رمضان المبارک :دہشت گرد تنظیموں کی سرگرمیوں میں تیزی

0,,15049893_4,00

رمضان کا اسلامی مہینہ شروع ہوتے ہی پاکستان میں پرویز مشرف دور میں کالعدم قرار دی گئی تنظیمیں ایک بار پھر سرگرمِ عمل ہوگئی ہیں اور ان میں سے کئی ممنوعہ تنظیمیں اب زکواة اور فطرانہ جمع کرنے کی تیاریاں بھی کر رہی ہیں۔

فوجی حکمران پرویز مشروف کے دور میں کالعدم قرار دی جانے والی کئی تنظیمیں آج تک نام بدل بدل کر کام کر رہی ہیں۔ ماضی میں کالعدم قرار دی جانے والی ان تنظیموں میں سے لشکرِ طیبہ، سپاہ صحابہ پاکستان (ایس ایس پی)، تحریک نفاذ فقہ جعفریہ (ٹی این ایف جے)، سپاہ محمد پاکستان اور جیش محمد قابل ذکر تھیں۔ ان میں سے کچھ تنظیمیں آج بھی اپنے نام بدل کر کام کر رہی ہیں۔

پولیس اور وفاقی وزارت داخلہ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پابندیوں کے بعد سپاہ صحابہ پاکستان، تحریک نفاذ فقہ جعفریہ اور جیش محمد نے نئے ناموں سے کام کرنا شروع کر دیا تھا لیکن مشرف حکومت نے فوراً ہی ان نئے ناموں سے کام کرنے والی تنظیموں پر بھی پابندیاں لگادی تھیں۔

تاہم اب ایس ایس پی نے اپنا نام اہل سنت و الجماعت رکھ لیا ہے، ٹی این ایف جے کے کئی مرکزی رہنما مجلس وحدت المسلمین میں شامل ہو چکے ہیں اور لشکر طیبہ جماعت الدعوة کے نام سے کام کر رہی ہے جب کہ جیش محمد آج کل الرحمت ٹرسٹ کے نام سے سرگرم ہے۔

ان ذرائع کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ جماعت الدعوة نے گزشتہ چند برسوں میں اسلام آباد کے سیکٹرز جی الیون اور آئی ایٹ سمیت وفاقی دارالحکومت کے کئی علاقوں میں اپنی تقریبات کا انعقاد کیا جب کہ ایک اور فرقہ ورانہ تنظیم سپاہ صحابہ پاکستان آبپارہ سمیت اسلام آباد کے کئی علاقوں میں سرگرم عمل ہے۔ ذرائع کے مطابق راولپنڈی میں بھی ان تنظیموں کی موجودگی بھرپور ہے۔

ان میں سے کئی تنظیمیں اب دفاع پاکستان کونسل کی رکن ہیں، جو ابتدائی طور پر افغانستان پر امریکی حملے کی مخالفت کرنے کے لیے بنائی گئی تھی۔ حافظ سعید، جن پر بھارت ممبئی حملوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کرتا ہے، پاکستان کے طول و عرض میں اپنی تنظیم کی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔

اس حوالے سے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے جماعت الدعوة کے نائب سکریٹری اطلاعات احمد ندیم نے کہا، ’’لشکر طیبہ ایک کشمیری تنظیم ہے، جس کا جماعت الدعوة سے کوئی تعلق نہیں۔ ہم وزرات داخلہ کی واچ لسٹ میں ہیں لیکن ہمیں حکومت کی طرف سے کالعد م قرار نہیں دیا گیا ہے۔ اس لیے ہمیں اپنی سرگرمیاں جاری رکھنے کا پورا حق ہے۔ لاہور ہائی کورٹ نے بھی ہم کو تمام الزامات سے بری کر دیا۔ سال میں کوئی دن ایسا نہیں ہوتا جب ہماری تنظیم کی کوئی نہ کوئی سرگرمی نہ رہی ہو۔ ابھی پانچ جون کو حافظ سعید نے اسلام آباد میں ایک بڑی ریلی سے خطاب کیا، جو بلوچستان میں ڈرون حملے کے خلاف تھی۔ اس کے علاوہ انہوں نے حال ہی میں کے پی اور ملک کے دوسرے علاقوں میں بھی متعدد تقریبات میں شرکت کی۔‘‘۔

اہل سنت والجماعت پاکستان کے اسلام آباد میں ترجمان حافظ عنیب فاروقی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہم تو رجسٹرڈ ہی نہیں ہیں۔ تو ہم پر پابندی کیسی؟ ہم تو ایک مسلکی تنظیم چلا رہے ہیں۔ عجیب بات ہے کبھی ہم کالعدم ہوجاتے ہیں اور کبھی نون لیگ اور پیپلز پارٹی ہم سے انتخابات میں حمایت مانگنے آ جاتی ہیں۔ پنجاب میں قومی اسمبلی کی پندرہ سے سولہ نشستوں پر نون لیگ اور دوسری پارٹیوں کے لوگ ہماری حمایت سے کامیاب ہوئے۔ صوبائی اسمبلی کی چالیس سے زائد نشستوں پر بھی یہی صورت حال ہے۔ بھکر کی نشست کے لیے وزیر اعلیٰ پنجاب خود ہماری حمایت حاصل کرنے کے لیے آئے۔ سندھ میں بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی سمیت کئی پارٹیوں نے ہمارے لوگوں کو ٹکٹ جاری کیے۔‘‘

جیش محمد کے مرکز بہاولپور سے تعلق رکھنے والے تاجر عبدالکریم نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’شہر میں جماعت الدعوة سے منسلک تقریباً سو مساجد کام کررہی ہیں ۔ اس کے علاوہ جیش محمد کی مسجد، جسے کچی مسجد کے نام سے جانا جاتا ہے، اس میں بھی سرگرمیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔ بیس رمضان کے بعد شہر میں ان کے بینرز آویزاں ہو جائیں گے، جن پر زکواة اور فطرانہ انہیں دینے کی اپیلیں لکھی ہوں گی‘‘۔

ایک سوال کے جواب میں عبدالکریم نے کہا، ’’پہلے یہ لوگ کشمیر اور افغانستان کے نام پر چندے مانگتے تھے۔ اب سندھ اور بلوچستان کے قحط اور دوسری قدرتی آفات کے نام پر پیسے مانگتے ہیں۔کچھ ہی سالوں میں جیش محمد کی کچی مسجد چار منزلہ ہوگئی ہے، جب کہ اس تنظیم کا مرکز، جو ملتان بائی پاس پر واقع ہے، وہ بھی بہت بڑا ہے۔‘‘۔

کالعدم تنظیم حرکت الانصار اب انصار الامہ کے نام سے کام کر رہی ہے۔ اس تنظیم کے رہنما فضل الرحمان خلیل دفاع پاکستان کونسل کے مرکزی رہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں۔ انہوں نے حالیہ برسوں میں کونسل کے کئی پروگراموں میں شعلہ بیانی کی۔

اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے وفاقی اردو یونیورسٹی کے شعبہ ابلاغ عامہ کے سابق چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد نے کہا کہ حکومت ان کو نہیں روک سکتی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پاکستانی ریاست کے کچھ عناصر ان جہادی اور مذہبی تنظیموں کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور وہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں چاہتے۔ اس کے علاوہ نون لیگ کے بھی کئی رہنما کالعدم تنظیموں کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں اور ان سے سیاسی حمایت بھی مانگتے ہیں۔ تو اس صورت حال میں ان کے خلاف کوئی کارروائی کیسے ہوگی؟‘‘۔

DW

Comments are closed.