تتلی سا ، مِرا رقص تھا، اور ِبھڑ سا، مِرا ڈَنک

12695990_10206729873699704_2066619818_n

منیر سامی

دنیا کا ا یک عظیم فانی مگر لافانی انسان محمد علی کلےؔ ، گزشتہ دنوں ہمیں داغِ مفارقت دے گیا ۔ یہ وہی تھا جو باکسنگ جیسے پر تشدد کھیل میں رقص کرتے کرتے اپنے مخالفین کو زچ کرتے ہوئے، اپنی نظمیں سناتا تھا اور انہیں اپنے لفظوں اور اپنے ہاتھوں سے زیر کرتا تھا۔ اس کی یہ سطریں اب لازوال ہیں I float like a butterfly, and sting like a bee.۔۔

گزشتہ پچاس سالوں سے ہر رنگ ، نسل، قوم ، اور بالخصوص موجودہ زمانے کے نوجوانوں میں جنہوں نے کبھی اسے براہِ راست باکسنگ کرتے نہیں دیکھا تھا ، محمد علی کلے ؔکیوں اتنا مقبول تھا کہ اب اس کی موت پر ہر آنکھ اشکبار اور ہر شخص سوگوار ہے۔

اس کا راز محمد علی کی ساری زندگی کی کہانی میں مضمر ہے جو ہر دور کے مظلوم انسانوں کی جبر کے خلاف آواز اٹھانے کی کہانی ہے۔ کہانی یوں شروع ہوتی ہے کہ وہ اس زمانے کے امریکہ میں پیدا ہوا تھا، جس میں سفید فام لوگ سیاہ فاموں کو پانی تک پلانے سے انکار کرتے تھے۔ جس میں سیاہ فام اور سفید فام ایک ساتھ بس میں نہیں بیٹھ سکتے تھے، اور انہیں سفید فاموں کے ریستورانوں میں اور دکانوں میں داخلے کی اجازت نہیں تھی۔ ان سطروں تک پہنچتے پہنچتے یہ وضاحت ضروری ہے کہ یہ ذکر دنیا کے مہذب ملکوں کی صفِ اول میں شامل ملک امریکہ کا ہے ، جنوبی افریقہ کا نہیں۔

محمد علی جو بچپن میں ایک دبلا پتلا سا عام نوجوان تھا باکسنگ کی طرف خلافِ توقع گیا تھا۔ کہانی یو ں ہے کہ بارہ یا تیرہ سال کی عمر میں کچھ غنڈوں نے اس کی سائیکل چرالی۔ وہ اس کی شکایت کرنے ایک پولیس والے کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ وہ اپنی سائیکل واپس لینے کے لئے غنڈوں کی ٹھکائی کرے گا۔ اس پولیس والے نے اس کا جثہ دیکھ کر اسے کہا کہ تمہیں ان غنڈوں سے لڑنے کے لیئے باکسنگ سیکھنا پڑے گی۔ اور اس کے بعد وہی پولیس والا محمد علی کو باکسنگ سکھانے لگا اور سالہا سال اس کاہمدرد اور ساتھی رہا۔

مسلسل محنت کے نتیجہ میں محمد علی نے جو اس وقت کیسیس کلےؔ کے نام سے جانا جاتا، سنہ 1960میں اٹھارہ سال کی عمر میں اولمپک مقابلوں میں فتح حاصل کی۔ اس کے بعد محمد علیؔ پیشہ ورانہ باکسر بن گیا ، اور 1964 ِمیں اس نے نامور باکسر سونی لسٹنؔ کو اپنی برق رفتاری اور بایئں ہاتھ کے مکوں سے چھٹے رائونڈ میں ٹیکنیکل ناک آوٹ کردیا۔یہ ایک حیران کُن اور خلافِ توقع کامیابی تھی، کیونکہ باکسنگ کے شائقین کو لسٹنؔ کی فتح کا یقین تھا۔ اُس کے بعد اس نے 1965میں ایک بار پھر لسٹن کو دوسر ے ہی راونڈ میں ناک آوٹ کر دیا۔ صرف یہی دو فتوحات محمد علی کا نام باکسنگ کی دنیا میں ہمیشہ قائم رکھتیں، لیکن اس کی انسانی عظمت کی کہانی ابھی لکھی جانی تھی۔ محمد علی نے لسٹن سے دو مقابلو ں کے دوران سیاہ فام مسلمانوں کا Nation of Islamکا اسلامی مسلک اختیار کر لیا تھا، جسے اس نے بعد میں ترک کیا اور اسلام کے مرکزی دھارے میں داخل ہو گیا۔

یہاں یہ یاد دلانا بھی ضروری ہے کہ محمد علی اپنی جس باکسنگ فتح سے بحیثیت باکسر عظیم جانا گیا، وہ اس کی لسٹن پر فتح نہیں تھی، بلکہ وہ اس کی 1966 میں ہیوسٹن میں ہونے والے عالمی مقابلہ میں کلیولینڈ ولیم پر با مہارت فتح تھی۔ کھیلوں کے ماہر اور مشہور زمانہ صحافیHoward Cosell نے لکھا کہ یہ محمد علی کی سب بہترین فتح تھی۔

محمد علی کی انسانی عظمت کی کہانی اس وقت شروع ہوئی جب اس نے ویت نام کی جنگ میں بھرتی ہونے سے انکار کر دیا۔ ایسا اس نے باضمیر احتجاج کی بنیاد پر کیا تھا۔ محمد علی کا یہ انکار اس وقت کے امریکی اہلِ اقتدار اور قوم پرست امریکیوں کے منہ پر ایک کڑا طمانچہ تھا ، جس کی گونج ساری دنیا میں سنی گئی۔ اس وقت کے امریکی صدر جانسن اور سارا امریکی اسٹیبلشمنٹ اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا۔ انہیں خوف بھی تھا کہ ایک سیاہ فام نوجوان کا فوج میں بھرتی ہونے سے انکار نہ صرف سیاہ فام نوجوانوں میں بلکہ باضمیر طالب علموں اور نوجوانوں میں بغاوت کی لہر پیدا کردے گا۔ ن

تیجتاً ساری دنیا کے باکسنگ اداروں نے اس کے اعزا زواپس لے لیے ، اور اسے فوج میں بھرتی ہونے سے انکار پر دس ہزار ڈالر جرمانے اور کم از کم پانچ سال جیل کی سزا کا سامنا تھا۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ محمد علی کے انکار کے بعد امریکی فوج کے قواعد تبدیل کیے گئے تاکہ محمد علی کو کسی نہ کسی بہانے فوج میں بھرتی کیا جائے۔ اس کے انکار کے بعد امریکہ کے صحافی حلقے بھی محمد علی کے خلاف ہوگئے اور اس کے خلاف سخت مضامین لکھے گئے اور ادارتی تحریکیں چلائی گئیں۔

بھرتی سے انکار کے وقت علی کے بیانات تاریخ میں امر ہو چکے ہیں۔ اور یہ الفاظ آج بھی امریکی اور دیگر جنگ پرستوں کو شرماتے ہیں۔ اس نے کہا تھا، ’’ وہ مجھے وردی پہن کر یہاں سے دس ہزار میل دور جاکر پیلی رنگت والے ویتنامیوں پر بم گرانے اور ان پر گولیا ں برسانے پر کیوں مجبور کرتے ہیں۔ جب کہ میر ے شہر Louisville میں ان لوگوں کے ساتھ جنہیں ’ نیگرو‘ کہا جاتا ہے کتوں کا سا برتاو کیا جاتا ہے، اور جنہیں ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے۔۔۔ لوگو! میری ویت کانگ لوگوں سے کوئی لڑائی نہیں ہے۔ کسی ویت کانگ نے مجھے کبھی ‘نیگرو‘ نہیں کہا ہے۔۔میں یہاں سے دس ہزار میل دور جا کر غریب لوگوں کو مارنے اور جلانے میں مدد کرنا نہیں چاہتا، کیونکہ اس مارنے اور جلانے سے سفید فام لوگ غیر سفید فاموں پر اپنا جبر قائم رکھنا چاہتے ہیں۔۔۔میں پھر دہراوں گا کہ اصل دشمن یہاں ہے۔۔۔میں ان لوگوں کا آلہ کار بن کر جو آزادی کے لیے لڑنے والے لوگوں کو اپنا غلام بنانا چاہتے ہیں، اپنے مذہب اور اپنے لوگوںکی توہین نہیں کروں گا۔۔۔اگر میں سمجھتا کہ اس جنگ کے نتیجے میں میر ے بایئس ملین لوگوں کو آزادی مل جائے گی تو میں کل ہی بھرتی ہو جاتا۔۔سو میں ا پنے عقائد کی پاداش میں جیل چلاجاوں گا تو کیا ہوا۔۔ میر ے لوگ تو چار سو سال سے جیل میں ہیں۔۔‘‘

ali6

اپنے عقائد کے نتیجہ میں محمدعلی کو سزا ہوئی لیکن اس نے سپریم کورٹ میں اپیل کی اور سخت رد وقدح کے بعد امریکی سپریم کورٹ نے متفقہ فیصلے سے اس کی سزا منسوخ کی۔ اس کے بعد محمدعلی نے کئی بار عالمی چمپیئن شپ جیتی۔ لیکن امریکی اقتدار اور طاقت کے خلاف تنہا کھڑے ہو کرہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس نے دنیا کادل جیتا تھا جو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔

دنیا میں انسانی حقوق اور آزادی کے عظیم رہنما مارٹن لوتھر کنگ اور نیلسن منڈیلا بھی حقوق کی جدو جہد میں محمد علی کی مثال دیتے تھے۔ جب1967 ِمیں مارٹن لوتھر کنگ نے ویتنام کی جنگ کی مخالفت کی توان کے ساتھیوں نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ اس معاملہ میں نہ پڑیں۔ لیکن انہوں نے کہا، ’’جیسا کہ محمد علی نے کہا ہے کہ ہم سب سیا ہ فام، غیر سفید فام ، اور غریب لوگ، ایک ہی نظام ِ جبر کا نشانہ ہیں‘۔۔جب نیلسن منڈیلا جیل میں قید تھے تو کہتے تھے کہ،’’ محمد علی کو دیکھ کر انہیں امید رہتی ہے کہ ایک دن زندان کی سب دیواریں گر جایئں گی ‘‘۔

محمد علی جب اپنی پارکنسن بیماری کے باوجود لرزتے ہاتھوں سے اٹلانٹا اسٹیڈیم میں اولمپک مشعل روشن کرنے آئے تھے اور پورے عزم سے مشعل جلائی تھی ، تو ساری دنیا اشکبار تھی۔ تقریب کے بعد امریکی صدر کلنٹنؔ نے علی کو بتایا کہ’ انہیں نہیں معلوم تھا کہ مشعل کو ن جلائے گا۔ لیکن جب میں نے تمہیں دیکھا تو میں بے اختیار رو پڑا تھا۔‘

تتلی کی طرح رقص کرنے والے انسان محمد علی ؔنے اپنے ضمیر پر قائم رہ کر اپنے عمل سے انسانیت کی جو مثال پیش کی ہے ، ،اور انسانی آزادی کی جو مشعل جلائی ہے، وہ ہر انسان کو تقلید پر اکساتی ہے۔ شاعر نے شاید محمد علی ہی کے لیئے کہا تھا:

بارے دنیا میں رہو، غمزدہ ، یا شاد رہو

ایسا کچھ کر کے چلو یاں، کہ بہت یاد رہو

One Comment