہوریت کو آمریت پر فوقیت دینے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ عوام کو سرمایہ داروں کے داؤ پیچ بھی بتا دیتی ہے لہٰذا منصوبہ سازوں کو اپنی غلطیو ں پر شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے اور عوام کو بھی ان کو شیخ چلی کہہ کر ان کامذاق اڑانا نہیں چاہئے بلکہ ان کی حوصلہ افزائی کرناچاہئے کیا یہ شیخ چلی ان لوگوں سے بہتر نہیں جو اس خوف و خدشہ سے کسی کام کو ہاتھ نہیں لگاتے کہ ان سے غلطیاں ہوں گی۔
جس شخص نے محو پرواز پرندوں کو دیکھ کر پہلی مرتبہ سوچا ہوگا اور اس کا اظہار بھی کیا ہوگا کہ کیا انسان ہوا میں ان کی مانند نہیں اڑ سکتا ہے تو اسے بھی اپنے زمانے میں ہزاروں اور لاکھوں عوام نے شیخ چلی اور احمق ہی سمجھا ہوگا۔

Comments are closed.