فوجی عدالتیں منصفانہ طور پر مقدمات چلانے کی خلاف ورزی کرتی ہیں

Image

انٹرنیشنل کمیشن آف جیورسٹس نے پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سول شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے بند کرے۔

خیال رہے کہ پاکستان میں جنوری سنہ 2015 سے 11 خصوصی فوجی عدالتیں کام کر رہی ہیں جن میں دہشت گردی سے متعلق مقدمات کی سماعت ہوتی ہے۔

اب تک کی تفصیلات کے مطابق ان 11 فوجی عدالتوں نے اب تک 105 افراد کے مقدمات نمٹائے ہیں جن میں 81 افراد سزاوار قرار پائے۔ ان میں سے77 کو موت کی اور چار کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

آئی سے جی کے ایشیا میں ڈائریکٹر سیم ظریفی نے کہا ہے کہ ’ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ پاکستانی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ کو دہشتگردوں سے بچائے تاہم فوجی عدالتیں اس حقیقی خطرے کا پراثر اور مناسب ردعمل نہیں ہیں۔‘

آئی سی جی کا موقف ہے کہ فوجی عدالتیں قومی اور بین الاقوامی سطح پر منصفانہ طور پر مقدمات چلانے کی خلاف ورزی کرتی ہیں۔اس لیے یہ نہ تو انصاف فراہم کرنے میں موثر ہیں اور نہ ہی دہشت گردی کا شکار ہونے والوں کے لیے مناسب دوا۔

انھوں نے کہا 17 ایسے افراد کو پھانسی دی گئی جن کے اہلِ خانہ کا موقف ہے کہ انھیں سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کا حق نہیں دیا گیا تھا۔اور عدالت جلد ہی اس پر اپنا فیصلہ دینے والی ہے۔

ادارے کا کہنا ہے کہ سزا پانے والوں کو نہ تو مقدمات کے فیصلوں کی کاپیاں دی گئیں اور نہ ہی انھیں وکیل کی خدمات حاصل تھیں۔

آئی سی جی نے دعویٰ ہے کہ فوجی عدالتوں میں کم ازکم دو مقدمات میں سزا پانے والے اپنی گرفتاری کے وقت 18 سال سے کم عمر بچے تھے۔

ادارے کی جانب سے ان میڈیا رپورٹس کا حوالہ بھی دیاگیا ہے جن میں ایک نامعلوم جج کے خطوط کا ذکر کیاگیا ہے جن کا تعلق فوجی عدالتوں سے تھا اور انھوں نے ملزمان کے خلاف شہادتوں کی صداقت پر اعتراض کیا ہے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ آئی سی جی ابھی ان خطوط کے مستند ہونے یا نہ ہونے کی تصدیق کروانے کی پوزیشن میں نہیں ہے تاہم مسلسل بنیادوں پر فوجی عدالتوں سے سزا پانے والوں کے خاندانوں اور آئی سے جی کے تحفظات کو نوٹ کیا گیا ہے۔

آئی سی جی کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ اب جبکہ فوجی عدالتوں کے قیام کے لیے کی جانے والی عارضی آئینی ترمیم کی مدت ختم ہونے میں صرف چھ ماہ رہ گئے ہیں، پاکستان کرمنل جسٹس سسٹم کے مسائل ٹھیک کرنے میں ناکام رہا ہے۔

BBC

Comments are closed.