داعش خاتمہ کی سمت رواں دواں

ظفر آغا

bakar

دو برس قبل اسی ماہ یعنی جون 2014 میں نہ صرف عالم اسلام بلکہ عالمی سیاست میں ایک ایسا موڑ آیا تھا کہ جس نے دنیا کو دہلا دیا تھا۔ بلکہ اسی سیاسی زلزلے کے اثرات ساری دنیا پر آج بھی نظر آرہے ہیں۔ آخر وہ کونسا موڑ تھا کہ جس نے ساری دنیا کو دہلا کر رکھ دیا؟۔ وہ ایک سیاسی زلزلہ تھا جس کی شروعات عراق کے شوہر موصل میں اسوقت ہوئی تھی کہ جب عراق کے صحراؤں کی دھوپ کی شدت اپنے عروج پر تھی۔

جون 2014 کی سخت گرمیوں کے درمیان ایک غیر معروف شخص نے موصل شہر کی ایک مسجد میں بروز جمعہ نماز سے قبل اپنے خطبہ میں یہ اعلان کیا کہ آج سے میں خلیفۃ الاسلام ہوں اور میری مملکت ایک اسلامی خلافت ہے۔ وہ شخص جس نے خود کو خلیفہ قرار دیا اس کا نام تھا ابوبکر البغدادی، نہ صرف یہ کہ اس نے ترکی خلافت کے تقریباً سو برس بعد ایک بار پھر ایک اسلامی خلافت کے قیام کا اعلان کیا بلکہ ساتھ ہی اس نے ساری دنیا کے مسلمانوں کو جہاد کی دعوت دیتے ہوئے اپنی اسلامی ریاست میں جہاد کے لئے شرکت کی دعوت بھی دے دی.

اور ساری دنیا بالخصوص یوروپ سے ہزاروں مسلم نوجوانوں نے ابوبکر البغدادی کی دعوت جہاد پر لبیک کہا اور اس کی خلافت’ داعش‘ پہنچ گئی۔ بس کیا تھا سال بھر کے اندر جہادتو کیا ساری دنیا میں دہشت کا قہر ٹوٹ پڑا ۔ کبھی پیرس تو کبھی برسلز تو کبھی خود عرب ممالک میں ایسی دہشت کا بازار گرم ہوا جس کی مثال دور جدید میں ملنا مشکل ہے۔

الغرض ! جون 2014 سے جون 2016 تک جہادی سیاست کے نئے رہبر ابوبکر البغدادی نے اسامہ بن لادن کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ عراق اور شام کی سرحد یں ختم کرکے اس نے ایک خود ساختہ مسلم ریاست قائم کرلی جہاں لوگوں کو ذبح کیا گیا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ساری دنیا میں اسلام شرمندہ ہوا اور مسلمان دہشت گرد بن گیا۔ لیکن اللہ کے گھر دیر ہے اندھیر نہیں، اور وہ بھی جبکہ اللہ کے نام اور اس کے بتائے ہوئے راستہ اسلام کی آڑ میں دہشت کا وحشیانہ ناچ کیا جائے کبھی نہ کبھی انصاف تو ہونا ہی تھا سو وہ ہوا۔

چنانچہ وہ داعش اور اس کے خلیفہ ابوبکر البغدادی جن کے نام سے مغرب کے اعلیٰ حکام کانپتے تھے اب وہی ابوبکر بغدادی کی زندگی خطرہ میں ہے۔ آخر دنیا نے یہ طئے کرلیا کہ پہلے البغدادی کی خلافت کو ٹھکانے لگایا جائے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ البغدادی کے ہاتھوں سے چند مہینوں کے اندر ملک شام کا شہر المرقہ نکل گیا اور پھر عراق میں رمادی بھی گیا اور اب اس کے داعشی عراق میں بغداد سے پچاس کلو میٹر دور فلوجہ میں عراقی فوج کے نرغے میں ہیں۔ جلدہی فلوجہ بھی البغدادی کے ہاتھوں سے جاتا رہے گا۔ پھر وہ دن بھی دور نہیں کہ جب موصل بھی داعش کھوبیٹھیں گے۔

جہادی سیاست جس نے دنیا کو دہلا دیا اب اس کے دن پورے ہوتے نظر آرہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ پچھلے چند برسوں میں جہادی سیاست کے قائد ایک ایک کرکے صفحہ ہستی سے ناپید ہوتے چلے گئے۔ سب سے پہلے جدید جہادی سیاست کے بانی اوسامہ بن لادن پاکستان میں مارے گئے۔ پھر یہ خبر بھی آئی کہ طالبان کے بانی ملا عمر موت کی آغوش میں چلے گئے۔ ابھی حال ہی میں طالبان کے نئے قائد ملامنصور اختر کو امریکیوں نے مار گرایا۔ اب ابوبکر البغدادی کی باری ہے۔ آخر کیا سبب ہے کہ وہ جہاد جو دنیا کو دہلادیا تھا اب کیسے کمزور پڑ رہاہے۔

دراصل یہ جہاد نہیں بلکہ عالمی نظام کے خلاف ایک جاہلانہ بغاوت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دورِ جدید بالخصوص پہلی جنگ عظیم سے اب تک کا دور دنیا بھر کے مسلمانوں کے خلاف بہت بُرا گذرا۔ مغربی دنیا نے عالم عرب کو کم و بیش اپنا غلام بناکر رکھا۔ پھر ان اسلامی ممالک میں عموماً جو امریکہ نواز حاکم تھے وہ جابر و آمر ثابت ہوئے۔ پورے عالم عرب میں کوئی آواز نہیں اُٹھاسکتا ہے۔ اس اکیسویں صدی میں مسلمان جمہوریت کے بغیر ایسی گھٹن میں جی رہا ہے جس کی نظیر نہیں ملتی، بس اس کے پاس مسجد اور اسلام ہے۔

اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس نے سیاست کے نام پر مسجد کے منبر اور وہاں سے چلنے والے اسلام کو اپنا سیاسی ہتھیار بنالیا۔ لیکن جہادیوں نے جس کو اسلام کہا وہ اسلام نہیں بلکہ قبائلی بدو عرب کی وہ بدترین روایات تھیں جن کے خلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کا پرچم بلند فرمایا تھا۔ یہ قبائلی عرب کی روایت تھی کہ خون کے بدلے خون۔ چنانچہ ان کے جہادیوں نے بھی یہ اعلان کیا کہ اگر تم فلسطینیوں کو فلسطین میں ماروگے تو ہم پیرس میں گوروں کو ماریں گے۔ لیکن آج کے جہادی یہ بھول گئے کہ قرآن یہ کہہ چکا ہے کہ ایک معصوم کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے، جہادی تو قبائیلی روایت کے تحت خون کا بدلہ خون لے رہا ہے، یہ اسلام نہیں ہے اوریہ جہاد نہیں بلکہ یہ تو قبائلی جہالت ہے۔

ذرا تصور کیجئے کہ کیا قبائلی جہالت ہمیشہ کامیاب ہوسکتی ہے، ہرگز نہیں۔ چنانچہ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اس قبائلی سیاست کے علمبردار خواہ اسامہ ہوں یا ابوبکر البغدادی ہوں ان کا حشر آخر وہی ہوتا ہے جس کی شروعات انہوں نے خود کی تھی۔ یعنی پہلے انہوں نے دہشت اور خون کا بازار گرم کیا اور اب ان کے خلاف دہشت اور خون کا بازار گرم ہورہا ہے۔ اس لئے آج نہیں تو کل بس جلد ہی ابوبکر البغدادی بھی مارے جائیں گے۔

سچ تو یہ ہے کہ جہادی سیاست اب دَم توڑ رہی ہے حالانکہ ختم ہونے سے قبل جہادی ابھی دہشت کے کچھ بازار گرم کریں گے۔ لیکن اب اس جہادی سیاست کے دن پورے ہوا چاہتے ہیں اور اس کا یہی حشر ہونا تھا۔

کچھ سرپھرے جہادیوں نے خون کا بدلہ خون کی جس قبائلی سیاست کی شروعات کی تھی اُس کا خاتمہ تو ہونا ہی تھا۔ اسی لئے جلد ہی شہر فلوجہ جہادیوں کے ہاتھوں سے جائے گا اور پھر موصل بھی نکل جائے گا اور پھر جتنی جلدی یہ خبر آئے کہ ابوبکر البغدادی کی خلافت ختم ہوگئی ۔

Daily Siasat, Hyderabad, India

Comments are closed.