پاکستان خطے میں تنہائی کا شکار ہورہا ہے

Front-1

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی جو افغانستان کے دورے پر ہیں ، نے ہرات میں سلمیٰ ڈیم کا افتتاح کیا ہے۔سلمیٰ ڈیم ایران کی سرحد سے متصل صوبہ ہرات میں چشت شریف کے مقام پر واقع ہے۔ 30 کروڑ ڈالر کی مالیت کے اس ہائیڈرو پراجیکٹ سے 42 میگا واٹ بجلی پیدا ہوسکے گی اور تقریباً 75 ہزار ایکڑ اراضی کو پانی کی سہولت دستیاب ہوگی۔

یاد رہے کہ اس سے قبل نریندرمودی دسمبر 2015 میں کابل میں افغانستان کی پارلیمان کی عمارت کا افتتاح کر چکے ہیں جو بھارت کے تعاون سے تعمیر کی گئی تھی۔چند ہفتے پہلے انڈیا ،ایران اور افغانستان نے ایران میں چا بہاربندرگاہ کی تعمیر کا افتتاح کیا جس کی بدولت انڈیا کی افغانستان اور وسطی ایشیا کے ممالک تک رسائی ہو جائے گی۔اس بندرگاہ سے ایران سمیت انڈیا اور افغانستان کا روشن مستقبل وابستہ ہے۔

ماہرین کے مطابق چاہ بہار بندرگاہ اس خطے میں گیم چینجر ثابت ہوگی کیونکہ 1947 کے بعد بھارت کو پاکستان کی طرف سے مسلسل ناموافقانہ رویےکے باعث افغانستان اور وسطی ایشیا کے ممالک تک رسائی نہیں مل سکی تھی لیکن اس منصوبے کی بدولت بھارت، افغانستان اور ایران کوشاندار معاشی فوائد حاصل ہونگے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے سابقہ جرنیلوں کی طرف سے چاہ بہار بندرگاہ کو پاکستان کے خلاف سازش قرار دیا ہے۔

بھارت کی پچھلے کئی سالوں سے کوشش تھی کہ وہ واہگہ بارڈر کے ذریعے افغانستان اور وسطی ایشیا کے ممالک تک رسائی حاصل کرے جس سے پاکستان میں نہ صرف معاشی سرگرمیوں میں اضافہ ہونا تھا بلکہ مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے میں بھی پیش رفت ہونی تھی مگر پاکستان کی طرف سے مسلسل انکار کے بعد بھارت نے چاہ بہار بندرگاہ کے ذریعے تجارت شروع کرنےکافیصلہ کیا ۔ایران اور بھارت پہلے ہی چاہ بہار بندرگاہ سے افغان سرحد تک ریلوے لائن کی تعمیر کا منصوبہ شروع کر چکے ہیں۔

پاکستان کی فوجی ایسٹیبشلمنٹ پاک بھارت تعلقات میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ فوجی ایسٹیبلشمنٹ کے برعکس جب بھی سویلین و جمہوری حکومتوں نے بھارت کی طرف دوستی ہاتھ بڑھایا ہے تو فوجی ایسٹیبلشمنٹ نے اسے سبوتارژ کر دیا۔ پاکستان آج بھی بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی بجائے لشکر طیبہ ، جیش محمد کے ذریعے پراکسی وار لڑ رہا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اپنی مہم جوئیوں پر مبنی پالیسیوں کی وجہ سے اس خطے میں تنہائی کا شکار ہو رہا ہے۔ بھارت پچھلے پندرہ سالوں سے افغانستان میں بے شمار ترقیاتی منصوبوں پر عمل درآمد کررہا ہے جس میں ہسپتال، یونیورسٹیاں اور سڑکوں کی تعمیر شامل ہے جبکہ پاکستان مسلسل دہشت گردوں ( جنہیں وہ اپنا دفاعی اثاثہ قرار دیتا ہے) کی مدد سے افغانستان میں امن کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے ۔

پاکستان کے فوجی پالیسی سازوں کی طرف سے افغانستان کو پانچواں صوبہ بنانے کی خواہش کی بدولت جنوبی ایشیا کا خطہ مسلسل بدامنی کا شکار ہے۔کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ پاکستان کے حمایت یافتہ طالبان افغانستان میں خودکش حملے نہ کرتے ہوں۔ افغانستان اور امریکہ کی جانب سے پاکستان کو کئی بار طالبان کے خلاف کاروائی کرنے کا کہا جاتا ہے مگر پاکستانی ریاست یہ تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں کہ طالبان رہنما پاکستان میں موجود ہیں اور افغانستان میں حملوں کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔

حال ہی میں طالبان کے امیر مُلا منصور اختر بلوچستان میں امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے ہیں جس سے افغانستان اور امریکہ کے پاکستان پر طالبان کی حمایت کے الزامات درست ثابت ہوگئے ہیں ۔پاکستان نے ڈرون حملوں کو ملکی سلامتی اور خودمختاری پر حملہ تو قرار دیا ہے مگر اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا کہ مّلا منصور پاکستان میں کیسے اپنی سرگرمیوں میں مصروف تھا۔

چند سال پہلے جب امریکی میرین نے ابیٹ آباد میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو ہلاک کیا تھا تواس وقت بھی پاکستان کو دنیا بھر میں شدید شرمندگی کا سامنا کرناپڑا اور پاکستان کا یہ دعویٰ کہ وہ دہشت گردوں کو پناہ نہیں دیتا غلط ثابت ہوا تھا۔

بی بی سی کے مطابق امریکی وزارت خارجہ نے پاکستان پر کالعدم تنظیموں لشکر طیبہ، جیش محمد اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف ٹھوس کارروائی نہ کرنے کا الزام لگایا ہے۔امریکی وزارت خارجہ کی سالانہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں پاکستانی فوج کی کارروائی سے القاعدہ کمزور ہوئی ہے لیکن رپورٹ کے مطابق ’افغانستان میں کئی حملے پاکستان میں موجود محفوظ پناہ گاہوں سے کیے گئے ہیں۔

امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پیمرا نے کالعدم لشکر طیبہ سے منسلک دو تنظیموں ’جماعت الدعوۃ‘ اور ’فلاح انسانیت‘ کی میڈیا کوریج پر تو پابندی لگائی لیکن حکومت نے ان کے چندہ جمع کرنے کی کارروائی کی روک تھام نہیں کی۔رپورٹ کے مطابق ’لشکر طیبہ اور جیش محمد دونوں ہی پاکستان میں سرگرم ہیں، تربیت دے رہی ہیں اور پیسہ اکٹھا کر رہی ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ ’کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف کارروائی ہوئی ہے لیکن افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف مطلوبہ کارروائی نہیں کی گئی۔

News desk

3 Comments