مردکی دستارسےعورت کی شلوارتک

12491863_939910766100245_4230327276596795234_oعظمیٰ اوشو

اسلامی جمہوریہ پاکستان کی قومی اسمبلی او ر ایک ٹاک شو میں دو مرد عورت کے بارے میں کیا خیالات رکھتے ہیں۔ یہ آج کل کا موضوع گفتگو ہے ۔ نیشنل اسمبلی میں وفاقی وزیر خواجہ آصف ،شریں مزاری کو ٹریکٹر ٹرالی کہہ کر چپ کرنے کا کہتے ہیں تو دوسری طرف حمدا للہ ایک ٹی وی شو میں ماروی سرمد کی شلوار اتار نے جیسے ارادوں کا اظہار کرتے ہیں۔ اب اگر حمدللہ کو یہ کہا جائے کہ یہ ایک دستا ر پہنے مُلاہے جو اپنی عورتوں کو پردے میں چھپا کر رکھتا ہے مگر دوسری عورت کی شلوار اتارنے کی خواہش ہر وقت اْس کے دل میں منڈلارہی ہوتی ہے ۔

اس پر ہمارے اکثر غیرت مند مرد یہ کہتے سنے گئے ہیں کہ ماروی ہے ہی بدتمیز اور لڑکا عورت۔ واہ کیا دلیل ہے کیا ایک ایسی عورت جو مرد کو دیکھ کر سمٹتی نہ ہو، جو اختلاف رائے رکھتی ہے، وہ ساڑھی پہنتی ہے یا بندیا لگاتی ہے اْس کی شلوار اتارناجائز ہے۔ کیا جس مذہب اور اخلاقیات کا پرچاریہ مرد کرتے ہیں۔اْس نے اس کی اجازت دی ہے ۔ دوسری طرف سوٹ پہنے ڈگری ہولڈر خواجہ آصف بھی مردانگی کے اسی کمپلیکس کے مارے ہوئے ہیں۔

فرماتے ہیں شیریں مزاری میں نسوانیت نہیں ہے اس لیے ا نھیں ٹریکٹر ٹرالی کہاجا سکتا ہے کیونکہ نسوانیت کا تقاضہ تو یہ ہے کہ مردوں سے اختلاف رائے نہ رکھا جائے پارلیمنٹ سے لے کر گھر تک زبان بند رکھی جائے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عورت کی تذلیل صرف مولوی یا اسلامی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ہی نہیں کرتے اور نہ ہی اس کا تعلق کسی مذہب یا نظریے سے ہے یہ خالص فیوڈل مردانہ سوچ ہے جو مولوی سے وزیر تک پختہ ہے۔

آپ اس سوچ کو آپ کسی بھی مذہب و نسل یا نظریے کے لباس میں چھپاسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خواجہ آصف کو شیریں مزاری کو ٹریکٹر ٹرالی کہنے پر پچھتاوا ہے اور نہ ہی حافظ حمدللہ ۔دونوں مرد حضرات اپنی مردانہ ڈھٹائی پر قائم دائم ہیں۔حمدللہ نے جس انتہاپسندانہ جاہلیت اور الفاظ کا چناؤ میں جس شرمناک ڈھٹائی کا مظاہرہ کیا وہ دو افراد کے اختلاف رائے یا لڑائی کا مسئلہ ہی نہیں ہے بلکہ اس رویہ کا معاشرے میں عورت کے رتبہ اور مقام کے تعین سے تعلق ہے ۔

اس بحث میں جو عناصر مذہبی روایت کا حوالہ دیتے ہیں وہ دراصل یہ اصول طے کروانا چاہتے ہیں کہ عورت اپنی ذات میں کوئی حییثت نہیں رکھتی اور عورت کو اگر عزت ملنی ہے تو وہ مرد کی اجازت اور مرضی سے عطا ہوگی ۔ بصورت د یگر اسے اس کا حق نہیں ہے مگر آج کی صدی کی عورت اس عنایت کو قبول کرنے سے انکاری ہے اور اگر عورت ماروی سرمد جیسی ہو تو اْس نے معاشرے سے اپنا جائز مقام مانگنا سیکھ لیا ہے اور جب وہ اس مقام کی بات کرتی ہے تو اْس طوائف جیسے القابات سے نوازا جانا کوئی انوکھی بات نہیں ۔

حالیہ ٹاک شو سے یہ بات پوری طرح واضح ہوگئی ہے کہ عورت کو معاشرے میں اس کے مقام کے حوالے سے گنجائش دینے کی بجائے اسے مرد کی میراث سمجھاجاتا ہے اور اس میں دین کے ٹھیکیدار زیادہ پیش پیشہیں۔ وہ اپنی مردانگی کی حیوانیت کو مذہب کا نام دیتے ہیں۔معاشرے میں جو عورت بھی ان کی تعین کی ہوئی حدود کو ماننے سے انکار کرتی ہے وہ طوائف ، بازاری کہلواتی ہے کیونکہ ہمارے معاشرے کا المیہ ہے کہ پیشہ کے حوالے سے سوائے ٹیچر اور ڈاکٹر عورت کسی بھی دوسرے شعبہ سے تعلق رکھتی ہو تو فاحشہ ہوتی ہے، ا سے کریکٹر سر ٹیفکیٹ نہیں مل سکتا۔

اور عورت کا تعلق ماروی سرمد کے قبیلے سے ہو جو عورت پر تشدد کے خلاف ہے جو پسند کی شادی کرنے والیوں کو مارنے کے خلاف آواز اٹھاتا ہو وہ کسی بھی صورت رحم کے قابل نہیں ہیں۔ پھر ایسی عورتوں کے لباس ، اٹھنے بیٹھنے ، بول چال سب پر تنقید کرتے ہوئے مرد اور کچھ عورتیں بھی اپنی ذہنی پسماندگی کا ثبوت پیش کرتی ہیں۔غور کیا جائے تو معاشرے میں جنسی زیادتی یا سماجی ظلم ، استبداد کا شکار بننے والی عورتوں کو اس لیے اس انصاف نہیں مل پاتا کہ کسی نہ کسی با اختیار حیثیت میں موجود کوئی مرد سمجھ رہا ہوتا ہے کہ خاص و قوعہ میں عورت نے بغاوت کی تھی یا لباس ایسا پہنا تھا تو اسے ریپ کرنا میرا فرض تھا ا۔

اسی طرح بہن یا بیٹی کو خاندان کی عزت کے نام پر قتل کرنا بھی جائز سمجھا جاتا ہے ایسے قتل پر یہ کہا جاتا ہے لڑکی اگر یہ باغیانہ اقدام نہ اٹھاتی تو اسے قتل نہ کیا جاتا، تا ہم مہذب معاشرے میں اختلاف رائے اور تصادم کی کیفیت سے دلیل سے نمٹاجاتا ہے مگر حمدللہ اور خواجہ آصف کے قبیلے کے لوگ دلیل سے اختلاف رائے سے نبرد آزما ہونے کو تیار ہی نہیں ۔ان کا وطیرہ ہے ہماری بات مان لی جائے و گر نہ ہم تمھاری شلوار اتاریں گے تمھیں طوائف اور ٹریکٹر ٹرالی کہیں گے اور اس کام پر ہمیں شاباش دینے کے لیے ہمارے بہت سے پیٹی بھائی موجود ہیں۔

جو دومردوں کی لڑائی میں ماں بہن کی گالی دینا فرض سمجھتے ہیں جن کے سامنے عورت ان کی مرضی کے خلاف جائے تو وہ بدکردار کہلاتی ہے ۔جو عورت کو اپنی سوچ کے سانچے میں ڈھال کردیکھنے کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ ان سے اپنا نقطہ نظر رکھنے والی عورت برداشت نہیں ہوتی وہ جانتے ہیں کبھی ان کی راہ میں کبھی مذہب کو لائیں گے،کبھی رسم ورواج کو تو کبھی کردار کو۔ یہ وہ مرد ہیں جو لونڈی رکھنے کے حمایتی ہیں جو رکھیل رکھ کر فخر محسوس کرتے ہیں جو حوروں کے خواب دیکھ دیکھ کے جیے جا رہے ہیں ،جن کی نظر میں عورت محض جنسی تسکین کے علاوہ کچھ نہیں ۔

مگر وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ انہوں نے اپنا چلن نہ بدلا تو ماروی اور شیریں جیسی عورتیں اْن کی بیمار مردانہ سوچ کو للکارتی رہیں گی ۔گوایسی عورتیں تعداد میں بہت کم ہیں مگر اس حبس زدہ معاشرے میں ہوا کا جھونکا ہیں ۔۔۔۔سلام ماروی۔

One Comment