تعلیم کاسماجی شعورمیں کتنا کردار

جنید الدین

aku-pakistan-ied_0

پنجابی کہاوت ہے نہ توں بھیڈے بار نکلیوں نہ تینوں کتیاں پاڑیا(ساحل پہ بیٹھ کر طوفان کی شدت کا اندازہ نہیں کیا جا سکتا)۔یہ کہاوت اس شخص کے بارے میں کہی جاتی ہے جو ایک مخصوص جگہ تک محدود ہو۔یہ جگہ نظریہ,جغرافیائی حد،حلقہ احباب اور محدود علم کچھ بھی ہو سکتا ہے۔شاید اسی کے پس منظر میں برنارڈ شاء نے کہا تھا کہ عاشق اور متعصب سے بحث نہ کرو کہ ان دونوں کی سوئی ایک مرکز پہ اٹکی رہتی ہے جس سے وہ باہر نہیں نکل سکتے۔

ایسا اس لئے نہیں کہ وہ باہر نکلنا نہیں چاہتے مگر مرکز سے دور نکل جانے کا خوف انہیں اس سے باندھے رکھتا ہے.یہ خوف وہی عناصر تخلیق کرتے ہیں جو کولہو کے بیل کے مانند انہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں،مگر ان میں سے چند ہی اس ڈر کو فتح کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں جیسے بارھویں کلاس کی انگریزی کی کہانی کا وہ کردار جسے اس کی ماں شرارت کرنے سے روکنے کے لیے ٹمبکٹو چھوڑ آنے کا کہتی ہے اور وہ اس ڈر پہ فتح یاب ہو کر پیدل سہارا ریگستان کا سفر کرتا ہے۔

پاکستان اور بھارت دونوں ایسے ممالک ہیں جہاں انتظامی امور لسانیت اور نسل پرستی کی بنیاد پر وضع کیے جاتے ہیں اور یہ ہے ہمارا مرکز،جہاں کسی قوم کی اکثریت ہو اس کے گرد ایک حصار باندھ کر اس کو اس قوم کی جغرافیائی حد تک محدود کر دیا جاتا ہے.جیسے بہار،پنجاب، سندھ، بلوچستان اور مہارشٹرا وغیرہ۔ پھر اس علاقے میں قوم پرست پیدا ہو تےہیں اور اس طرح باہمی ہم آہنگی کی دیوار کوٹہ سسٹم گرا دیتا ہے۔

یہ کتنا باعث مذمت ہے کہ داخلہ کے وقت طالبعلم اچانک پاکستانی سے پنجابی،سندھی،بلوچ اور پٹھان بن جاتے ہیں۔یہ سارے افراد اس مرکز سے بچھڑ کر فنا ہو جانا اپنا نصیب سمجھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس ماحول میں پروان چڑھنے والے جب بڑے شہروں میں آتے ہیں تو اسی قوم پرستی کی بنیاد پر سندھی کونسل,بلوچ کونسل اور پنجابی بیٹھک جنم لیتی ہے.اور یہ سارا ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت ہوتا ہے۔لیکن ایسے طالب علم جو بورڈنگ سکول سے تعلیم یافتہ ہوں ان چیزوں سے دامن بچا کر رکھتے ہیں۔اس لئے کہ وہ دوسری اقوام کی تہذیب و ثقافت اور عادات سے واقفیت رکھتے ہیں اور آپس میں رچ بس گئے ہوتے ہیں اور ان کے دلوں میں دوسری اقوام کے متعلق پالے گئے شکوک و شبہات ختم ہو چکے ہوتے ہیں۔

اسکی مثال مظفر گڑھ کے حاجی ہوٹل پر ایک ہی میز پر پنجابی،سندھی،بلوچ اور پٹھان لڑکوں کا کھانا کھانا اور اکیڈمی میں ہونے والے لائحہ عمل کا تعین کرنا ہے۔یہی صورتحال یونیورسٹیوں کے اردگرد لگے چائے خانوں پر نظر آتی ہے جہاں طلبا قوم پرستی کو سیاستدانوں کا چربہ قرار دیتے ہوئے پس پشت ڈال کر گپیں ہانکتے ہیں۔

منشویکوں کے سربراہ اور روسی سرخ فوج کے سپہ سالار ٹراٹسکی نے یہی بات اپنی سوانح عمری میں بھی لکھی کہ چھٹی جماعت میں اس کے ہم جماعت،ایشیائی،انگریز،جرمن اور سوس تھے جبکہ پاکستان میں میٹرک تک بچے دوسرے محلہ کے بچوں کو نہیں جانتے اور یونیورسٹی میں کونسلز کی موجودگی باہمی شبہات کا آئینہ دار ہوتی ہے۔نجی اداروں اس سے مستثنیٰ ہیں کہ ان اداروں میں پڑھنے والے بچوں کے والدین جن میں سے اکثریت اعلئ تعلیم یافتہ ہوتی ہے(ایک ریڑھی لگانے والا اور مزدور تو بچوں کو فرسٹ سٹینڈرڈ سکول میں نہیں بھیج سکتا)اس جھنجھٹ میں نہیں پڑھتے کہ ان کے بیٹے کا کلاس فیلو کون ہے اور یہی چیز ہم آہنگی اور  میرٹ کو فروغ دیتی ہے۔

اسی لئے  تمام تر مذہبی اور نسلی فرق کے باوجود انگلستان میں صادق خان انتخاب جیت جاتا ہے اور یہاں بلوچ یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ پنجابی استعمار کی وجہ سے کوئی بلوچ آج تک کرکٹ ٹیم میں شامل نہیں ہوسکا۔اور یہی لوگ تہہ در تہہ نیچے آتے ہوئے کبھی برادری تو کبھی پیشہ کی طبقاتی تقسیم کی وجہ سے میرٹ کا قتل عام کرتے نظر آتے ہیں۔

کم ترقی یافتہ علاقوں میں نسلی تفریق واضح نظر آتی ہے.پنجابی پٹھانوں کو ایک سر پھری قوم سمجھتے ہیں جو بغیر چینی کے سکنجبین پی کر درخت کاٹنا شروع کرتے ہیں اور کاٹ کر پھر روکھی روٹی کے ساتھ یہی مشروب نوش کرتے ہیں،نسوار رکھتے ہیں اور بہت کم نہاتے ہیں جبکہ اس کے برعکس پختون پنجابیوں کو بزدل اور لالچی قوم کےطور پر جانتے ہیں۔سندھی اردو بولنے والوں کو ایک بےنام ہجوم سمجھتے ہیں جس نے اپنی شناخت ہجرت کو بنا لیا ہے اور بلوچ قوم کے بارے میں سوشیالوجی آف پاکستان نامی کتاب میں کافی کچھ کہا جا چکا ہے۔

درجہ بالا تمام افکار اس طبقہ کے ہیں جو کہ کم اور ناقص تعلیم یافتہ طبقہ ہونے کے باوجود اکثریت میں ہےاور بلاشبہ سب سے زیادہ مینڈیٹ رکھتا ہے۔

اگر غور کیا جائے تو  ناقص تعلیم واحد عنصر ہے جو اس تمام تر صورتحال کا زمہ دار ہے.میٹرک تک پاکستان میں نصاب کے علاوہ کچھ پڑھنے کو ایک بےکار اور معیوب کام سمجھا جاتا ہے,ایسا دیہاتوں میں سماجی ثقافت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے.اور جب کوئی طالبعلم دور نوجوانی یعنی سیکھنے کی عمر تک پہنچتا ہے تو اس کے سامنے دو ہی راستے بچتے ہیں,یا تو وہ بڑے شہر میں جا کر یونیورسٹی میں داخلہ لےلے یا اپنے قریبی شہر کے کسی کالج میں.اور کالج میں رائج نظام تعلیم سیکھنے اور کھوج کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنتے ہیں۔

یونیورسٹی اور کالج گریجویٹ کا فرق ان دونوں کے کسی بھی مخصوص موضوع بحث عنوان کے متعلق دیے گئے حوالہ جات اور حقائق کی بنیاد پہ کیا جا سکتا ہے. کالجیٹ کو سال میں ایک دفعہ امتحان میں بیٹھنا ہوتا ہے اور اس کے متعلق  نصاب کسی بھی پبلشنگ ہاؤس سے لیا جا سکتا ہے نتیجہ ایک رات کے بی اے اور ایم اے پاس طالبعلم وجود پاتے ہیں۔

نیز یہ حضرات کسی پنساری کی طرح ڈگریوں کا پرچون اکٹھا کیے ہوتے ہیں ۔یہ کسی مضمون پر مہارت رکھنے کے بجائے ڈگریاں اکٹھی کرنے کو اپنے تعلیم یافتہ ہونے کا ثبوت سمجھتے ہیں اور بجائے شرمندہ ہونے کے اس پہ فخر کرتے ہیں۔ایسا اکثر  کسی چھوٹے نجی سکول کی وال چاکنگ پبلسٹی میں اساتذہ کی پروفائل والے سیکشن میں دیکھا جا سکتا ہے۔اس کے برعکس سمسٹر سسٹم میں طلبا کو پورا سمسٹر متعلقہ مضمون کے ساتھ رواں رکھا جاتا ہے اور چار سال کے بعد کیا گیا مقالہ طلبا کو اس مضمون کے ساتھ ذاتی انسیت پیدا کر دیتا ہے۔

اگر صرف پنجاب کو دیکھا جائے تو اس کی 12کروڑ آبادی 36 اضلاع میں تقسیم ہے اور ان میں سے 5 اضلاع میں یونیورسٹیاں قائم ہیں.یہ  اچھی تعلیم اور باہمی ہم آہنگی کے درمیان سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔اسی وجہ سے چھوٹے شہر مزید چھوٹے اور بڑے مزید گنجان ہوتے جا رہے ہیں جو کہ مزید مشکلات کا باعث بن رہے ہیں۔

اگر کسی یونیورسٹی کے طلبا کا باقی کالجز کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو اس شہر سے زیادہ باہر کے لوگ ہوتے ہیں جو کہ خرچہ برداشت کر سکتے ہیں اور انہی طلبا کے بوجھ سے رہائشی علاقوں کا کرایہ اور کھانے پینے کی چیزیں مہنگی ہونے لگتی ہیں.۔

اگر ہر ضلع میں یونیورسٹی قائم کر دی جائے یا کالجز کو یونیورسٹی قرار دے دیا جائے تو اعلئ تعلیم ہر کسی تک پہنچ سکتی ہے،شہروں کے درمیان آبادی کے بوجھ کو متوازن کیا جا سکتا ہے اور ورکشاپس کے درمیان طلبہ ہم آہنگی کو فروغ دے سکتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم عام کو اس طرح خاص کر سکتی ہے جیسے پانی چاکلیٹ کے بیجوں کے ساتھ مل کر اسے پگھلا کر کھانے والوں کیلئے باعث فرحت بنا دیتا ہے۔

Comments are closed.