مُلا، ہماری خواتین اور ہمارا معاشرہ

anbارشد نذیر

اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کا بہت مذاق اُڑایا جاچکا۔ ان کی سفارشات کے سامنے آنے کے بعد یہ بات ثابت ہوگئی کہ ہمارے مُلا جدید علوم اور عصری تقاضوں سے بالکل ناآشنا ہیں۔ یہ بھی ثابت ہوگیا کہ وہ اپنے ہی اس دعوے کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے اور تمام زمانوں کے عصری تقاضوں پر پورا اترتا ہے کی وکالت کرنے میں خود ناکام ہوگئے۔ اپنی حماقتوں پروہ حصہ بقدرِ جثہ تضحیک کا نشانہ بھی بن چکے اور اس دفعہ انہیں یہ نشانہ بننا بھی چاہئے تھا۔

جدید دور تقاضا کر رہا ہے کہ مذہب اور ریاست کو بالکل الگ الگ ہونا چاہئے۔ مُلاکا انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں کوئی کردار نہیں بنتا۔ لہٰذا اس کو سر پر سوارکرنے سے گریز کرنا چاہئے۔ کم ازکم میری سوچ کے مطابق یہ باتیں طے ہیں کیونکہ ریاست کو مزید خلفشار سے محفوظ کرنے کا یہی ایک واحد راستہ ہے۔ 

اب ذرا عورتوں کے تشدد کے حوالے سے حقیقی صورتحال کا جائزہ بھی لے لیتے ہیں۔غیرت کے نام پر قتل، تیزاب پھینکنا، بے جوڑ شادیاں کرنا، ونی کر دینا، وٹہ سٹہ کی شادی، کم عمری کی شادی، ریپ، انتقام لینے کے لئے اجتماعی زیادتی، ملازمت کی جگہوں پر جنسی طورپر ہراساں کرنا، بازاروں، شاہراہوں میں چھیڑ چھاڑ کرنا سب ہی طرح کے تشدد موجود ہیں۔

اس کے علاوہ گھریلو تشدد میں بیوی کو مارنا، ذہنی اور جسمانی طور پر اس کو دباؤ کا شکار رکھنا، اس کی آزادانہ نقل و حمل پر پابندیاں لگانا۔ فیصلہ سازی میں اُس کو کوئی حصہ نہ دینا، وراثت میں اُس کو حصہ نہ دینا، جنسی، نفسیاتی اور بچوں کی پیدائش کے حوالے سے اُس کی رائے کو کوئی اہمیت نہ دینا، وغیرہ جیسے ظلم سب شامل ہیں۔ ان تمام زیادتیوں کے خلاف آوازبھی اُٹھائی جاتی رہی اوران کے تدارک کے لئےقانون سازی بھی کی گئی۔ لیکن یہ ظلم ختم نہیں ہو رہے۔

شہری اور دیہاتی کلچر میں اسی زیادتیوں اور مظالم کی شرح مختلف ہے۔ دیہی سے شہری کلچرکی منتقلی کا تناسب بھی ہمارے ملک میں بہت غیرسائنسی اور غیر منصفانہ ہے جس کی وجہ سے رویوں میں معتدل اور مناسب تبدیلیاں پیدا ہونے کی بجائے تشدد جنم لیتا ہے۔ دیہی سے شہری زندگی کی طرف کا یہ انتقال محض معاشی دباؤ پیدا کرتا ہے۔ یہ معاشی دباؤ تشدد کو جنم دے رہا ہے۔ تشدد کچھ نئی شکلیں اختیار کر رہا ہے اور کچھ اپنی پرانی شکلوں کے ساتھ شہروں میں بھی ابھرتا ہے۔

پہلےخیال کیا جاتا تھا کہ اس قسم کی زیادتیاں صرف جنوبی پنجاب اور سندھ کے اندرونی علاقوں میں زیادہ ہیں لیکن گزشتہ کچھ عرصہ سے اس قسم کے تشدد اور زیادتیوں کے کیسز کی رپورٹیں سنٹرل پنجاب اور دیگر ترقی یافتہ شہروں حتیٰ کہ کراچی، لاہور، راولپنڈی اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں سے بھی زیادہ منظرِ عام پر آنا شروع ہو گئی ہیں۔

عورتوں پر تشدد کی صورتحال کے کتنے فیصد حصے کی ذمہ داری زرعی کلچر پر ڈالی جا سکتی ہے اور اس میں ہماری مذہبی اور جدید تعلیم کا کتنا حصہ ہے۔ کتنا ہمارا شہری کلچراس کا ذمہ دار ہے۔ شہر میں ایڈجسٹ کرجانے والا متوسط طبقہ جو مسلسل معاشی اور نفسیاتی دباؤ کا شکاررہتاہے وہ خود بھی عورتوں پر تشدد اور ظلم وزیادتی کرتاہےلیکن اُس کےاس ظلم و زیادتی کی شکلیں مختلف ہوتی ہیں۔

متوسط طبقہ میں تشدد کی ایک نئی شکل بھی پیدا ہورہی ہے۔ وہ یہ ہے کہ خواتین نے بھی اب مردوں پر ظلم و زیادتی کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس کی شکلیں مختلف ہیں۔ ہمارے ہاں کیونکہ قابلِ فروخت کموڈیٹی صرف حقوقِ نسواںہیں اس لئے اس پر کوئی توجہ ہی نہیں دے رہا۔ لیکن فی الوقت بہرحال عورتوں پر تشدد بہت زیادہ ہے۔

شہروں میں مردوں اور عورتوں کے تشدد کی شکلیں تبدیل ہونے کا سبب جدید ٹیکنالوجی بھی ہے۔ جہاں تک جدید ٹیکنالوجی کی وجہ سے کلچرل انفیوزن یعنی ثقافتی نفوذپذیری کے عمل کا تعلق ہے تو وہ ہمارے دیہاتوں میں بھی بڑی تیزی سے جاری ہے۔ تشدد کی بدلتی اقسام اور شکلوں اور اس کے حقیقی مضمرات پر ایک جامع، مربوط اور مرتبہ تحقیق کی ضرورت ہے۔

اس حوالے سےہمارے ملک میں کسی قسم کے کوئی اعداد وشمار ہی نہیں ہیں۔ سول سوسائٹی کچھ غیر مربوط اور غیر سائنسی بنیادوں پر اعداد و شمار جمع کرلتی ہے۔ لیکن ان کے ان تجزیوں میں ان کےادارہ جاتی تعصبات اور فنڈنگ وغیرہ کا لالچ کارفرما ہوتا ہے۔ کچھ تحقیقات جامعات کے شعبہِ عمرانیات اور انتھروپالوجی، مطالعہ پاکستان اور دیگر چند ایک ہیمینٹیز گروپس کے طالب علم بھی کرتے ہیں۔ جامعات کے پاس تحقیقاتی مد میں خاطر خواہ بجٹ کا انتظام نہیں ہوتا اس لئے انہیں بھی ناگزیرحالات میں این۔جی۔اوز کا تعاون درکار ہوتا ہے۔ مجبوراً کوئی دیگر راستہ نہ ہونے کی وجہ سے تحقیقاتی کام اور طالبعلموں کی انٹرن شپ کے لئے انہیں این۔جی۔اوز کے پاس بھیج دیا جاتا ہے۔

پورے ملک کی چند بڑی این۔جی۔اوزکے علاوہ دیگرتمام کی تمام این۔جی۔اوز کے سربراہان جو روزانہ انسانی حقوق، مساوی سیاسی، سماجی اور معاشی حقوق کی باتیں کرتے رہتے ہیں کا ٹیسٹ لے لیجیئے آپ کو پتا چلا جائے گا کہ یہ خود تحقیق، تحقیقاتی مقاصد اور طریقہ کار سے متعلق کتنے کورے ہیں۔ بہت سوں کے پاس بنیادی تعلیم ہی مکمل نہیں ہے۔ وہ این۔جی۔اوز میں ریسرچ کے بے تاج بادشاہ بنے پھر رہے ہیں۔
بنابریں ہمارے پاس اچانک ابھرنے والے واقعات پر جو ردِعمل سامنے آتے ہیں وہ علمی کے بجائے زیادہ جذباتی ہوتے ہیں۔

عورتوں پر تشدد کے مضمرات اور اس میں مختلف گروہوں، شعبوں اور افراد کے حصے کے حوالے سے بات ہو رہی تھی۔ جہاں تک نفسیاتی، ذہنی اور اخلاقی طورپرعورتوں پر دباؤ ڈالنے جیسے تشدد کا تعلق ہے تو اس کو ہمارے ملک میں سرے سے تشدد تسلیم ہی نہیں جاتا۔ ہمیں یہ بھی جاننے کی ضرورت ہے کہ ایسا کیوں ہے اس کی وجوہات زیادہ معاشی ہیں یا ثقافتی۔

معیشت ثقافت کے پیچھے چلتی ہے یا ثقافت معیشت کے پیچھے۔ یا پھر دونوں ناگریز طورپر ایک دوسرے کے اندر پیوست ہیں۔ ایسی غیر جانبدارانہ اور غیر متعصب تحقیق کسی ایک شعبہ کا کام نہیں ہوتا۔ اور مربوط نتائج اس وقت تک حاصل ہوہی نہیں سکتے جب تک ہم علمِ نفسیات، قانون اور دیگر سماجی علوم کی متعلقہ شعبوں میں تحقیقاتی کام کو مربوط اوریکجا کرکے نہ دیکھیں۔

خیر سے ہمارے ہاں قانون کی تعلیم کا جو طریقہ ہے وہ محض چند ایک قوانین پڑھانے دینے تک محدود ہے۔ اُس میں تحقیق اور طریقہِ تحقیق کو تو شجرِ ممنوعہ ہی سمجھا جاتا ہے۔ عدالتوں میں موجود دعوی جات، ان پر جمع کی جانے والی شہادتیں اور ان پر آنے والے فیصلوں کے اعداد وشمار کو جمع کرکے کوئی مربوط تحقیقاتی نتیجہ پیش ہی نہیں کیا جاتا۔

دوسری طرف کلینکل سائیکالوجی والے نفسیاتی دباؤاوراس سے جنم لینے والے تشدد کی تعداد کو ہمارے ملک میں خطرناک حد تک پہنچنے کی گھنٹیاں بجا رہے ہیں۔ معاشی دباؤ کو ہی وہ خودکشیوں اور تشدد کا نتیجہ قرار دے رہے ہیں۔ لیکن ہمارے این۔جی۔اوٹک دانشور ہیں کہ کلچراور روایات کا چورنحقوقِ نسواں کی یوں میں بند کرکے بیچے جارہے ہیں۔ ہر تحقیق دوسری سے متضاد نتائج دے رہی ہے ۔ کوئی سوال کرنے والا نہیں ہے ۔ ہر کوئی اس ملک میں علم اور تحقیق کے ساتھ ایک بیہودہ مذاق کر رہا ہےاور کرتا ہی چلا جا رہا ہے ۔

عدالتوں میں عائلی مقدمہ جات میں زیادہ تر عورتیں جو مقدمات لے آتی ہیں۔وہ خواہ شہر سے ہوں یا دیہات سے ان میں زیادہ ترتشدد کی شکایت سامنے آتی ہیں۔ہمارےوکلاحضرات خواتین سے پوچھے بغیر بھی سہہ پاچہ جات پوشیدنی میں گھر سے نکال دیا اورذہنی اور جسمانی تشدد بھی کیاجیسے جملے عرضی دعویٰ جات میں خود سے ڈال دیتے ہیں۔ ظاہر ہے یہ کوئی سنجیدہ علمی اور تحقیقی رویہ نہیں ہے۔

جب قوانین مطلوبہ نتائج نہ دے رہے ہوں، تو اس پر بھی سنجیدہ علمی تحقیق کی ضرورت ہوتی ہے کہ آخر قانون سازی کیوں مطلوبہ نتائج دینے میں ناکام ہے۔ ہمارے سیاستدانوں نے اس پر کیا ریسرچ کرنی ہے کیونکہ یہ قوانین اُن کا تو مسئلہ نہیں ہیں۔ یہ تو عام آدمی کا مسئلہ ہیں۔ ایسے میں ایک متوازن سماج کا خواب نہیں دیکھا جاسکتا۔

میں شعبہ قانون سے وابستہ ہونے کے ناطے سے بہت سے ہیومن رائٹس والوں کی ذاتی زندگیوں کی کہانیاں جانتا ہوں جن میں وہ خود بھی اپنی بیویوں پر تشدد کی طرف مائل رہے ہیں۔ پڑھے لکھے لوگوں میں بھی ایسے لوگوں کی تعداد کم نہیں ہے۔ تو کیا یہ مسئلہ صرف ملاں کا ہے یا ہمارے سماج کا۔ سماجی مسئلے کو سماجی طورپر حل کرنے کے لئے ہمیں زیادہ سنجیدہ علمی اور تحقیقاتی کام کی ضرورت ہے۔

اس کے علاوہ نئی عورتوں کے مردوں پرتشدد اور زیادتی کے حوالے سے ابھرنے والی نئی صورتحال، نئی اشکال اورنئی اقسام پر بھی بات کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ہمارےشہری کلچر میں ابھرنے والی نئی صورتحال ہے ۔ اس کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔

Comments are closed.