آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم

سید انورالزمان

AZAD

ہندوستان کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب جب یہاں کی سیاسی ،سماجی اور تہذیبی فضاء پر تاریکی کے بادل چھائے اور یہاں کی عوام کو رہنما کی ضرورت پڑی تب تب اس سر زمین سے ایسی ہستیاں ابھری ہیں جنہوں نے اپنی ذہانت کے باعث ذہنی طور پر پسماندہ لوگوں کی رہنمائی کرکے ان کی بقاء کیلئے اپنا مخصوص ومتعین کردار ادا کیا۔

ہر دور میں یہ عظیم اور قابل تقلید شخصیات عوام الناس کے لیے غیر معمولی اہمیت کی حامل رہی ہیں۔ اس لئے ان کو زندگی میں اور موت کے بعد بھی عوام کے طرف سے انتہائی وقار اور احترام کے ساتھ خراج تحسین پیش کیا جاتا رہا ہے۔ جب ہم بیسویں صدی کی تاریخ پڑھتے ہیں تو ہندوستان کا دامن ایسی بہت سی شخصیات سے منور دکھائی دیتا ہے جن کے افکار وتصورات نے عام انسانوں کے شعور کو جلا بخشنے کاکام کیا ہے۔ ان سیاسی، سماجی رہنماؤں میں ایک اہم نام مولانا ابوالکلام آزاد کا ہے۔

مولانا ابو الکلام آزادہندوستان کے ان رہنماؤں میں سے تھے جن پر ہندوستان ناز کرے گا۔ مولانا آزاد 11نومبر 1888ء میں عرب کے شہر مکہ میں پیدا ہوئے جب وہ دس سال کے تھے ان کے والدین ہندوستان آئے اور کلکتہ میں بس گئے۔ مولانا کو کتابیں پڑھنے کا شوق بچپن سے ہی تھا مگر ان کے والد ان کو نصاب کی کتابوں کے سواء کوئی کتاب پڑھنے نہیں دیتے تھے لیکن وہ چوری سے وہ پڑھ لیا کرتے تھے۔ وہ بچہ کتابوں پر جان چھڑکتا تھا اس کا نام محی الدین احمد تھا جو بڑا ہوکر مولانا ابوالکلام آزاد کے نام سے مشہور ہوا۔

مولانا نے اردو، انگریزی، فارسی اور عربی کی بے شمار کتب کا مطالعہ کیا۔ان کا حافظہ غضب کا تھا جو کتاب ایک بار پڑھ لیتے دماغ میں محفوظ ہوجاتی جو شعرا یک بار سن لیتے عمر بھر کیلئے یاد ہوجاتا۔ انہوں نے کم عمری میں لکھنا شروع کیا تھا۔ اخبار میں ان کے مضامین پڑھ کر لوگ سمجھتے کہ ان کا لکھنے والا کوئی بزرگ عالم ہے انہوں نے کئی کتابیں لکھیں جن میں ترجمان القرآن، تذکرہ اور غبار خاطر بہت مشہور ہیں۔ اس کے علاوہ آزاد نے سینکڑوں انقلابی مضامین الہلال خبار میں لکھے جس کے پڑھنے سے عوام میں آزادی کی تڑپ پیدا ہوئی۔ آزاد بہت اچھے مقرر تھے انہوں نے اپنی جوشیلی تقریروں سے پورے ملک میں آزادی کی لہر دوڑادی۔

وطن کی آزادی کیلئے مولانا ابوالکلام آزاد نے بہت قربانیاں دیں، کئی بار جیل گئے۔ گاندھی جی ان کی ذہانت، قابلیت ، اور تدبر کو مانتے تھے۔ جواہر لال نہروان کو بڑا بھائی کہتے تھے جب ہندوستان آزاد ہوا تو مولانا ابو الکلام آزاد کو ہندوستان کا پہلا وزیر تعلیم بنایا گیا۔ وزیر تعلیم، کا عہدہ سنبھالتے ہی مولانا نے یہ عزم کیا کہ ہندوستان میں تعلم وتعلیم کی ایسی پختہ بنیاد ڈالی جائے جس پر آنے والی نسلیں ایک عالی شان محل تعمیر کرنے کاکام بخوبی انجام دے سکیں۔

مولانا آزاد نے سرسید احمد خان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہندوستانی عوام کے کندذہنوں کو تراش کر ان میں جدوجہد، ترقی کرنے کا جوش پیدا کرنے کا بیڑہ اٹھایا اور اپنی ساری زندگی اپنے خواب کے تکمیل میں صرف کردی۔ انہوں نے اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروے کار لاکر ایسا جہاد شروع کیا جس کا مقصد نسلوں کی تعمیر واصلاح تھا اس مقصد کے تحت انہوں نے قوم کو تعلیم کے حصول کیلئے تیار کیا او رکہا کہ جب تک ہماری قوم تعلیم سے روشناس نہیں ہوگی تب تک زمانے سے قدم ملاکر چلنے کی اہل نہیں ہوگی۔

وہ کہا کرتے تھے کہ تمام پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد میں سمجھتا ہوں ہمارے لئے ہرحال میں ضروری کام عوام کی تعلیم ہے یہی کام سب سے زیادہ اہم ہے اور اسی کام سے ہمیں دور رکھا گیا۔ مولانا آزاد نے اپنی تحریر وتقریرکے ذریعہ عوام میں بحیثیت وزیر تعلیم اس زمانے میں ملکی و ریاستی سطح پر تعلیمی سرگرمیوں کو مربوط کرنے کی کوشش کی۔ مولانا ابو الکلام آزاد نے مرکزی، ریاستی سطح پر ملک میں تعلیم کو عام کرنے کیلئے کئی اہم اقدام اٹھائے۔نئے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسیٹیوں کاقیام عمل میں آیا۔ انہوں نے تعلیم وتحقیق کے جو مراکز قائم کئے ان میں سنگیت اکیڈمی، ساہیتہ اکیڈمی اور للت اکیڈمی قابل تعریف ہیں۔

انہوں نے عصری ضروریات کے پیش نظر موجودہ تعلیمی نصاب میں خاطر خواہ تبدیلیاں بھی لائی۔ مولانا آزاد قومی یک جہتی، مشترکہ تہذیب، مشترکہ قومیت اور ہندو مسلم اتحاد کے حق میں تھے۔ مولانا آزاد نے اسکولوں اور کالج کے طلبہ کیلئے ایسا نصاب مرتب کرایا جو سماجی، تہذیبی ورثے سے مالا مال ہو اور ہندو مسلم، سکھ، عیسائی کے اتحاد کا ضامن بھی ہو جو ہمارے ملکی وقومی سرمایہ کو منتشر ہونے سے بچائے اور مذہبی، طبقاتی تفرقات کی دیواروں کو کم کرنے میں مدد گار ثابت ہو۔

ملک کے ہر نوجوان کو تعلیم یا فتہ بنانے کیلئے ملک بھر میں اسکولوں اورکالجوں کے قیام کا لائحہ عمل تیار کیا۔ بطور چےئرمین آف سنٹرل ایڈوائزری بورڈ آف ایجوکیشن انہوں نے مرکزی وریاستی سطح پر مختلف ادارے تشکیل دیئے جن کا مقصد موجودہ تعلیمی نظام کی حکمت عملی اور کارکردگی کو یقینی بنانا تھا وزیر تعلیم کی حیثیت سے مولانا نے ابتدائی تعلیم کو لازمی بنانے کی پر زور وکالت کی اور6 سے14سال کے ہر بچے کو مفت تعلیم فراہم کرنے کی حکمت عملی تیار کی۔

انہوں نے تعلیم نسواں، پروفیشنل تعلیم اور تعلیم صنعت وحرفت کو بھی اہل وطن کیلئے ضروری قرار دیا۔ ان کی کوششوں سے1948ء میں یونیورسٹی آف ایجوکیشن کا قیام عمل میں آیا جس کا مقصد ملک میں اعلیٰ تعلیم کی سہولیات مہیا کرانا تھا جو اس زمانے میں نہیں تھی۔1956ء میں انہوں نےUGCکو قائم کرکے اعلیٰ تعلیم کو زیادہ وسائل عطا کئے۔ مولانا آزاد پنڈت نہرو کے اس قول سے متفق تھے کہ اگر ہندوستانی یونیورسٹیاں اپنے کام کو بخوبی انجام دیں تو یہ ملک کی ترقی میں ایک اہم قدم ہوگا۔ آزاد نے دیگر علوم فنون کے ساتھ فنی تعلیم کی ضرورت بھی محسوس کی اور اس کیلئے آل انڈیا کونسل فارٹیکنیکل ایجوکیشن کے نام سے ایک مرکزی ادارہ عمل میں لائے او رملک بھر میں ٹیکنیکی تعلیم کے نئے شعبہ قائم کرنے کا کارنامہ انجام دیا۔

انہوں نے1951ء میں کھڑک پور انسٹی ٹیوٹ آف ہائر ٹیکنالوجی کے قیام کو عمل میں لایا جو بعد میں انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کھڑک پور کے نام سے مشہور ہوا۔ بعد ازاں ملک کے دیگرشہروں میں بھی اس طرح کے کالجوں کی شاخیں قائم کی گئیں جو اس دور میں ملک کی تعلیمی ترقی میں کوشاں ہے۔ مولانا آزاد پہلے شخص تھے جنہوں نے ہندوستانی تعلیم بالغانو متعارف کروایا۔ ملک کے ادبی او رتہذیبی ورثے کو محفوظ رکھنے کیلئے انہوں نے شہروں میں ایجوکیشنل لائبریریاں قائم کی جہاں بیٹھ کر لوگ اخبارات پڑھتے اور رسالوں کا مطالعہ کرتے۔

مولانا آزاد ملک کی ترقی میں سائنس کا کردار اہم سمجھتے تھے اور سائنسی علم کے ذریعہ سماج کی ترقی کی راہیں ہموار کرنے پر زور دیتے تھے۔ مولانا آزاد جب1956ء میںیونیسکو کے صدر منتخب ہوئے تو انہوں ہندوستانی تعلیمی نظام کو سنوارنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا اگرچہ اردو، فارسی، اور عربی کے عالم تھے، تاہم انگریزی تعلیم کو بھی یکساں اہمیت دیتے تھے او رملک اور قوم کی ترقی میں انگریزی علوم کے حصول کو لازمی قرارد یتے تھے۔ 

مولانا آزاد15اگست1947ء سے22فروری1958ء تک مرکزی وزیر تعلیم کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دی اس گیارہ سالہ وزارت میں انہوں نے تعلیم کے ارتقاء میں جو بیج بوئے وہ آج درخت کی صورت اختیار کرچکے ہیں ۔انہوں نے تعلیم کے فروغ کیلئے جو خدمات انجام دیں وہ ہندوستان کے تعلیمی ارتقاء کی تاریخ میں ناقابل فراموش ہے آج ہم ان کے یوم پیدائش کو یوم تعلیم کے طور پر مناتے ہیں۔22فروری 1958ء کو یہ مجاہد آزادی، علم وادب کا آفتاب غروب ہوگیا آج وہ ہمارے درمیان نہیں ہیں مگر انکا نام ہندوستان کی تاریخ میں ہمیشہ باقی رہیگا۔

2 Comments