مسلمان کینیڈا میں جزیرے بنا کر نہیں رہ سکتے

Asif Javaid4

آصف جاوید۔ ٹورنٹو

مسلمان کینیڈا میں جزیرے بنا کر نہیں رہ سکتے، مسلمانوں  پر کینیڈین معاشرے کی اجتماعیت یعنی پلورل ازم   کا احترام کرنا واجب ہے

اورلینڈو، امریکہ میں ایک مسلمان انتہا پسند کے ہاتھوں 50 افراد کی ہلاکت اور 53 افراد کے زخمی ہونے کے بعد اب کینیڈا میں موجود مختلف ممالک سے ہجرت کر کے آئی ہوئی مسلمان کمیونٹیز کے سنجیدہ حلقوں میں اس بات پر سنجید گی سے غور و فکر کیا جارہا ہے کہ کینیڈا میں موجود مسلمان انتہا پسند کینیڈا کی سلامتی کے لئے بہت بڑا خطرہ ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ایسے انتہا پسند اب کینیڈا کی برسرِ اقتدار پارٹی ، لبرل پارٹی آف کینیڈا میں بھی کمیونٹی لیڈروں کے بھیس میں اپنی پناہ گاہیں قائم کر چکے ہیں۔

یہ وہ لوگ ہیں جو کینیڈین معاشرے کی رواداری اور اخلاقی اصولوں کو سرے سے تسلیم ہی نہیں کرتے، اور اپنی پرائیویٹ محفلوں میں ہم جنس تعلّقات ، عورتوں کی عریانیت، بغیر نکاح تعلّق، شراب خانوں اور کلبوں کی موجودگی پر اپنی ناپسندیدگی ظاہر کرتے ہیں۔ مسلمان علماء کرام بھی اپنے خطبات میں ، شراب کی حرمت میں نازل ہونے والی آیات اور قومِ لوط پر شدید عذاب کا ذکر کرکے اور سخت ترین عذ اب کا خوف دلا کر مسلمان نوجوانوں میں ہم جنس پرستوں سے نفرت کا ایسا احساس پیدا کرتے ہیں کہ جیسے ہم جنس پرست کینیڈین معاشرے کا ایک بدنما داغ ہیں۔

یہ لوگ مسلم نوجوانوں میں کینیڈین معاشرے کی رواداری اور اخلاقی اصولوں کی پاسداری کو ایسا بنا کر پیش کرتے ہیں کہ جیسے مسلمان کینیڈا میں اپنی مذہبی آزادی سے نہیں بلکہ مجبوراگناہوں کی دلدل میں کافروں کے ملک میں رہ رہے ہیں۔ یہ مسلمان علماء کرام اور ہارڈ لائن اسلامی کمیونٹی لیڈرز ہجرت کرکے کینیڈا آئے ہوئے مسلمانوں میں کینیڈا کی محبّت جگانے اور ان کو مین سٹریم میں ضم ہونے کی ترغیب دینے کی بجائے، ان مسلمانوں کو کینیڈا کے مین سٹریم معاشرے سے اجتناب اور نفرت سکھا رہے ہیں۔

یہ ان کو رسول اللہّ کےزمانے کی مکّہ اور مدینہ طرز کی ریاست کے خواب دکھاتے ہیں۔ یہ مسلمان یہ اپنے وعظوں میں ہم جنس پرستی، عریانیت، شراب اور کلبوں کی مذمّت کرکے نوجوانوں کے دل میں کینیڈا سے نفرت کے بیج بو رہے ہیں۔ یہ علماء اکرام اور انتہا پسند کمیونٹی لیڈرز اپنے خطبات اور کمیونٹی راونڈ اپ میں آپ کو کبھی بھی جہاد سے نفرت اور ، بہیمانہ شریعت کے نفاذکی مذموم خواہش سے اجتناب اور ہم جنس پرستوں کو معاشرے کا ایک مفید فرد تسلیم کرنے اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی تعلیم دیتے ہوئے نہیں ملیں گے۔ بلکہ ہمیشہ کمیونٹی ایوینٹس اور مساجد کے منبر سے یہی کہا جارہا ہوتا ہے کہ اے مسلمانوں اپنی صفوں میں اتّحاد پیدا کرو، اپنے نمائندوں کو کینیڈا کی پارلیمنٹ میں بھیجو۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ مسلمان ممبر پارلیمنٹ بھی جو کہ اپنی رائڈنگ کے تما م مسلم اور غیر مسلم لوگوں کے ووٹ لے کر ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوتے ہیں، کینیڈین مسلمانوں کے خالص اجتماعات میں اپنے آپ کو مسلمانوں کا نمائندہ ظاہر کرتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں۔ چونکہ ہمارا تعلّق پاکستانی کمیونٹی سے ہے، اور اکثر کمیونٹی کی سوشل ڈائنمکس ہماری نظر میں رہتی ہے، اس حوالے سے ہم نے کینیڈا میں ہونے والے گذشتہ انتخابات میں ایک حیران کن رویّے کا بھی مشاہدہ کیا۔

مسی ساگا ایرِن مِل کی رائڈنگ سے لبرل پارٹی آف کینیڈا کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والی خاتون ممبر پارلیمنٹ محترمہ اقراء خالد 16 نومبر 2015 کو کینیڈین پارلیمنٹ میں حلف اٹھانے کے فورابعد ہائی کمشن آف پاکستان حاضری دینے پہنچ گئیں۔ اور قونصلر جنرل آف پاکستان برائے ٹورونٹو، جناب اصغر علی گولو کے اس بیان کو سچ ثابت کریا کہ ہماری خواتین، مائیں اور بہنیں پہنچی ہیں آٹوا میں ، یہ وہ 20 کروڑ پاکستانی ہیں جو آٹوا میں اپنی قوم کی نمائندگی کریں گی۔

یہ بیان قونصلر جنرل جانب اصغر علی گولو نے الیکشن کے فوراًبعد کینیڈین عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی دو خواتین اقراء خالد اور سلمیزاہدہ کے لئے مبارک باد دئے جانے کی ایک تقریب میں ایک اسپاٹ انٹریو میں پاکستان کے ایک مشہور چینل کے ٹورونٹو میں مقیم نمائندے سے اظہار خیال کرتے ہوئے دیا تھا، جس کی وڈیو سوشل میڈیا پر چل چکی ہے۔ کینیڈا کے ملٹی کلچرل اور ملٹی فیتھ معاشرے میں کثیر تعداد میں غیر پاکستانیوں اور غیر مسلموں کے ووٹ لے کر کامیاب ہونے والےاگر اب بھی اپنے آپ پر مسلمانوں اور پاکستانیوں کی نمائندگی کی چھاپ لگائیں تو یہ تمام ووٹرز کی توہین کہلائے گی۔

ان کو ووٹ دینے والے کینیڈینز کا مذہب اور عقیدہ، سابقہ وطنیت کچھ بھی ہو، ان کو کینیڈین نے بغیر کسی مذہبی یا نسلی تعصّب کے اپنے اعتماد سے نوازا ہے، اگر قونصلر جنرل پاکستان ان کو پاکستان کا نمائندہ برانڈ کریں گے، اور یہ خاتون ممبر پارلیمنٹ منتخب ہونے کے بعد بجائے اپنے حلقے میں جاکر اپنے ووٹر کا شکریہ ادا کرنے کے ہائی کمیشن آپ پاکستان آشیر باد لینے پہنچیں گی تو وہ ان تمام کینیڈین ووٹرز کی توہین کریں گے، جنہوں نے ان کو صرف اور صرف کینیڈین سمجھ کر ووٹ دیا ہے۔

ہائی کمشنر آف پاکستان جناب طارق عظیم صاحب ایک دانشور انہ اور سلجھے ہوئے ذہن کے مالک ہیں، حیرت ہے کہ انہوں نے اپنے قونصلر جنرل کے اس بیان کو واپس کیوں نہیں لیا؟، خود کینیڈین عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی دونوں خواتین اقراء خالد اور سلمیزاہد نے قونصلر کے اس بیان سے اپنی براءت ظاہر کیوں نہیں کی؟۔ ان خواتین کا مسلمان اور پاکستانی اوریجن ہونا ان کی اپنی ذات تک محدود ہے۔ اس طرح کی برانڈنگ کینیڈین معاشرے کی اجتماعیت یعنی پلورل ازم کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔ یہ پاکستانی نژاد ممبر خواتین، کینیڈین پارلیمنٹ کی ممبر ہیں۔ کینیڈین عوام کی نمائندہ ہیں۔

قونصلر جنرل کے اس بیان کے بعد اور دونوں خواتین ممبرانِ پارلیمنٹ کی جانب سے کوئی تردید نہ آنے کے بعد یہ یہ سوال اپنی جگہ پر قائم ہے کہ یہ دونوں خواتین اپنی اپنی رائڈ نگ کے ووٹرز پر واضح کریں کہ وہ کیینڈ ین پارلیمنٹ میں 20 کروڑ پاکستانیوں کی نمائندگی کررہی ہیں؟ یا اپنی رائڈ نگ کے ووٹرز کی نمائندگی کررہی ہیں؟۔ پاکستانی کمیونٹی کے وہ دانشور جو پاکستانی کینیڈین کو مین سٹریم معاشرے سے جوڑنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، سخت مایوس ہیں۔

کینیڈا میں مقیم مسلمانوں خاص طور پر پاکستانیوں کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کینیڈین معاشرے کی رواداری اور اخلاقی اصولوں کی پاسداری، اور مین سٹریم کلچر سے جڑے رہنے میں ان کی فلاح ہے۔ مسلمان یا پاکستانی کینیڈا میں جزیرے بنا کر نہیں رہ سکتے۔ بنیادی انسانی حقوق ، عورت مرد کی برابری، شعوری اور فکری آزادی، ہم جنس پرستوں کو معاشرے کا مفید فرد سمجھ کر ان سے عزّت و احترام سے پیش آنا، بالغ لوگوں کا اپنی صوابدید پر کلب یا شراب خانوں میں تفریح کرنا، اپنی پسند کا لباس پہنّناچاہے وہ مختصر ہی کیوں نہ ہو، دو جوان افراد کا اپنی مرضی سے تعلّقات قائم کرنا، بغیر نکاح تعلّق قائم کئے ایک ساتھ زندگی گزارنا، اسکولوں میں بچّوں کو جنسی زندگی کی معلو مات فراہم کرنا کوئی معاشرتی عیب نہیں ہے۔ نہ ہی کینیڈا گناہوں کی دلدل ہے، جس سے مسلمانوں کا دور رہنا ضروری ہےبلکہ یہ تو ایک آزاد اور صحتمند معاشرے کی برکات ہیں کہ انسان اپنی آزاد مرضی سے اپنی زندگی گزارتا ہے، اس پر کوئی ریاستی یا معاشرتی جبر نہیں ہے۔

یہ امتیاز پوری دنیا میں صرف کینیڈا جیسے عظیم ملک کو ہی حاصل ہے جس میں ایک کثیر الثقافت اور کثیر القومی معاشرے میں، ہر مذہب، ہر عقیدے، ہر زبان ہر رنگ و ہر نسل کے لوگ امن و آشتی اور بھائی چارے سے رہ رہے ہیں۔ عقل و شعور کا تقاضا ہے کہ کینیڈا میں مقیم انتہا پسند ذہنیت کے مسلمان اپنے رویّوں میں تبدیلی پیدا کریں۔ انتہا پسندی کینیڈا کی سلامتی کے لئے بہت بڑا خطرہ ہے۔

2 Comments