ناقص اور گمراہ کن اقتصادی سروے

سید مجاہدعلی

339482_33444466

وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کرنے سے پہلے جو اقتصادی جائزہ رپورٹ پیش کی ہے، وہ ملک کی معیشت کی ایک افسوسناک تصویر دکھاتی ہے لیکن اعداد و شمار کو آگے پیچھے کر کے وزیر خزانہ اس تصویر کو خوشنما بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس کے دوران اقتصادی جائزہ رپورٹ کے اہم حصوں پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے زرعی شعبہ کی پیداوار میں خسارہ کو قومی پیداوار میں اضافہ کا ہدف پورا نہ ہونے کا سبب قرار دیا۔ حکومت نے سال رواں کے دوران زرعی پیداوار میں 3.2 فیصد اضافہ کا ہدف رکھا تھا لیکن خراب فصلوں کی وجہ سے اس پیداوار میں اعشاریہ 19 فیصد کمی نوٹ کی گئی ہے۔

وزیر خزانہ زرعی پیداوار کو ہی برآمدات میں کمی کی سب سے بڑی وجہ قرار دیتے ہیں۔ رواں مالی سال کے پہلے دس ماہ میں برآمدات میں4۔فیصد کمی ہوئی اور ان کا حجم 18.18 ارب ڈالر رہا۔ وزیر خزانہ نے حکومت کی مالی پالیسیوں کی ناکامیوں کا بوجھ فطری حالات پر ڈالتے ہوئے یہ تسلی دینے کی کوشش کی ہے کہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔

درحقیقت حکومت کے پاس ترقی کا دعویٰ کرنے کی کوئی ٹھوس بنیاد موجود نہیں ہے۔ اگرچہ وزیر خزانہ برآمدات میں کمی کو زرعی شعبہ کی ناقص کارکردگی بیان کر کے درست قرار دینے کی کوشش کی لیکن 20 کروڑ آبادی کے ملک کی برآمدات اگر 20 ارب ڈالر سالانہ سے بڑھ نہیں پاتیں تو یہ معاشی خرابی کا واضح اشارہ ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہم ملک میں ایسے شعبوں کو ترقی دینے میں ناکام ہیں جو برآمدی مال تیار کر سکیں۔ اس کے ساتھ ہی عالمی سطح پر ہم نئی منڈیاں تلاش کرنے اور پرانی منڈیوں میں زیادہ مال فراہم کرنے سے بھی قاصر ہیں۔

وزیر خزانہ کا موقف ہے کہ ملک کی صنعتی پیداوار میں توقع سے زیادہ یعنی 6 فیصد سے کچھ زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ لیکن یہ اضافہ ملک میں بڑھتی ہوئی ضرورتیں پوری کرنے میں صرف ہوتا ہے۔ ملک کی معیشت ایسی پیداوار کرنے سے قاصر ہے جو مصنوعات دوسرے ملکوں کو برآمد کر کے زرمبادلہ اور منافع کما سکے۔ برآمدات میں کمی کی دلیل لانے کیلئے اسحاق ڈار نے درآمدات میں کمی کا حوالہ بھی دیا ہے۔ وزیر خزانہ کا یہ موقف بھی صورتحال کی پوری تصویر پیش نہیں کرتا۔

درآمدات میں 4.6 فیصد کمی واقع ہوئی ہے لیکن درآمدات کا حجم موجودہ مالی سال کے دس ماہ کے دوران 32.4 ارب ڈالر رہا۔ یہ حجم ملکی درآمدات اور برآمدات کے درمیان 16 ارب ڈالر کا فرق ظاہر کرتا ہے۔ یہ فرق حکومت کو دوسرے ذرائع سے پورا کرنا پڑتا ہے۔ ان میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے ترسیلات زر سب سے زیادہ اہم ہیں۔ جنہوں نے گزرنے والے مالی سال کے دوران 16 ارب ڈالر سے زیادہ رقوم وطن روانہ کی ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت نے 6 ارب ڈالر کے لگ بھگ آئی ایم ایف سے قرضہ بھی حاصل کیا ہے۔

اس طرح ملک پر بیرونی قرضوں کا بوجھ 70 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے جبکہ ملکی معیشت میں نمو بدستور بدحالی کا شکار ہے۔ حکومت پاکستان مسلسل مردم شماری کروانے میں بھی ناکام ہو رہی ہے جس کی وجہ سے درست مالی منصوبہ بندی کرنا دشوار ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ تھوڑی آبادی والے چھوٹے صوبوں کو مرکز سے شکایات پیدا ہوتی ہیں کہ ان کی آبادی کے حجم کے مطابق ، انہیں وسائل میں حصہ نہیں دیا جاتا۔

گزشتہ برس کے دوران مردم شماری کے حوالے سے چند اجلاس منعقد کرنے کے باوجود سکیورٹی کی صورتحال کو بہانہ بنا کر اس اہم ترین قومی فریضہ کو ادا کرنے سے گریز کیا جا رہا ہے۔ ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ جب تک ملک میں آبادی کا اصل حجم معلوم نہیں ہو گا، اس وقت تک اقتصادی منصوبہ بندی کی کمزوریوں کو دور کرنا ممکن نہیں ہے۔ اس کے برعکس حکومت کا کل زور اس بات پر صرف ہوتا ہے کہ اقتصادی جائزہ اور بجٹ کے ذریعے ملکی معیشت کی خوشنما تصویر دکھا دی جائے اور مسائل کو نظر انداز کر کے لوگوں کو مسلسل دھوکے میں رکھا جائے۔

اس قسم کا ایک دھوکہ اس حقیقت میں چھپا ہے کہ پاکستان کی حکومت اس لئے بجٹ میں بعض مثبت اشارے دکھانے کے قابل ہے کیونکہ عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتوں میں اچانک بہت زیادہ کمی واقع ہوئی ہے۔ گزشتہ سال کے دوران عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتیں 130 ڈالر بیرل سے کم ہو کر 30 ڈالر بیرل تک پہنچ گئی تھیں۔ اب یہ قیمت 40 ڈالر بیرل تک ہے۔ پاکستان تیل کی تمام ضروریات درآمدات سے پوری کرتا ہے اور اس پر کثیر وسائل صرف ہوتے ہیں۔

ادائیگیوں کے توازن کے اطمینان بخش اعداد و شمار ، افراط زر یا حکومتی مصارف میں کمی کا قصیدہ صرف اس لئے سنایا جا رہا ہے کہ صرف اس ایک وجہ سے یعنی تیل کی قیمتوں میں کمی سے حکومت کے درآمدی بل میں قابل ذکر کمی ہوئی ہے۔ اس کے باوجود درآمدات میں صرف ساڑھے چار فیصد کمی کا ذکر کوئی مثبت اشارہ نہیں ہے۔ بلکہ اس سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ تیل کی مد میں بچنے والے وسائل کو پوری طرح محفوظ نہیں کیا جا سکا۔ بلکہ غیر ترقیاتی شبعوں میں درآمدات کا سلسلہ جاری رہا ہے۔

موجودہ حکومت نے برسر اقتدار آنے کے بعد ملک میں ٹیکس کی آمدنی میں اضافہ کرنے اور زیادہ لوگوں کو انکم ٹیکس دینے پر آمادہ کرنے کیلئے اقدام کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم حکومت یہ مقصد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی اور نہ ہی مستقبل کےلئے کوئی ٹھوس منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ یہ بات بھی متفقہ علیہ ہے کہ جب تک ملک میں ٹیکس دینے والوں کی تعداد میں قابل ذکر اضافہ نہیں ہو گا، اس وقت تک معاشی ترقی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ اس وقت پاکستان میں صرف اعشایہ 45 فیصد لوگ ٹیکس ریٹرن جمع کرواتے ہیں۔

اقتصادی سروے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ٹیکس و محاصل کی وصولی مجموعی قومی پیداوار کا 12.5 فیصد ہے جو گزشتہ برس کے مقابلے میں 4 فیصد زیادہ ہے۔ لیکن یہ اعداد و شمار بھی قومی پیداوار میں اضافہ کے اعداد و شمار کی طرح پوری طرح قابل اعتبار نہیں ہیں۔ کیونکہ حکومت بدستور اپنے مصارف پوری کرنے کےلئے قرضوں یا باالواسطہ محاصل پر انحصار کرنے پر مجبور ہے۔

اقتصادی ماہرین کا خیال ہے کہ ملک میں ٹیکس کی مد میں آمدنی کل قومی پیداوار کا کم از کم 20 فیصد ہونی چاہئے۔ یہ ہدف حاصل کرنے کےلئے حکومت کو بہتر انتظامی ڈھانچہ ، قابل عمل مالی پالیسی اور گورننس میں بہتری لانے کی ضرورت ہو گی۔ بصورت دیگر ملک کی حکومت بدستور غریب اور تاجر طبقہ ٹیکس بچاتے ہوئے ناجائز دولت میں اضافہ کرتا رہے گا۔

وزیر خزانہ نے جو اعداد و شمار پیش کئے ہیں وہ بعض صورتوں میں مایوس کن ہیں اور مالی پالیسیوں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں اور بعض صورتوں میں بے بنیاد اور ناقابل یقین ہیں، جسے حکومت کسی بھی طریقے سے ثابت کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہو گی۔ اقتصادی جائزے میں بتایا گیا ہے کہ اوسط فی کس آمدنی 1516 ڈالر سے بڑھ کر 1560 ڈالر ہو گئی ہے۔ یہ اضافہ ملک میں افراط زر کی شرح سے بھی کم ہے۔ ملک میں افراط زر کی اوسط شرح 6 فیصد کے لگ بھگ ہے۔

اس طرح پرانی شرح برقرار رکھنے کے لئے بھی اوسط فی کس آمدنی میں کم از کم 90 ڈالر اضافہ کی ضرورت تھی جبکہ اقتصادی سروے میں ی اضافہ صرف 54 ڈالر فی کس بتایا گیا ہے۔ قابل اعتبار ہونے کی صورت میں بھی یہ اعداد و شمار شرمناک حد تک کم ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جنوبی کوریا میں یہ شرح اوسط 27500 ڈالر فی کس سالانہ ہے۔

سال رواں کے اقتصادی سروے میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ملک میں روزگار کی صورتحال قدرے بہتر ہوئی ہے۔ یہ گزشتہ برس 6 فیصد تھی جبکہ اس سال 5.9 فیصد ہے۔ ان اعداد و شمار سے عام لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جس ملک میں اصل آبادی کا کسی کو اندازہ نہ ہو۔ حکومت مردم شماری کروانے پر تیار نہ ہو اور آبادی کبھی 16 کروڑ کبھی 18 کروڑ اور کبھی 20 کروڑ بتائی جاتی ہو۔ اس ملک میں کوئی بھی اقتصادی ماہر یہ کیسے بتا سکتا ہے کہ بیروزگاری کی شرح میں اعشاریہ ایک فیصد کمی ہوئی ہے۔

اس کے علاوہ ترقی یافتہ یورپی ملکوں میں بیروزگاری کی شرح 6 سے 15 فیصد تک ہے۔ امریکہ میں بھی یہ شرح 6 فیصد کے لگ بھگ ہے۔ پاکستان جیسے بے وسیلہ ملک میں جہاں حکومت بدستور روزگار کے مواقع پیدا کرنے میں ناکام ہے، قومی پیداوار حقیقی کمی کا شکار ہے اور اقتصادی بہتری کی تصویر بنانے کےلئے وزارت خزانہ اور شعبہ اعداد و شمار کو مختلف نوع کے ہتھکنڈے اختیار کرنے پڑتے ہیں، وہاں بے روزگاروں کی شرح کا تخمینہ 5.9 فیصد کیسے لگایا جا سکتا ہے۔ اسی تصویر کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ملک میں بے روزگاروں کی رجسٹریشن کا کوئی باقاعدہ نظام نہیں ہے۔ خواتین کی اکثریت کام نہیں کرتی۔ نوجوان روزگار ملنے تک والدین پر بوجھ بنے رہتے ہیں، تو وزارت خزانہ آخر کس بنیاد پر یہ اعلان کر سکتی ہے۔

اقتصادی سروے میں طویل المدت منصوبہ بندی کی شدید کمی محسوس کی جا سکتی ہے۔ ترسیلات زر اور تیل کی قیمتوں میں کمی سے جو فوری اقتصادی سہولت حاصل ہوئی ہے، حکومت اسے اپنی اقتصادی پالیسیوں کی کامیابی بنا کر پیش کر رہی ہے، جو گمراہ کن بیان ہے۔ وزیر خزانہ کو درحقیقت یہ بتانا چاہئے تھا کہ اگر بدلتے ہوئے سیاسی و معاشی حالات میں مشرق وسطیٰ میں گئے ہوئے پاکستانی کارکن واپس آنے لگے اور مفاہمت کی صورت میں تیل کی منڈیوں میں پیداوار کم اور قیمتیں پھر 100 ڈالر بیرل تک پہنچ گئیں تو پاکستان کی حکومت کن وسائل پر بھروسہ کر کے کاروبار مملکت چلا سکے گی۔

اس مقصد کےلئے ٹیکس دہندگان کی تعداد میں اضافہ ، قومی پیداوار میں 7 سے 8 فیصد نمو اور بیرونی سرمایہ کاری میں قابل قدر حوصلہ افزائی بے حد ضروری ہو گی۔ یہ تینوں مقاصد حاصل کرنے کےلئے موجودہ اقتصادی سروے کوئی تجاویز سامنے نہیں لا سکا۔

karwan.noبشکریہ:۔

Comments are closed.