منٹو کی غلط تعبیر۔آخری حصہ

اجمل کمال

0،2345

۔(۹) اس کے بعد عسکری اس بات پر توجہ دیتے ہیں کہ منٹو کی سابقہ تحریروں کے تناظر میں اس نئی کتاب کی معنویت کا تعین کیا جائے۔ لیکن ان کی مجبوری یہ ہے کہ دو برس پہلے تمام نئے ادب کو دریابُرد کرتے ہوے انھوں نے منٹو کی کسی تحریر کو سنبھال کر نہیں رکھا تھا۔ اس لیے وہ ان غرقاب تحریروں کے بارے میں فقط عمومی قیاس آرائی ہی کر سکتے ہیں۔ فرماتے ہیں:۔

۔’’منٹو کے افسانوں میں آپ انسانوں کے مختلف شکلوں میں دیکھتے رہے ہیں، انسان بہ حیثیت طوائف کے، انسان بہ حیثیت تماش بین کے‘‘۔

اس بصیرت کی گہرائی کی داد نہیں دی جا سکتی۔ یہ بات بالکل ممتاز شیریں کے اس انکشاف کی ٹکر کی ہے کہ ’’منٹو کے افسانوں میں عورت ترغیب مجسم ہے‘‘ (آخر شاگرد بھی استاد کو ایک آدھ پینترا سکھا ہی سکتا ہے)۔ عسکری طوالت کے خوف سے شاید انسانوں کی اور قسموں کی طرف اشارہ نہیں کر سکے جو منٹو کے افسانوں میں ملتی ہیں، مثلاً انسان بطور کوچوان، انسان بطور ’’رانیں کھجلاتا ہوا نوخیز لونڈا جو بلوغت کے بھتنے کے اثر سے بدحواس ہو کر روزنوں سے جھانکتا پھرتا ہے‘‘، انسان بطور سات منزلہ عمارت کے نیچے کھڑے ہو کر گالی دینے والا نعرہ باز، وغیرہ۔ کچھ اور نہ بھی ہو تو عسکری کو اس ’’مقبول ترین‘‘ تصور کا پیش رو سمجھا جاسکتا ہے کہ منٹو کے افسانے طوائفوں اور تماش بینوں کے بارے میں ہوتے ہیں۔ اور اس بات سے تو مرحوم مظفر علی سید بھی اتفاق کر لیتے کہ یہ منٹو کے افسانوں کا ’’صحیح ترین‘‘ تصور نہیں ہے۔

خیر، تو منٹو کی سابقہ تحریروں کا اس بے مثال بصیرت کے ساتھ تصفیہ کر کے عسکری ’’سیاہ حاشیے‘‘ پر آتے ہیں:۔

۔’’ان افسانوں میں آپ انسان ہی دیکھیں گے۔ فرق یہ ہے کہ یہاں انسان کو ظالم یا مظلوم کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے‘‘۔

اگر ’’سیاہ حاشیے‘‘ فسادات کے موضوع پر لکھے جانے والے ادب یا غیرادب کے عسکری کے ایجادکردہ تصور پر پوری اترتی ہے تو انھیں کہنا چاہیے تھا کہ اس کتاب میں ہندوؤں اور سکھوں کو ظالم اور مسلمانوں کو مظلوم کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے، تبھی وہ ’’سیاہ حاشیے‘‘ اور فسادات کے موضوع پر لکھے گئے دوسرے ادیبوں کے افسانوں میں امتیاز کی نشان دہی کر سکتے تھے۔ پتا نہیں انھوں نے یہ بات کیوں نہیں کہی۔

۔(۱۰) آگے چل کر فرماتے ہیں:۔

’’اور فسادات کے مخصوص حالات میں سماجی مقصد کا تو منٹو نے جھگڑا ہی نہیں پالا۔ اگر تلقین سے آدمی سدھر جایا کرتے تو مسٹر گاندھی کی جان ہی کیوں جاتی۔ منٹو کے افسانوں کے اثرات کے بارے میں نہ زیادہ غلط فہمیاں ہیں نہ انہوں نے ایسی ذمہ داری اپنے سر لی ہے جو ادب پوری کر ہی نہیں سکتا‘‘۔

یہ اقتباس ’’سیاہ حاشیے‘‘ لکھتے وقت منٹو کے منشا سے بحث کرتا ہے۔ کسی تحریر کے متن کی معنویت کو سمجھنے کے لیے، شمس الرحمٰن فاروقی نے ’’شعر شور انگیز‘‘ میں ہمیں بڑی تفصیل سے بتایا ہے، مصنف کے منشا کا پتا لگانا ضروری نہیں ہے۔ عسکری کا نکتہ میرے خیال میں یہ ہے کہ منٹو کا منشا فسادات کے موضوع پر لکھنے والے کسی دوسرے ادیب کے منشا سے مختلف ہے۔ اگر ان کی بات کو، جو بےدلیل ہے، درست مان بھی لیا جائے تو ان کے نکالے ہوے اس نتیجے سے اتفاق کرنا مشکل ہے کہ کوئی ادیب اگر اس غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ اس کے افسانوں کے اثر سے فسادات بند ہو جائیں گے (یا ’’تلوار کا وار قلم پر روکا جا سکے گا‘‘) تو اس کے افسانوں کی ادبی کامیابی کا امکان ختم ہو جاتا ہے۔

یہاں گاندھی کے نام سے پہلے ’’مسٹر‘‘ کے لفظ کا استعمال قابل غور ہے۔ اگرچہ عسکری نے اس کے بعد، بقول چراغ حسن حسرت، بریکٹ میں یہ نہیں بتایا کہ یہ طنز ہے، لیکن غالباً یہ طنز ہی ہے۔ (اس طنز سے وہ ’’مسٹر‘‘ ابوالکلام آزاد کو بھی کئی بار خاک میں ملا چکے ہیں۔) ایک اور طنز منٹو نے کیا ہے کہ ’’سیاہ حاشیے‘‘ کے پہلے ہی جز کو، جو گاندھی کی موت پر امرتسر، گوالیار اور بمبئی میں شیرینی کی تقسیم کی خبر پر مشتمل ہے، ’’ساعتِ شیریں‘‘ کا عنوان دیا ہے۔

۔(۱۱) منٹو کے منشا کے بارے میں فتویٰ جاری کرنے کے بعد عسکری ’’سیاہ حاشیے‘‘ کی تشریح کے اصل کام کی طرف آتے ہیں:۔

’’سچ پوچھیے تو منٹو نے ظلم پر بھی کوئی خاص زور نہیں دیا۔ انہوں نے چند واقعات تو ضرور ہوتے دکھائے ہیں مگر یہ کہیں نہیں ظاہر ہونے دیا کہ یہ واقعات یا افعال بنفسہٖ اچھے ہیں یا برے۔ نہ انہوں نے ظالموں پر لعنت بھیجی ہے نہ مظلوموں پر آنسو بہائے ہیں۔انہوں نے یہ تک فیصلہ نہیں کیا کہ ظالم لوگ برے ہیں یا مظلوم اچھے ہیں‘‘۔

ابھی پچھلے صفحے پر عسکری کہہ چکے ہیں کہ منٹو کے سوا دوسرے افسانہ نگار ظلم کو ظلم کہنے کی طاقت نہیں رکھتے اور یہ ان کی بہت بڑی خامی ہے۔ اب وہ کہہ رہے ہیں کہ ’’سچ پوچھیے تو‘‘ منٹو نے ظلم پر بھی ’’کوئی خاص‘‘ زور نہیں دیا، اور ان کے خیال میں یہ منٹو کی خوبی ہے۔ یہ پوچھنا تو حسبِ معمول بےسود ہو گا کہ ظلم پر ’’کوئی خاص‘‘ زور دینے یا نہ دینے کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ منٹو نے اس کتاب میں کہیں ’’ظالموں پر لعنت‘‘ یا ’’مظلوموں کے لیے دعاے مغفرت‘‘ کی قسم کے نعرے نہیں لگائے، لیکن انھوں نے اپنی کتاب کا نام ’’سیاہ حاشیے‘‘ رکھا ہے جو اس بات کی بہت واضح اشارہ ہے کہ وہ فسادات میں ہونے والے ’’چند واقعات یا افعال‘‘ کو بنفسہٖ اچھا سمجھتے ہیں یا برا۔

۔(۱۲) اس کے فوراً بعد عسکری کہتے ہیں:۔

۔’’براعظم ہندوستان کے یہ فسادات ایسی پیچیدہ چیز ہیں، اور صدیوں کی تاریخ سے، صدیوں آگے کے مستقبل سے، اس بری طرح الجھے ہوئے ہیں کہ ان کے متعلق یوں آسانی سے اچھے برے کا فتویٰ نہیں دیا جا سکتا۔ کم سے کم ایک معقول ادیب کو یہ زیب نہیں دیتا کہ ایسے ہوش اڑا دینے والے واقعات کے متعلق سیاسی لوگوں کی سطح پر اتر کر فیصلے کرنے لگے‘‘۔

اس اقتباس کو بہت غور سے پڑھنے کی ضرورت ہے۔ منٹو کے ادبی طریق کار پر تبصرہ کرتے کرتے انہوں نے اچانک فسادات کے ’’اچھا یا برا‘‘ ہونے کے فیصلے کی بابت اپنا ذاتی خیال پیش کر دیا ہے۔ عسکری کے اس خیال کی رو سے فسادات ’’اچھے‘‘ بھی ہو سکتے ہیں اور ’’برے‘‘ بھی، اور اس بات کا فیصلہ کرنا کہ فسادات کس قسم کے ہیں، کسی ’’معقول‘‘ ادیب کی سطح سے فروتر ہے۔ انسان کے تخیل کی کوئی پرواز فسادات کے ’’اچھا‘‘ ہونے کا امکان بھی تسلیم کر سکتی ہے، اس خیال کی غیرانسانی ’’سنگ دلی‘‘ سے فی الحال قطع نظر کیجیے۔ اس وقت میں صرف اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں، حالانکہ یہ اتنی سامنے کی بات ہے کہ عام حالات میں اس پر زور دینے کی ضرورت ہونی ہی نہیں چاہیے، کہ فسادات کو موضوع بنانے والے ہر ’’معقول‘‘ ادیب کی طرح منٹو کی کسی تحریر میں اس قسم کا کوئی ابہام نہیں ملتا کہ فسادات ’’اچھے‘‘ ہوتے ہیں یا ’’برے‘‘۔ اس کے برعکس منٹو نے تو فسادات کے واقعات کو ’’صدیوں کی تاریخ‘‘ میں الجھانے اور ’’سیاسی لوگوں کی سطح پر اتر آنے‘‘ والوں پریوں تبصرہ کیا ہے:۔

۔’’ہندو اور مسلمان دھڑادھڑ مر رہے تھے۔ کیسے مر رہے تھے؟ کیوں مر رہے تھے؟ ان سوالوں کے مختلف جواب تھے، ہندوستانی جواب، پاکستانی جواب، انگریزی جواب۔ ہر سوال کا جواب موجود تھا، مگر اس جواب میں حقیقت تلاش کرنے کا سوال پیدا ہوتا تو اس کا کوئی جواب نہ ملتا۔ کوئی کہتا، اسے غدر کے کھنڈروں میں تلاش کرو۔ کوئی کہتا، نہیں یہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت میں ملے گا۔ کوئی اور پیچھے ہٹ کر اسے مغلیہ خاندان کی تاریخ میں ٹٹولنے کے لیے کہتا۔ سب پیچھے ہی پیچھے ہٹتے جاتے تھے اور قاتل اور سفاک برابر آگے بڑھتے جا رہے تھے اور لہو اور لوہے کی ایسی تاریخ لکھ رہے تھے جس کا جواب تاریخ عالم میں کہیں بھی نہیں ملتا تھا۔‘‘

منٹو کا ذکر کرتے کرتے عسکری نے اپنا یہ خیال ظاہر کیا کہ فسادات ’’صدیوں پرانی تاریخ میں الجھے ہوئے ہیں‘‘ اور ’’معقول‘‘ ادیبوں کا یہ کام نہیں کہ وہ فسادات کو ’’اچھا‘‘ یا ’’برا‘‘ کہیں، اور اس کے فوراً بعد دوبارہ منٹو کا تذکرہ شروع کیا۔

۔(۱۳) کہتے ہیں:۔

۔’’منٹو نے وہی کیا ہے جو ایک ایمان دار (سیاسی معنوں میں ایماندار نہیں بلکہ ادیب کی حیثیت سے ایماندار) اور حقیقی ادیب کو ان حالات میں اور ایسے واقعات کے اتنے تھوڑے عرصے بعد لکھتے ہوئے کرنا چاہیے‘‘۔

اس جملے میں صرف یہ بات قابل تبصرہ ہے کہ عسکری نے یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی ہے کہ ادیب کی حیثیت سے ایماندار ہونا اور سیاسی طور پر ایماندار ہونا دو مختلف باتیں ہیں اور ان کے درمیان تضاد کا تعلق ہونا بھی خارج از امکان نہیں ہے۔ یہ تقریباً وہی منقسم شخصیت والا نظریہ ہے جو عسکری نے ’’فسادات اور ہمارا ادب‘‘ میں پیش کیا تھا (گویا ’’چوری میرا پیشہ ہے اور نماز میرا فرض‘‘ کا عسکری زبان میں ترجمہ فرمایا تھا)۔ منٹو کا بہرحال اس عجیب الخلقت اور ریاکارانہ نظریے سے ہرگز کوئی تعلق نہیں۔ یہ بات اگر منٹو کی تحریروں کے اوپر دیے گئے اقتباسات سے پوری طرح واضح نہیں ہو سکی ہے تو آگے آنے والے اقتباسات سے ہو جائے گی۔

۔(۱۴) اس کے بعد عسکری کہتے ہیں:۔

۔’’انہوں نے نیک وبد کے سوال ہی کو خارج از بحث قرار دے دیا ہے۔ ان کا نقطۂ نظر نہ سیاسی ہے نہ عمرانی نہ اخلاقی بلکہ ادبی اور تخلیقی‘‘۔

منٹو کے لیے فسادات میں حصہ لینے والوں کے ’’نیک‘‘ یا ’’بد‘‘ اور ’’اچھے‘‘ یا ’’برے‘‘ ہونے کے سوال واقعی خارج از بحث ہیں۔ فسادات کے— صرف اور محض، بنفسہٖ اور ’’غیر بنفسہٖ ‘‘ — بُرا ہونے میں منٹو کو ہرگز کوئی شبہ نہیں ہے۔ منٹو کے لیے اصل اذیت ناک بات وہی ہے جو فسادات کے موضوع پر لکھنے والے دوسرے ’’حقیقی‘‘ اور ’’ایماندار‘‘ ادیبوں کی اذیت کا سبب ہے، یعنی یہ کہ عام لوگ، جو عام حالات میں قتل و خون کا مشغلہ اختیار نہیں کرتے، آخر اس طرح کے (’’برے‘‘) افعال پر کیونکر آمادہ ہو گئے؟ اس اذیت ناک سوال کا جواب تلاش کرتے ہوے منٹو کا نقطۂ نظر یقینا ادبی اور تخلیقی ہے، اس میں کسی کو کیا شبہ ہو سکتا ہے! اس سوال کے ’’سیاسی‘‘ جواب منٹو کو مطمئن نہیں کرتے کیونکہ یہ جواب انھیں ’’پاکستانی‘‘، ’’ہندوستانی‘‘ یا ’’انگریزی‘‘ نقطۂ نظر تک محدود، اور اس سبب سے غیرایماندارانہ، معلوم ہوتے ہیں۔ ’’عمرانی‘‘ اور ’’اخلاقی‘‘ نقطہ ہاے نظر سے پتا نہیں عسکری کی مراد کیا ہے۔ اگر اس سے ان کا مطلب یہ ہے کہ منٹو کی تحریروں سے مختلف عمرانی یا اخلاقی سوالوں کی بابت ان کے مخصوص نقطۂ نظر کا سراغ نہیں مل سکتا تو یہ خیالِ خام ہے یا پھر منٹو کی غلط تعبیر کی دانستہ کوشش، اور اس کی تردید کچھ آگے چل کر عسکری کے اپنے اس بیان سے ہو جاتی ہے:۔

۔’’چونکہ منٹو کے افسانے سچی ادبی تخلیقات ہیں اس لیے یہ افسانے ہمیں اخلاقی طور پر بھی چونکاتے ہیں حالانکہ منٹو کا بنیادی مقصد یہ نہیں تھا‘‘۔

منو کے بنیادی اور ضمنی مقاصد کے بارے میں تو خیر عسکری کو علم غیب حاصل ہی ہے، لیکن بہرحال ان کے اس اعتراف سے یہ بات ضرور واضح ہو جاتی ہے کہ ’’سیاہ حاشیے‘‘ میں (اور میرے نزدیک فسادات اور دیگر موضوعات پر اپنی ہر تحریرمیں) منٹو کا اخلاقی نقطۂ نظر کسی ابہام کے بغیر سامنے آتا ہے اور یہ حقیقت بھی کہ یہ اخلاقی نقطۂ نظر ان کی تحریریں پڑھ کر چونکنے اور برافروختہ ہونے والوں کے اخلاقی نقطۂ نظر سے مختلف ہے۔ برسبیل تذکرہ، منٹو نے رائج الوقت اخلاقی تصورات کو صرف ’’سیاہ حاشیے‘‘، ’’کھول دو‘‘ اور ’’ٹھنڈا گوشت‘‘ میں نہیں بلکہ ’’ہتک‘‘، ’’خوشیا‘‘ اور ’’کالی شلوار‘‘ میں بھی چیلنج کیا ہے۔ یہاں میں جان بوجھ کر ’’ہتک‘‘، ’’خوشیا‘‘ اور ’’کالی شلوار‘‘ کا ذکر اس لیے کر رہا ہوں کہ یہ کہانیاں عسکری کی ’’حاشیہ آرائی‘‘ سے پہلے لکھی اور چھاپی جا چکی تھیں اور منٹو کی معروف تحریروں میں اُس وقت بھی شامل تھیں۔

بہرحال، یہاں عسکری کا یہی خیال ہے کہ منٹو نے ’’نیک وبد‘‘ کے سوال ہی کو خارج از بحث قرار دے دیا ہے اور ان کا نقطۂ نظر اخلاقی نہیں ہے۔ جون ۱۹۴۹ کی ’’جھلکیاں‘‘ میں انھوں نے ایک اور بصیرت افروز انکشاف کیا:۔

۔’’پاکستان بننے کے بعد ان کی افسانہ نگاری میں شدید تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ ممکن ہے ان تبدیلیوں کے محرکات ایک سے زیادہ اور گوناگوں ہوں، مگر میرے خیال میں پاکستان کے وجود میں آنے کا اثر بھی ان کی طبیعت پر بہت گہرا پڑا ہے، مثلاً ایک تو ان کی اخلاقی حس بڑی شدید ہو گئی ہے اور وہ سطح پر رہ کر نہیں بلکہ زندگی کی گہرائیوں میں پہنچ کر نیک وبد کے متعلق واضح فیصلے کرنے لگے ہیں۔ اس کی ایک شہادت ہم نے ’کھول دو‘ میں دیکھی ہے، دوسری طرف دونوں کی شخصیت کا اندر سے جائزہ لیا ہے اور ان کے خارجی افعال کو بالکل نئے پس منظر میں پیش کیا ہے‘‘۔

آپ ہی بتائیے کہ ان ’’الٹی سیدھی زقندوں‘‘ سے کیا مطلب اخذ کیا جائے؟

۔(۱۵)عسکری کا اگلا نکتہ منٹو کی فنی تدابیر سے تعلق رکھتا ہے:۔

’’منٹو نے تو صرف یہ دیکھنے کی کوشش کی ہے کہ ظالم یا مظلوم کی شخصیت کے مختلف تقاضوں سے ظالمانہ فعل کا کیا تعلق ہے؟ ظلم کرنے کی خواہش کے علاوہ ظالم کے اندر اور کون کون سے میلانات کارفرما ہیں، انسانی دماغ میں ظلم کتنی جگہ گھیرتا ہے، زندگی کی دوسری دلچسپیاں باقی رہتی ہیں یا نہیں؟ منٹو نے نہ تو رحم کے جذبات بھڑکائے ہیں نہ غصے کے نہ نفرت کے، وہ تو آپ کو صرف انسانی دماغ، انسانی کردار اور شخصیت پر ادبی اور تخلیقی انداز سے غور کرنے کی دعوت دیتے ہیں۔ اگر وہ کوئی جذبہ پیدا کرنے کی فکر میں ہیں تو صرف وہی جذبہ جو ایک فن کار کو جائز طور پر پیدا کرنا چاہیے۔۔۔۔ یعنی زندگی کے متعلق بے پایاں تحیر اور استعجاب۔ فسادات کے متعلق جتنا بھی لکھا گیا ہے اس میں اگر کوئی چیز انسانی دستاویز کہلانے کی مستحق ہے تو یہ افسانے ہیں‘‘۔

اپنے کرداروں سے فن کا رانہ علیحدگی اور معروضی اندازِ نظر کی خصوصیت منٹو کی دوسری تحریروں کی طرح ’’سیاہ حاشیے‘‘ میں بھی ملتی ہیں۔ یہ ایک باشعور فنکار کی اختیارکردہ تکنیکی دوری ہے تاکہ پڑھنے والے کرداروں اور واقعات کو لکھنے والے کے جذبات کی آمیزش کے بغیر معروضی طور پر دیکھ سکیں۔ یہ منٹو کا فنی طریق کار ہے جسے عسکری ان کی اخلاقی بے نیازی کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں۔ ’’نیا قانون‘‘، ’’ہتک‘‘، ’’کالی شلوار‘‘ اور ’’بابو گوپی ناتھ‘‘ میں بھی منٹو نے کرداروں اور واقعات کو اسی محتاط فنی علیحدگی کے ساتھ بیان کیا ہے لیکن پڑھنے والے کو یہ محسوس کرنے میں دقت نہیں ہوتی کہ منٹو ان کرداروں کی بابت ایک واضح اخلاقی نقطۂ نظر رکھتے ہیں۔

اپنے اس نقطۂ نظر کو صاف صاف لفظوں میں بیان کرنے کی ضرورت منٹو کو کم ہی پیش آتی ہے، لیکن کیا اس بارے میں کسی طرح کے ابہام کی کوئی گنجائش ہے کہ منٹو نے منگو کوچوان، سوگندھی، سلطانہ اور بابو گوپی ناتھ کو کوڑا کرکٹ سمجھنے والے اخلاقی نقطۂ نظر کو باقاعدہ چیلنج کیا ہے؟

ان افسانوں کی طرح ’’سیاہ حاشیے‘‘ کے پاروں میں بھی منٹو نے اپنی فنی علیحدگی قائم رکھی ہے بلکہ طنز کے استعمال سے اپنی معروضیت کو مزید مستحکم کیا ہے، لیکن عسکری منٹو کے اس فنی طریق کار کی تشریح یوں کرنا چاہتے ہیں گویا منٹو کو اس سے غرض نہیں کہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ اچھا ہے یا برا۔ اگر منٹو نے ’’رحم، غصے یا نفرت کے جذبات بھڑکانے‘‘ سے گریز کیا ہے تو اس لیے کہ وہ راشدالخیری اور آغا حشر سے بلندتر فنکار ہیں۔ ان طنزیہ پاروں کے مجموعے کو ’’سیاہ حاشیے‘‘ کا بلیغ نام دینے کے بعد اس قسم کی جذباتیت کی کوئی ضرورت بھی نہیں تھی۔

عسکری نے ایک نیا حکم نافذ کر دیا ہے کہ فنکار کے لیے زندگی کے متعلق بےپایاں تحیر اور استعجاب کے سوا کوئی جذبہ پیدا کرنا ناجائز (حرام؟) ہے۔ کیا اس نومولود خیال تک محدود رہ کر مثلاً شیکسپیئر، فلوبیر، چیخوف اور راں بوکی تحسین کی جا سکتی ہے؟ اور کیا اس سے ان فنکاروں کے فنی امتیازات خاک میں نہیں مل جاتے؟ اور کیا تحیر اور استعجاب کے علاوہ ’’شدید اخلاقی ردعمل پیدا کرنا‘‘ ناجائز ہو گیا؟ عسکری جو نظریہ گھڑتے ہیں انھیں اس کے صرف فوری افادی پہلو سے غرض ہوتی ہے، اور یہاں غرض یہ ہے کہ لکھنے والے فسادات کے واقعات کو صرف تحیر اور استعجاب سے آنکھیں مل مل کر دیکھتے رہیں اور یہ بات منھ سے نہ نکالیں کہ ہندو، سکھ اور مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ وحشیانہ برتاؤ کر رہے ہیں اور نہ اس انسانی المیے کے اسباب جاننے کی کوشش کریں۔ ’’سیاہ حاشیے‘‘ میں منٹو کا سب سے نمایاں ہتھیار ان کا طنز ہے اور یہ طنز صرف تحیر اور استعجاب نہیں بلکہ گہرا ضطراب اور شدید اخلاقی ردِعمل بھی پیدا کرتا ہے۔

۔(۱۶) اس کے بعد عسکری کی حاشیہ آرائی آخر تک ان کے اسی اچھوتے خیال کی الٹ پھیر پر مبنی ہے۔ منٹو نے عام انسانوں کے روزمرہ افعال کو فسادات کے وحشیانہ افعال کے پہلو بہ پہلو رکھ کر انسانی فطرت کے بارے میں سوال اٹھائے ہیں۔ عسکری ان سوالوں کا سامنا کرنے سے بچتے ہوے صرف اس عمیق فلسفے تک پہنچنا چاہتے ہیں کہ ’’بھئی انسان کا کچھ ٹھیک نہیں، اچھا بھی ہو سکتا ہے اور برا بھی‘‘، کیونکہ اس قسم کے عرفان سے عسکری کی ’’امید بندھتی‘‘ ہے۔

اس فلسفے تک پہنچنے سے پہلے عسکری نے منٹو کی تکنیک کی ایک خصوصیت بڑی خوبی سے اس فقرے میں بیان کی ہے: ’’دہشت تو اس خیال سے ہوتی ہے کہ جن لوگوں میں صفائی اور گندگی کی تمیز باقی ہے وہ بھی قتل کر سکتے ہیں۔‘‘ مگر اس سے وہ یہ رجائی نتیجہ زبردستی اخذ کرتے ہیں کہ چلو، قتل و غارت کر رہے ہیں تو کیا ہوا، یہی غنیمت ہے کہ صفائی اور گندگی کی تمیز تو اب تک باقی ہے، یعنی یہ لوگ بھٹک کر بہت دور نہیں گئے۔ اگر اسی کو عسکری رجائیت کا نام دیتے ہیں تو یہ ان کی اپنی ایجاد ہے، منٹو سے اس کا کوئی تعلق ’’سیاہ حاشیے‘‘ اور ان کی دوسری تحریروں کے متن سے تو اخذ نہیں کیا جا سکتا۔ جس طرح منٹو نے اس سے پہلے کی تحریروں میں واضح طور پر کہا تھا کہ ہماری مروج، روزمرہ کی اخلاقیات سوگندھی، خوشیا اور بابو گوپی ناتھ کی بابت غلط فیصلوں تک پہنچتی ہے، اسی طرح ’’سیاہ حاشیے‘‘ میں ان کا طنز اتنے ہی واضح طور پر یہ کہتا ہوا معلوم ہوتا ہے کہ ’’صفائی اور گندگی میں تمیز‘‘ کرنے والی، روزمرہ کی اخلاقیات (بشمول مذہبی اخلاقیات) انسان کو وحشیانہ افعال سے روکنے کے لیے قطعاً ناکافی ہے۔ منٹو کا یہ موقف ان کی ’’سیاہ حاشیے‘‘ کے بعد کی تحریروں میں بھی اتنا ہی واضح ہے۔ ’’موذیل‘‘ کے آخری الفاظ کو ذرا یاد کیجیے۔ یہی وجہ ہے کہ منٹو کی تحریریں، عسکری کے بقول، ہمیں اخلاقی طور پر چونکاتی ہیں۔

عسکری کی بات کہ ’’روزمرہ کی معمولی زندگی ایسی طاقتور چیز ہے کہ انسان اگر بہت اچھا نہیں بن سکتا تو بہت برا بھی نہیں بن سکتا، معمولی زندگی اسے ٹھونک پیٹ کے سیدھا کر ہی لیتی ہے‘‘، منٹو کے اخلاقی طنز کو بالکل الٹ کر پیش کرتی ہے۔ منٹو کے طنز کا ہدف — ’’سیاہ حاشیے‘‘ میں بھی اسی طرح جیسے ان کی دوسری تحریروں میں — اچھے اور برے کی رائج الوقت خانہ بندی کی المناک مضحکہ خیزی ہی ہے۔ ان کا واضح اشارہ ہماری روزمرہ زندگی کے دوغلے اخلاقی معیار یا جارج آرویل کی زبان میں ْڈبل تھنکٗ کی طرف ہے جس کی رو سے ہم دوسرے انسان کی جان لے لینے کے انتہائی فعل میں ملوث ہوتے ہوئے بھی خود کو ’’صفائی اور گندگی میں تمیز کرنے‘‘ کے قابل پا کر مطمئن رہ سکتے ہیں اور اسی مسخ شدہ اخلاقیات کے بل پر اپنی اپنی عبادت گاہ سے اپنی عقیدت کو قائم رکھتے ہوے دوسرے کی عبادت گاہ میں سؤر یا گائے کا گوشت فروخت کر سکتے ہیں۔

۔(۱۷) اپنی معکوس منطق اور غلط تعبیر کے سہارے عسکری اپنے اس حتمی فیصلے تک پہنچتے ہیں جسے آج بھی منٹو کی کتابوں کی پشت پر بڑی سادہ لوحی (یا حیلہ سازی) کے ساتھ شائع کیا جاتا ہے:

۔’’منٹو نہ تو کسی کو شرم دلاتا ہے نہ کسی کو راہ راست پر لانا چاہتا ہے۔ وہ تو بڑی طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ انسانوں سے یہ کہتا ہے کہ تم اگر چاہو بھی تو بھٹک کے بہت دور نہیں جا سکتے۔ اس اعتبار سے منٹو کو انسانی فطرت پر کہیں زیادہ بھروسا نظر آتا ہے۔‘‘۔

اگر لاکھوں عام آدمیوں کا ایک دوسرے کو قتل کرنے پر آمادہ ہو جانا بھٹک کر بہت دور جانا نہیں ہے تو پھر واقعی آدمی بھٹک کر کہاں جا سکتا ہے! عسکری کی یہ بات ان کی اس نصیحت کا بدلا ہوا روپ ہے کہ پاکستانی ادیبوں کو چاہیے کہ اس نازک موقعے پر قوم کی ڈھارس بندھائیں۔ بہرحال، یہ رائے عسکری کی ہے، منٹو کی نہیں۔ منٹو کا زہرخند ایسا کوئی دلاسا نہیں دیتا کہ شاباش میرے بچو، اپنے ظلم و ستم کے افعال میں لگے رہو، تم بھٹک کر بہت دور نہیں جا سکتے۔ منٹو کو انسانی فطرت پر یقیناً بھروسا ہے لیکن یہ انسانی فطرت ایشر سنگھ کی انسانیت ہے جو ایک لڑکی لاش کی بےحرمتی کی قیمت اپنی نامردی کی صورت میں ادا کرتا ہے۔ انسانی فطرت کی بابت منٹو کے تصور کو ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘، ’’موذیل‘‘ اور دوسری تحریروں میں بہ آسانی دیکھا جا سکتا ہے۔ انسانی فطرت اور مروج اخلاقیات دو مختلف چیزیں ہیں اور منٹو کا فیصلہ واضح ہے کہ یہ دونوں متضاد ہیں۔

’’خود کو حیوانوں سے کچھ اونچا رکھنے کے لیے انسان نے قتل وغارت گری کے لیے بھی کچھ آداب وقواعد بنا رکھے ہیں۔ لیکن جس قتل و غارت گری کا ہم ذکر کر رہے ہیں، ان آداب و قواعد سے بےنیاز تھی بلکہ یوں کہیے کہ حیوانیت سے بھی یکسر مبرا تھی جس کی تصویر یہ قتل وغارت گر خود بھی نہ کھینچ سکے۔

۔’’اس وقت ہماری نظروں کے سامنے خون کی سوکھی ہوئی پپڑیاں، کٹے ہوئے اعضا، جھلسے ہوئے چہرے، رندھے ہوئے گلے، ٹھٹھری ہوئی جانیں، لٹے ہوئے مکان، جلے ہوئے کھیت، ملبے کے ڈھیر اور بھرے ہوئے ہسپتال ہیں۔ ہم آزاد ہیں۔ ہندوستان آزاد ہے، پاکستان آزاد ہے، اور ہم گرسنگی اور برہنگی، بےسروسامانی و بےحالی کی ویران سڑکوں پر چل پھر رہے ہیں‘‘۔

روزمرہ کی یا رائج الوقت اخلاقیات کی بابت منٹو کے اس تخلیقی فیصلے کی مزید تصدیق ’’گورمکھ سنگھ کی وصیت‘‘ سے بھی ہوتی ہے۔

اس طرح دیکھا جائے تو ’’چغد‘‘ کے دیباچے میں منٹو کی یہ شکایت بلاوجہ نہیں تھی کہ ’’نام نہاد‘‘ ترقی پسندوں نے ’’سیاہ حاشیے‘‘ کو غور سے پڑھنے کی زحمت نہیں کی اور محض اس بنا پر اپنا فیصلہ صادر کر دیا کہ اس کتاب پر عسکری نے دیباچہ لکھا تھا۔ عسکری کے مقلدین نے بھی اس سے کچھ زیادہ بصیرت کا ثبوت نہیں دیا اس لیے کہ ان کی جانب سے ’’سیاہ حاشیے‘‘ کی تحسین دراصل عسکری کی ’’حاشیہ آرائی‘‘ کی مدح سے آگے نہیں گئی۔

ایک پڑھنے والے کی حیثیت سے میری رائے میں ’’سیاہ حاشیے‘‘ سے کوئی معنی اخذ کرنے کے لیے اس کتاب کی ہیئت یا ساخت پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ یہ چھوٹے چھوٹے پارے مل کر ایک مکمل صورت بناتے ہیں جو میرے نزدیک منٹو کے افسانوں سے نہیں بلکہ ان کے طنزیہ مضامین سے مماثل ہے۔ منٹو نے اس ہیئت کو اپنی چند اور تحریروں میں بھی اختیار کیا ہے۔ ان تحریروں میں سے تین — ’’پردے کی باتیں‘‘، ’’پٹاخے‘‘ اور ’’سویرے جو کل آنکھ میری کھلی‘‘ — منٹو کی متفرق ’’نیم افسانوی‘‘ تحریروں کے مجموعے ’’تلخ، ترش اور شیریں‘‘ میں شامل ہیں۔ ’’دیکھ کبیرا رویا‘‘ کے عنوان سے ایک تحریر ’’نمرود کی خدائی‘‘ میں ملتی ہے۔

منٹو کی اسی انداز کی ایک اور تحریر ’’باتیں‘‘ اس لحاظ سے بھی قابل غور ہے کہ یہ ان کے مجموعے ’’منٹو کے مضامین‘‘ (۱۹۴۲ء) میں بھی شامل تھی اور ’’اوپر نیچے اور درمیان‘‘ (۱۹۵۴ء) میں دوبارہ شامل کی گئی۔ اس کی ممکنہ وجہ کا اندازہ اسے پڑھ کر کیا جا سکتا ہے۔ ہیئتی طور پر مماثلت رکھنے کے علاوہ یہ تحریر موضوع کے اعتبار سے بھی ’’سیاہ حاشیے‘‘ کے قریب ہے۔ ’’باتیں‘‘ کا موضوع بھی فسادات ہیں لیکن تقسیم کے دنوں کے نہیں بلکہ اس سے کئی برس پہلے کے فسادات (چند عنوانات: ’’اپنی اپنی ڈفلی‘‘، ’’کرچیں اور کرچیاں‘‘، ’’یوم استقلال‘‘)۔

ان مخصوص تحریروں میں منٹو نے اپنے افسانوں کے برعکس چند کرداروں اور ان کے ساتھ پیش آنے والے چند واقعات کو ایک مربوط پلاٹ کی پابندی کرتے ہوے بیان نہیں کیا ہے۔ ان میں سے ہر تحریر چھوٹے چھوٹے چٹکلوں پر مشتمل ہے۔ ’’پٹاخے‘‘ میں ’’سیاہ حاشیے‘‘ کی طرح ہر پارے کو ایک الگ عنوان دیا گیا ہے، ’’باتیں‘‘ اور ’’پردے کی باتیں‘‘ میں یہ پارے عنوان کے بغیر ہیں لیکن ہر پارے کو الگ الگ رکھا گیا ہے۔ ’’سویرے جو کل آنکھ میری کھلی‘‘ صبح کے وقت سیر کو نکلنے والے ایک شخص کے مشاہدات پر مشتمل ہے جنھیں کہیں تبصرے کے بغیر اور کہیں نہایت دھیمے تبصرے کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ ’’دیکھ کبیرا رویا‘‘ میں ہر چٹکلا کبیر کے تبصرے، یعنی اس کے رونے پر ختم ہوتا ہے سوائے آخری ٹکڑے کے جس کا اختتام کبیر کے ہنسنے پر ہوتا ہے۔ اگر کوئی نقاد ’’سیاہ حاشیے‘‘ کو منٹو کی ان تحریروں کے ساتھ رکھ کر سمجھنے کی کوشش کرے تو شاید پڑھنے والوں کو اس اہم کتاب کی معنویت تک پہنچنے کے لیے ایک آدھہ نیا نکتہ دستیاب ہو جائے۔

جہاں تک فسادات کی بابت منٹو کے ’’ادبی، تخلیقی، سیاسی، عمرانی اور اخلاقی‘‘ نقطۂ نظر کا تعلق ہے، میری رائے میں ’’سیاہ حاشیے‘‘ کو فسادات کے موضوع پر منٹو کی دوسری تحریروں سے الگ رکھ کر دیکھنا نامناسب اور غیرمحتاط رویہ ہے۔ فسادات کا براہ راست ذکر منٹو کے کئی معروف اور کئی کم معروف افسانوں میں آتا ہے۔ ان کی فہرست بنانے کی کوشش کی جائے تو وہ کچھ یوں ہوگی:۔

’’ٹھنڈا گوشت‘‘، ’’گورمکھ سنگھ کی وصیت‘‘، ’’کھول دو‘‘، ’’سہائے‘‘، ’’موتری‘‘، ’’ڈارلنگ‘‘، ’’عزت کے لیے‘‘، ’’شریفن‘‘، ’’ہرنام کور‘‘، ’’وہ لڑکی‘‘، ’’ایک پھسپھسی کہانی‘‘ اور ’’موذیل‘‘۔ شخصی خاکوں پر مشتمل کتاب ’’گنجے فرشتے‘‘ کی کم سے کم دو تحریروں ’’مرلی کی دُھن‘‘ اور ’’اشوک‘‘ میں فسادات کا ذکر آتا ہے۔ ان کے علاوہ کئی مضامین میں منٹو نے غیرطنزیہ انداز میں فسادات اور اس کے متعلقہ پہلوؤں پر اظہار خیال کیا ہے، ’’محبوس عورتیں‘‘، ’’قتل وخون کی سرخیاں‘‘ ایسے مضامین کی مثالیں ہیں۔

منٹو کے کچھ افسانے ایسے بھی ہیں جو براہ راست فسادات سے متعلق نہیں لیکن ان کا موضوع کسی نہ کسی اعتبار سے برصغیر کی تقسیم (منٹو کے بقول ’’بٹوارا‘‘) ہے۔ ’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘، ’’دو قومیں‘‘، ’’یزید‘‘، ٹیٹوال کا کتا‘‘، ’’شہیدساز‘‘ ان افسانوں کی مثالیں ہیں (آخرالذکر دو کہانیوں سے منٹو کا شہادت کا تصور بھی واضح ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ بقولِ عسکری’’ ایمان لائے تھے‘‘)۔

اگر ان تمام تحریروں کو پڑھ کر ان سے فسادات کی بابت منٹو کا نقطۂ نظر مرتب کیا جائے تو وہ میرے خیال میں عسکری کے بیان کردہ نقطۂ نظر سے بہت مختلف ہو گا۔

اور صرف فسادات پر موقوف نہیں، ۱۹۴۷ سے منٹو کی وفات تک قومی زندگی کے ہر اہم معاملے پر منٹو کا موقف عسکری اور ان کے ہم خیالوں کے موقف سے بنیادی طور پر مختلف رہا کیونکہ یہ دونوں ادب، زندگی اور سیاست کے بارے میں دو متضاد رویوں کی نمائندگی کرتے تھے۔ ان اہم برسوں میں، جنھوں نے قوم کے طور پر ہماری اجتماعی سمت اور مستقبل کے معاشرے کے خدوخال متعین کیے، ان دونوں رویوں کی کشمکش متواتر جاری رہی۔ اس کشمکش کو فنکار اور نقاد کی کشمکش کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، اور اس تلخ حقیقت کو پہچانا جا سکتا ہے کہ اس میں فتح نقاد کی ہوئی اور منٹو کو آزادیِ اظہار کے دشمن معاشرے کے ہاتھوں دکھ اٹھانا اور المناک موت کا منھ دیکھنا پڑا۔

ختم شد

پہلا حصہ

1منٹو کی غلط تعبیر۔

دوسرا حصہ

منٹو کی غلط تعبیر-2

Comments are closed.