کہیں ہمارا ملک بھی دوسرا پاکستان نہ بن جائے

shabagh

بنگلہ دیش میں لبرل سوچ کے حامل افراد اور مذہبی اقلیتیں تو دن بہ دن بڑھتی مذہبی شدت پسندی کا نشانہ ہیں ہی لیکن اس شدت پسندی کا زیادہ نقصان وہاں کے روشن خیال طبقہ کے ساتھ ساتھ اعتدال پسند مسلمان خاص کر صوفی مکتبہ فکر کے افراد کو بھی اٹھانا پڑ رہا ہے۔

بنگلہ دیش میں طب کے 30 سالہ طالب علم اشرف الاسلام کا کہنا ہے کہ ہر بار جب وہ کسی پر خنجر یا تیز دھار آلے سے حملے کی خبر سنتے ہیں اُن کے والد کے لرزہ خیز قتل کی یاد ان کے ذہن میں تازہ ہو جاتی ہے۔ انہیں خوف ہے کہ اُن کے والد کی طرح صوفی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد بنگلہ دیش میں کبھی محفوظ نہیں رہیں گے۔

اشرف الاسلام کا اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ قتل کے ایسے واقعات میں کمی نہیں آ رہی بلکہ صورت حال دن بہ دن ابتر ہو رہی ہے۔ اور ہر ایسا واقعہ انہیں یاد دلاتا ہے کہ اُن کے والد کے ساتھ کیا ہوا۔ اشرف الاسلام کا کہنا تھا، ’’مجھے نہیں معلوم کہ قتل کرنے والے ایسا کیوں کر رہے ہیں لیکن اگر انہیں اس سے روکا نہ گیا تو ہمارا مستقبل تاریک ہو جائے گا اور ہم دوسرا پاکستان بن جائیں گے‘‘۔

مسلمان مذہبی انتہا پسند گروہوں نے گزشتہ تین برسوں میں تقریبا 40 افراد کے قتل کی ذمہ داری قبول کی ہے جن میں غیر ملکی افراد، سیکولر بلاگرز، ہم جنس پرستوں کے حقوق کے لیے سر گرم کارکن اور مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں۔ ان میں سے بیشتر کو چھُرے یا خنجر سے حملہ کر کے قتل کیا گیا تھا۔

تاہم بنگلہ دیش میں شدت پسندی کی اس لہر میں سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کے صوفی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والوں کو اٹھانا پڑا ہے۔ صوفیا کے پیرو کاروں کو صوفی روایات کے پس منظر میں، جن میں سے ایک مزاروں پر عبادت کرنا بھی ہے، ’ملحد‘ قرار دیا جاتا ہے۔ دسمبر 2014ء سے اب تک 14 افراد کو مذہبی محرکات کے تناظر میں قتل کیا جا چکا ہے جن میں سے ایک اشرف الاسلام کے والد خضر خان بھی تھے۔

جمعے کے روز صوفی مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے ایک لاکھ سے زائد افراد ڈھاکہ میں ایک سالانہ اجتماع میں شرکت کر رہے ہیں۔ یہ سالانہ تقریب اس بار جشن کے ساتھ ساتھ شدت پسندی کے خلاف اعلان بغاوت بھی ہے۔

یہ جلسہ مقامی صوفی رہنما محمد شاہد اللہ کے قتل کے ایک ماہ سے بھی کم وقت میں منعقد ہو رہا ہے۔ شاہد اللہ کی لاش شمال مغربی ضلع راج شاہی میں آم کے ایک درخت کے نیچے ملی تھی۔ شاہد اللہ کی گردن پر ملنے والے گہرے زخموں نے گزشتہ سال اکتوبر میں خضر خان کی موت کی یاد تازہ کر دی جنہیں کالعدم اسلامی عسکریت پسند گروہ جمیعت المجاہدین بنگلہ دیش کے چند مشتبہ ارکان نے ہلاک کر دیا تھا۔

خان کے تقریباً 2000 پیروکار تھے جن میں سے بہت سے ڈھاکہ میں ان کے آبائی گھر میں ہر ہفتے ہونے والی دعائیہ تقریبات میں پہنچے تھے۔ اپنے قتل کی رات انہوں نے اپنے گھر کے نیچے والے خالی فلیٹ کو کرائے پر اٹھانے کی غرض سے کچھ ممکنہ کرائے داروں کو بلا رکھا تھا۔

لیکن جیسے ہی وہ اپنے گھر کی سیڑھیاں اتر کر نیچے گئے، پہلے سے وہاں چھپے کچھ افراد نے انہیں گھیر لیا اور ایک باتھ روم میں لے جا کر قتل کر دیا۔ پولیس نے جلد ہی پانچ مشتبہ افراد کو گرفتار کر لیا۔ ان افراد نے مبینہ طور پر تفتیش کاروں کو بتایا کہ خان کو قتل کرنا ان کا مذہبی فریضہ تھا۔ اس قتل کے لیے ابھی تک کسی کو سزا نہیں دی گئی جبکہ دیگر افراد کے قتل کے حوالے سے بھی چند ہی گرفتاریاں عمل میں لائی گئی ہیں۔

ایسے خدشات بڑے پیمانے پر جنم لے رہے ہیں کہ بے روزگار نوجوانوں کو مدرسوں اور مذہبی اسکولوں میں انتہا پسندی پر مائل کیا جا رہا ہے۔

ایک سو ساٹھ ملین کی آبادی والے بنگلہ دیش میں گزشتہ برسوں کے دوران مذہبی انتہا پسندی میں اضافہ ہوا ہے اور متعدد آزاد خیال بلاگرز، دانشوروں، مذہبی اقلیتوں کے ارکان اور غیر ملکی امدادی کارکنوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔

DW

Comments are closed.