تم قتل کرو ہو۔۔۔ کہ کرامات کرو ہو

Asif Javaid4

آصف جاوید۔ ٹورنٹو

بائیس جون کو کراچی میں عالمی شہرت یافتہ قوّال جناب امجد صابری قوّال، ایک دہشت گرد حملے میں بہیمانہ طور پر قتل کردئے گئے۔ امجد صابری قوّال اپنی گاڑی میں کراچی کے علاقے لیاقت آباد سے گزر رہے تھے کہ اچانک موٹر سائیکل پر سوار دو نقاب پوش حملہ آوروں نے ان کی گاڑی پر فائرنگ کر دی جس سے وہ اور گاڑی میں موجود ایک اور شخص شدید زخمی ہو گئے۔ دہشت گردوں نے ان کی گاڑی پر متعدد گولیاں چلائیں۔ اور وہ موقعہ پر ہی شہید ہوگئے۔ عینی شاہدین کے مطابق ایک موٹر سائیکل پر دو مسلح نقاب پوش دہشت گرد سوار تھے۔ گاڑی آہستہ ہونے پر موٹر سائیکل پر پچھلی نشست پر بیٹھے دہشت گرد نے گاڑی کے فرنٹ اور پھر سائیڈ سے فائرنگ کی۔ دہشت گردوں نے اطمینان سے کارروائی کی اور موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

امجد صابری صرف ایک فنکار ہی نہیں تھے، بلکہ ایک درد مند اور غریب پرور انسان، اور دوستوں کے دوست تھے، وہ برِّ صغیر کے مشہور قوّال گھرانے کے فرزند تھے، انکے والد غلام فرید صابری اور چچا مقبول فرید صابری فنِ قوّالی کے بے تاج بادشاہ تھے۔انکا پورا گھرانہ فنِ قوّالی میں عالمی شہرت رکھتا تھا، پورے ملک کی عوام کو ان سے بے پناہ پیار تھا۔ وہ صوفی طبعیت، سادہ مزاج اور پر مسرّت شکل و صورت ، نرم لب ولہجے کے مالک آدمی تھے۔ پورے ملک میں، بلکہ پوری دنیا میں مقبول تھے، اب ہم میں نہیں ۔ مگر ہمیشہ ہمارے دلوں میں رہیں گے۔

امجد صابری اپنی ناگہانی موت سے اس کہاوت کو سچ ثابت کر گئے کہ دلوں میں ہمیشہ زندہ رہنے کے لئے ایک بار مرنا پڑتا ہے۔ اب امجد تو نہیں مگر اب صرف امجد کی داستان ہی رہے گی۔ اب ہم امجد کے تذکرے ہی کرتے رہیں گے۔ اس تناظر میں مجھے اپنے شہر ٹورونٹو میں مقیم معروف ترقّی پسند اور انسان دوست شاعر جناب عرفان ستّار کا ایک شعر یاد آگیا ہے کہ

تجھے یہ ضد ہے مگر اس طرح نہیں ہوتا

کہ تو بھی زندہ رہے، داستاں بھی زندہ رہے

سنا جارہا ہے کہ کافی دنوں سے ان کو دہشت گردوں کی جانب سے دھمکیوں کا سامنا تھا، اسٹیبلشمنٹ کی بنائی ہوئی ایک سیاسی جماعت کی جانب سے ان پر دباو ڈالا جارہا تھا کہ وہ اس میں شامل ہوجائیں، یا اسکو سپورٹ کریں۔ حکم عدّولی کی صورت میں یہ بھی کہا جارہا تھا کہ عید سے قبل ایک بڑی وکٹ گرادی جائے گی، اور آج وہ وکٹ گرادی گئی۔ ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستارصاحب نے انکشاف کیا ہے کہ امجد صابری نے ایم کیو ایم کے دوستوں اور ذمّہ داروں سے یہ بات ایک ہفتے پہلے شیئر کی تھی کہ انہوں نے کسیکا پروگرام کرنے سے انکار کردیا تھا کیوں کہ وہاں جاکر پروگرام کرنا ان کے مزاج اورنظریات کے خلاف تھا۔

اس تناظر میں ہمارا یہ کہنا ہے کہ اورجب تحقیقاتی ادارے اس معاملے کی تحقیقات کریں تو یہ معاملہ بھی اپنے سامنے رکھیں۔ مگر ہمارے نااہل تفتیش کار وں نے پہلے مرحلے پر ہی تفتیش کو مشکوک بنادیا ہے، تفتیش کا رخ بدلنے کے لئے مضحکہ قسم کی فائنڈنگس عوام کے سامنے لائی جارہی ہیں۔ ایک خاکہ میڈیا پر جاری کیا گیا ہے جس میں ایک شکل دکھا کر کہا جارہا ہے کہ یہ وہ شکل ہے جو ستّر فیصد قاتل سے مل رہی ہے۔ ۔ حالانکہ امجد صابری کے قتل کے کچھ دیر بعد سے ہی میڈیا پر مسلسل یہ خبریں چل رہی تھیں کہ قاتلوں نے رومال سے چہرہ چھپایا ہوا تھا۔ اس بنیاد کوئی بھی ذی شعور یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہے کہ قاتل کا خاکہ کس بنیاد پر تیّار کیا گیا تھا؟ یہ کیسے معلوم ہوا کہ قاتل اردو اسپیکنگ تھا؟ کیا قاتل نے خود بتایا تھا کہ اس کا تعلّق دہلی یا لکھنئو سے ہے؟ کیا کراچی میں دیگر قومیتوں کے لوگ اردو نہیں بولتے؟ کیا اسٹیبلشمنٹ کی پروردہ ایجنسیوں کے لوگ اردو نہیں بولتے؟

یہ بے شرم لوگ قوم کو پھر گمراہ کررہے ہیں۔ صرف اپنے مقاصد اور کراچی پر رینجرز کے قبضے کو یقینی اور پائیدار بنانے کے لئے، مال بٹورنے، اور مال بنانے، پٹرول پمپ چلانے، شادی ہال چلانے اور واٹر ہائیڈرینٹ سے ٹینکروں کے ذریعے پانی فروخت کر کے روپیہ بنانے، سادہ لباس میں مہاجر نوجوانوں کو اغوا کرکے ان کی رہائی کے بدلے تاوان طلب کرنے میں ان کی ساری توانائیاں مصروفِ عمل ہیں۔ یہی وہ بنیاد ہے جس کی بنیاد پر کراچی کو مکمل یرغمال بنا یا ہوا ہے۔ ایک شوشے کے بعد دوسرا شوشہ، پھر تیسرا شوشہ اور پھر فائل بند۔ یہ کبھی کوئی دلیل یا کوئی ثبوت عدالت میں پیش نہیں کرسکے۔ کبھی اصل مجرموں کو عدالت کے سامنے پیش کرکے منطقی انجام تک نہیں پہنچا سکے۔

ان کے ہاتھوں پورا کراچی یرغمال ہے، ہر آواز خاموش کردی جاتی ہے۔ چاہے اس کا تعلّق سیاسی ہو یا نہ ہو، جو بھی حکم عدّولی کرتا ہے، یا غیر مرئی اشاروں پر چلنے سے اجتناب برتتا ہے، یا جو بھی مفادات کے حصول میں آڑے آتا ہے، اس کو خاموش کروادیا جاتا ہے۔ چاہے وہ سبطِ جعفر ہو، پروین رحمان ہو، سبین محمود ہو، خرّم ذکی ہو یا امجد صابری ہو۔

حالانکہ تحریک طالبان پاکستان محسود اللہ گروپ نے اس قتل کی ذمہ دار ی قبول کر لی ہے۔مگر چونکہ ہم نے اپنی آنکھوں سے ڈھاکہ کو ڈوبتے دیکھا ہے۔ بنگالیوں کے ساتھ ظلم و زیادتیوں، نا انصافیوں اور ریاستی مظالم کو اپنی گناہ گار آنکھوں سے دیکھا ہے۔ کل کے مشرقی پاکستان کو آج کا بنگلہ دیش کو بنتے دیکھا ہے، اس وقت کی ریاست کے بیانئے کو دیکھا ہے۔ لہذا ب ہمارا گمان اس یقین میں بدل چکا ہے کہ مقتدر حلقوں کی جانب سے کراچی کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ تفتیشی اداروں کی جانب سے جاری ہونے والے خاکے کی بنیاد پر ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اب کراچی کے مقدّر کا فیصلہ صرف اپنے طے شدہ انجام تک لے جانے کی کوششیں شعوری طور پر تیز کردی گئی ہیں۔

امجد قادری کے قاتل

تفتیش کے بیانیہ کی پہلی قسط کے مندرجات میں طے کردیا گیا ہے کہ قاتل اردو اسپیکنگ ہے۔

بنگلہ دیش کے قیام سے قبل بھی یہی حالات تھے۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے تمام دانشور سطح کے بنگالی قوم پرست اساتذہ کو تو اجتماعی طور پر قتل کردیا گیا تھا، ان کی تو اجتماعی قبریں تک دریافت ہوچکی ہیں۔ تمام بنگالی ڈاکٹرز، انجنیئرز، پروفیسرز، دانشور اور صنعتکار، تاجر، سول سوسائٹی کے لوگوں اور دیگر معروف افراد کو چن چن کر قتل کردیا دیا جاتا تھا۔ مگر طے شدہ ریاستی بیانیے کے مطابق وطن کے محافظ ، طوائف صفت صحافیوں، اور اسلامی جماعتوں کے مولویوں کے ساتھ مل کر بنگالیوں کی واحد نمائندہ سیاسی جماعت عوامی لیگ کو ہی اس کا ذمّہ دار قرار دیتے تھے۔ اور بنگالیوں کی نمائندہ جماعت جو مشرقی پاکستان میں انتخابات میں کلین سوئپ کرچکی تھی، اس کو اقتدار دینے سے انکار کرتے تھے۔ کہا جاتا تھا کہ مغربی پاکستان سے کوئی بھی ممبر قومی اسمبلی اگر ڈھاکہ گیا تو اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی۔

لیکن نتیجہ کیا نکلا ؟ 16 دسمبر سنہ 1971 کو پوری دنیا نے دیکھ لیا۔

اب یہی عمل کراچی میں مہاجروں کی نمائندہ جماعت ایم کیو ایم کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ ڈیڑھ سال ہوگئے بلدیاتی انتخابات کو ، مگر کراچی کی شہری حکومت کے منتخب میئر کو اب تک اختیار نہیں دیا گیااور اسکو شہری حکومت بنانے نہیں دی جارہی ہے۔ ایم کیو ایم پر ریاست نے غیر اعلانیہ اور اعلانیہ پابندی لگا رکھی ہے، ایم کیو ایم پر 1992 سے یہ تیسرا ریاستی آپریشن ہے، 30 ہزار سے زیادہ نوجوانوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔

کوئی50ہزار سے زیادہ نوجوان لاپتہ یا دربدر ہیں، نقاب پوش رینجرز کے جوان ، مہاجر نوجوانوں کو رات کی تاریکیوں میں گھروں سے اٹھا کر لے جاتے ہیں، پھر ان کو زمین کھا جاتی ہے یا آسمان نگل جاتا ہے کچھ پتا نہیں چلتا، روپوشیاں، زیرِ حراست تشدّد، ماورائے عدالت قتل، اور مسخ شدہ لاشیں مہاجروں کا مقدّر بن چکی ہیں۔

متعصّب ایسٹیبلشمنٹ نے اپنے پالے ہوئے جہادی دہشت گردوں اور مذہبی انتہا پسندوں کو مہاجر ٹیلنٹ کی نسل کشی کا لائسنس جاری کردیا ہے۔ پاکستان کی بے ضمیر اور متعصّب ایسٹیبلشمنٹ کے پالے ہوئے جہادی دہشت گردوں اور مذہبی انتہا پسندوں کے ہاتھوں مہاجر ٹیلنٹ کی نسل کشی کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی مہاجر ڈاکٹرز انجینئرز، پروفیسرز، وکلاء، صنعتکار، تاجر، مہاجر کمیونٹی سے تعلّق رکھنے والے سول سوسائٹی کے لوگ کراچی میں قتل ہو تے رہے ہیں۔ پہلے ہائی پروفائل مہاجر اہلِ تشیع کی ٹارگٹ کلنگ شروع ہوئی، اب تمام اعلیپائے کے مہاجروں (ہائی پروفائل شہریوں) کے قتل کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔

امجد صابری کا قتل پاکستان کی اشرافیہ اور متعصب ایسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں مہاجر نسل کشی کے ایک نہ رکنے وا لے سلسلہ کی ایک کڑی ہے۔ جو ایوب دور سے بھٹو دور، پھر ضیاءالحق کے دور اور پھر 1992 سے آج کی تاریخ تک جاری ہے۔ ہماری ایسٹیبلشمنٹ نہایت ہی ذہین ہے، خود کچھ نہیں کرتی، مگر جو کچھ بھی کرواتی ہے کمالِ مہارت سے کرواتی ہے اس ہی لئے تو ڈاکٹر کلیم عاجز نے کہا تھا کہ

دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ

تم قتل کرو ہو۔۔۔ کہ کرامات کرو ہو

کراچی کی صورتحال پر یہ بھی پڑھیں

ڈاکٹر عمران فاروق کا قاتل کون؟

3 Comments