مولانا شیرانی کی اہلیت چیلنج

sss

اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین کی اہلیت کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا گیا ہے۔ لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز کے استاد معین حیات چیمہ نے معزز عدالت میں اس حوالے سے جمعے کو ایک پٹیشن دائر کرائی ہے۔

درخواست گزارکے وکیل مرزا شہزاد اکبر نے پٹیشن کے قانونی نکات پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈوئچے ویلے کو بتایا،’’پٹیشن میں پہلا قانونی نکتہ یہ اٹھایا گیا ہے کہ کسی بھی رکنِ اسمبلی کا کسی ایسے ادارے میں تقرر نہیں کیا جاسکتا، جو حکومت کے ماتحت ہو۔ جب شیرانی صاحب کو اِس ادارے کا چیئرمین بنایا گیا تو وہ قومی اسمبلی کے رکن تھے۔ لہٰذا قانونی طور پر ان کا یہ تقرر درست نہیں تھا۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ چیئرمین کے لیے کچھ شرائط ہیں کہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو، اُس نے تقابلِ مذہب پر کوئی کام کیا ہو یا کوئی تحقیقی مقالہ لکھا ہو۔

اِس ادارے میں ماضی میں کئی سربراہ ایسے رہے ہیں، جن کی علمی قابلیت جانی پہچانی تھی۔ انہوں نے تحقیقی کام بھی کیا تھا یا تقابلِ مذاہب پر انہوں نے کچھ لکھا تھا۔ شیرانی صاحب کے پاس نہ کوئی سند ہے اور نہ ہی انہوں نے تقابلِ مذاہب پر کوئی کام کیا اور نہ کوئی تحقیقی مقالہ لکھا۔ اوگرا، چیئرمین نیب، اوجی ایل ڈی سی سربراہ سمیت کئی مقدمات میں سپریم کورٹ یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ صدر کے پاس اداروں کے سربراہ مقرر کرنے کا اختیار ہے لیکن اُنہیں اِس اختیار کو منصفانہ انداز میں استعمال کرنا ہے اور اہلیت کے لیے مقرر کردہ ضابطوں کو پیشِ نظر رکھنا ہے۔ ہمارے خیال میں ان ضابطوں کو پیشِ نظر نہیں رکھا گیا اور شیرانی صاحب کو سیاسی بنیادوں پر اِس ادارے کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے‘‘۔

مولانا شیرانی اپنے متنازعہ بیانات کی وجہ سے سول سوسائٹی کو تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔ کچھ عرصے پہلے اُن کے اِس بیان نے، کہ جس میں انہوں نے کہا تھا کہ مرد عورت کی معمولی پٹائی کرسکتا ہے، پاکستان کے سیاسی و سماجی حلقوں میں ہلچل مچادی تھی۔ اس کے علاوہ ڈی این اے اور کم عمری کی شادی سمیت کئی اہم موضوعات پر بھی اُن کی رائے کو اُن کے ناقدین نے انتہائی متنازعہ قرار دیا تھا۔

معروف تجزیہ نگار سہیل وڑائچ نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’اسلامی نظریاتی کونسل میں تقرر سیاسی بنیادوں پر ہوتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اس کی سربراہی کسی ایسے شخص کے پاس ہو جو مذہب، جدیدیت، سیاست اور جمہوری فلسفے پر عبور رکھتا ہے اور جدت پسند ہو۔ مولانا شیرانی قدامت پسند ہیں اور اپنے نظریات کے حوالے سے بہت سخت گیر سمجھے جاتے ہیں۔ اُن کے بیانات نے اسلامی نظریاتی کونسل کو متنازعہ بنا دیا ہے اور انہوں نے رِبا اور بینکاری سمیت کئی اور اہم مسائل پر کوئی ایسے شاہکار فیصلے نہیں دیے، جس کو قابل ستائش کہا جائے‘‘۔

جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ڈاکڑ سید عالم محسود نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’قائد اعظم کی گیارہ اگست کی مشہور تقریر کے بعد آئین میں ایسے کسی ادارے کی گنجائش نہیں ہونی چاہیے تھی کیونکہ اس تقریرمیں جناح صاحب نے تما م شہریوں کو برابر قرار دیا تھا۔ مجھے بتائیں کہ اس کونسل میں کیا کوئی غیر مسلم پاکستانی ہے۔ اس میں مختلف فرقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود ہیں لیکن برتری کسی ایک فرقے والوں کی نظر آتی ہے۔ کونسل کے سربراہ کے متنازعہ بیانات سے صرف اس ادارے کی بے توقیری نہیں ہوتی بلکہ ملک کی بھی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ نے مذہبی رجعت پسندی کو فروغ دیا ہے۔ شیرانی کے خلاف پٹیشن دائر ہوگئی ہے لیکن اس ملک میں بنیاد پرستوں کے خلاف نہ کبھی کوئی ایکشن لیا گیا ہے اور نہ لیا جائے گا۔

تجزیہ نگار لیاقت علی ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ مولانا محمد خان شیرانی اس وقت اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئر مین ہیں ۔ ایک آئینی ادارے کے طور پر کونسل کی ذمہ داری ہے کہ وہ پارلیمنٹ کو اسلامی قوانین کے حوالے سے رہنمائی مہیا کرے ۔

کونسل کے چیئر مین کے لئے ضروری ہے کہ اسے پاکستان کی سیاسی ، معاشی اور سماجی اور قانونی مسائل کے بارے میں علم ہو اور اسلام کے فلسفے ،تعلیمات اور اصولوں کے بارے میں بھی اس کا علم اعلی درجے کی ہو ۔۔لیکن کونسل کے چیئر مین مولانا شیرانی کا نقد علم کتنا ہے اس کا اندازہ ان کے پرو فائل سے ہوسکتا ہے ۔

مولانا شیرانی کسی سکول ، کالج اور یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ نہیں ہیں ۔انھوں نے کسی ادارے سے قانون کی تعلیم حاصل نہیں کی ۔ وہ کوئٹہ کے مدرسے متاع العلوم اور بنوں کے مدرسے معراج العلوم کے طالب علم رہے ہیں ۔ مولانا قانون سے واقفیت کو پس منظر نہیں رکھتے ۔ چیئر مین کے لئے ضروری ہے کہ اس کے تحقیقی مقالے کسی بین الاقوامی جریدے میں چھپے ہوں لیکن کا یہ خانہ بھی خالی ہے ۔وہ قانون کے شعبے میں پارلیمنٹ کی کیا رہنمائی کریں گے جن کو قانون کی ابجد سے بھی واقفیت نہیں ہے ۔

دراصل ان کی تعنیاتی سیاسی بنیادوں پر ہوئی ہے ۔ پہلی ٹرم پی پی پی کی حکومت میں انہیں ملی دوسری مرتبہ ن لیگ نے مولانا فضل الرحمن کو ساتھ رکھنے کے لئے مولانا شیرانی کو کونسل کا چیئر مین بنا دیا ۔

جب بھٹو نے اسلامی نظریاتی کونسل 1973کے آئین کے تحت بنائی تھی اس کا پہلا چیئر مین سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس حمود الرحمن کو بنایا تھا اور تو جنرل ضیا ء الحق نے بھی کسی مولوی کو کونسل کا چیئر مین نہیں بنایا تھا ۔ یہ ’ کریڈٹ‘ محترمہ بے نظیر کو جاتا ہے کہ انھوں نے مولانا کو ثر نیازی کو کونسل کاچیئر مین بنایا تھا ۔ جنرل پرویز مشرف نے ڈاکٹرخالد مسعود کو چیئر مین بنایا تھا ۔

DW/News Desk

Comments are closed.