سی پیک اور قومی اتفاق رائے 

aimal

ایمل خٹک 

سینٹ کے اجلاس میں مختلف الخیال سیاسی جماعتوں اور چھوٹی قومیتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین نے ایک بار پھر چین ۔پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ کے بارے میں اپنے تحفظات اور خدشات کا اظہار کیاہے۔ اس اہم قومی منصوبے پر اتفاق رائے کا فقدان ہے اور حکومت نےاپنی نادانی یا اس کی ناقص ڈیلنگ کی وجہ سے اس کو متنازعہ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔اراکین سینٹ کی بحث کا نچوڑ یہ ہے کہ حکومت سی پیک معاہدے کو سامنے لائے تا کہ منصوبے سے متعلق ابہام اور خدشات دور کی جاسکے۔  اور حکومت پر زور دیا گیا کہ راہداری کے اہم نکات کو پارلیمان میں پیش کیے جائیں ۔

گزشتہ بدھ کے روز منعقدہ اجلاس میں اقتصادی رابطہ کونسل (ای سی سی) کے اس اجلاس جس میں سی پیک کی منظوری دی گئی بھی پارلیمان میں پیش کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ بعض اراکین سینٹ نے حکومت پر دانستہ طور پر سی پیک کی تفصیلات چھپانے کا الزام بھی لگایا اور کہا کہ حکومت نہیں چاہتی کہ یہ پتہ چلے کہ سی پیک کا سب سے زیادہ فائدہ پنجاب کو پہنچ رہا ہے اور باقی صوبوں کو نظرانداز کیا جارہا ہے۔

بحث کے دوران وزیراعظم کے وعدوں کے باوجود مشرقی روٹ پر تیز رفتاری سے کام اور مغربی روٹ نظرانداز کرنے کا الزام بھی لگایا گیا۔ بعض اراکین نے شکوہ کیا کہ ہر بار حکومتی نمائندگان سی پیک کے حوالے سے متضاد معلومات اور تفصیلات فراہم کرتے ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف کے اس بیان کہ سی پیک سے وفاق مضبوط ہو گا کو رد کردیا گیا اور کہا گیا کہ اس سے وفاق مضبوط نہیں بلکہ کمزور ہو رہا ہے۔ باقی صوبوں کے تحفظات اور خدشات کم ہونے کی بجائے بڑھ رہے ہیں جس کا لا محالہ اثر پاکچین تعلقات پر بھی پڑیگا۔  کیونکہ پنجاب کے علاوہ اگر سی پیک کے حوالے سے باقی صوبوں کے تحفظات اور خدشات دور نہیں کئے گے تو ان صوبوں کی رائے عامہ چین کے خلاف بھی جا سکتی ہے۔

چین کی جانب سے افرادی قوت ، خام مال وغیرہ چین سے لانے کی اطلاعات پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا۔ چین کو چالیس سالوں کیلئے ٹیکس میں چھوٹ دینے کی رپورٹ کو نشانہ تنقید بنایا گیا۔  اس طرح گزشتہ ماہ سینٹ کی اسٹنڈنگ کمیٹی برائے مواصلات حکومت پر سی پیک کے سلسلے میں دروغ بیانی کا الزام بھی لگاچکی ہے۔ 

جب سے سی پیک کا باقاعدہ افتتاح ہوا ہےتب سے مسلسل اس قومی نوعیت کے اہم منصوبے کے حوالے سے مختلف سیاسی اور سماجی حلقے اس کی شفافیت اور محدود فیصلہ سازی یعنی تمام شراکت داروں ( اسٹیک ھولڈرز) کو اعتماد میں لینے اور باہمی مشاورت سے فیصلے کرنے کی بجائے محدودے چند مصاحبین یا ذاتی وفادار اہم فیصلہ سازی میں مصروف ہیں۔ وزیراعظم یا تو دانستہ طور پر سی پیک کے حوالے سے ملک کے کئی سیاسی اور سماجی حلقوں کے خدشات اور تحفظات سے بے خبر ہیں اور یا وہ اپنے مصاحبین کی سب اچھا کی رپورٹ پر اندھا اعتماد کرتے ہیں ۔

ماضی قریب میں دو تین دفعہ وزیراعظم نے ذاتی دلچسپی لیکر کچھ اجلاس بھی بلائے اور سیاسی قائدین سے کچھ وعدے بھی کیے مگر یا تو وزیراعظم کا حافظہ کمزور ہے اور یا وعدے ایفا کرنے کے سلسلے میں جن اقدامات اور فیصلوں کا انہوں نے اعلان کیا تھا اس پر متعلقہ حکام یا انتظامیہ عملدرآمد میں پس و پیش سے کام لے رہیں ہیں ۔ وزیراعظم نے کل جماعتی کانفرنس میں مغربی روٹ پر ترجیحی بنیادوں پر کام شروع کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ مگر یہ وعدہ تاحال ایفا نہیں ہو سکا۔ مشرقی روٹ کی نسبت مغربی روٹ مختصر اور ارزاں ترین راستہ ہے۔ اور مستقبل میں اس کو وسطی ایشیا ، افغانستان اور ایران سے جوڑنے میں بھی آسانی ہوگی۔  

اراکین پارلیمنٹ کے بحث و مباحثے کو دیکھ کر یہ بات یقین میں بدل جاتی ہے کہ ابھی تک سی پیک کے حوالے سے ابہام موجود ہے کیونکہ منصوبے کے متعلق معلومات یا اس کی تفصیلات پر رازداری کے دبیز پردے پڑے ہوئے ہیں اور حکومت نامعلوم وجوہات کی بناء پر اس کو عام کرنے سے ہچکچا رہی ہے ۔ 

بعض حلقوں کا یہ الزام حتی کہ سینٹ اجلاس میں بھی اس کی گونج سنی گئی کہ حکومت دانستہ طور پر سی پیک منصوبے کی تفصیلات عام کرنے سے اجتناب برت رہی ہے درست لگتی ہے کیونکہ حکمرانوں کے دلوں میں کھوٹ ہے۔ بنیادی روٹ کی تبدیلی اور زیادہ تر منصوبہ جات کا صوبہ پنجاب میں ارتکاز اور باقی صوبوں کے نمائندوں کو سی پیک کے ابتدائی اور رواں مذاکرات سے دور رکھنا بات خود بہت شکوک و شبہات کو جنم دینے کا باعث بن رہا ہے۔ 

وفاقی حکومت کا سی پیک کے حوالے سے کل جماعتی کانفرنسوں اور دیگر اعلی سطحی سیاسی فورمز پر کیے گئے   وعدوں اور باقی صو بوں کی خدشات اور تحفظات کی ٹھوس یقین دہانیوں کے باوجود ان کے اعتراضات نہ صرف جوں کے توں موجود ہیں بلکہ اس سے فرسٹریشن اور غم وغصہ بڑھتا جا رہا ہے۔

چند سیاستدانوں کو مختلف طریقوں سے رام کرنے کی کوششوں کی جگہ اگر وفاقی حکومت عوامی مطالبات کی روشنی میں سی پیک کے اوریجنل روٹ کو بحال کرنے اور ضروری تبدیلیاں کر لیتی تو صورتحال بہتر ہو جاتی مگر لالی پاپ دینے کی پالیسی سے حالات بگڑنے کا خطرہ ہے ۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی حد تک تو عوام میں شدید اضطراب موجود ہے اور وہاں احتجاجی مظاہروں اور جلسوں کا سلسلہ جاری ہے اور غیر متوقع طور پر اس میں عوام بھر پور شرکت کر رہے ہیں۔

عوام معاملات کو اپنےہاتھوں میں لینے لگے ہیں۔ کرک میں اقتصادی راہداری کے حوالے سے ایک بڑے اجتماع میں اپنے مطالبات کے حق میں چین کے سفارتخانے کے سامنے پرامن دھرنا دینے کا اعلان کیا گیا ہے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سیاسی قائدین پر عوامی دباو بڑھ رہا ہے اگر سیاسی قائدین نے عوام کا ساتھ نہیں دیا تو عوام اپنی راہ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ عوام اور خصوصاً نوجوانوں کی جانب سے اقتصادی راہداری کے مسئلے پر خاموش یا مصلحت آمیز موقف اختیار کرنے والے سیاسی قائدین کی لعنت و ملامت کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے۔ سوشل میڈیا پر کافی لے دے ہو رہی ہے۔   

آخرحکومت ، وزیراعظم کے مصاحبین اور چند متعلقہ افسران کی کیوں اتنی پردہ داری رکھ رہی ہے۔ اس رویے نے منصوبے کی شفافیت کے حوالے سے کئی خدشات کو جنم دیا۔  پاکستان جیسے ملک میں سی پیک جیسے میگا پراجیکٹ میں عدم شفافیت کا نتیجہ عموماًوسائل کے ضیاع کی صورت میں نکلتا ہے اور بدعنوانی اور بد انتظامی کی بدترین مثالیں سامنے آتی ہیں۔ 

اس طرح اس جیسے قومی منصوبوں میں عدم شفافیت کے سیاسی اور سماجی نقصانات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ اس عدم شفافیت کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر دو تین ماہ بعد پارلیمنٹ میں یا باہر کل جماعتی فورمز پر سی پیک کے حوالے سے خدشات اور تحفظات کا اظہار کیا جاتا ہے اور اس تاریخ ساز منصوبے کے حوالے سے قومی اتفاق رائے کی تاثر کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔اور سی پیک کے حوالے سے ایک قومی بیانیہ نہیں بن پا رہا بلکہ نہ صرف مرکز اور صوبوں کی سطح پر الگ الگ بیانیے موجود ہیں بلکہ بعض صورتوں میں ایک دوسرے کے متصادم بھی ہیں۔ 

اس منصوبے کے حوالے سے ایک ٹھوس اور حقیقی معنوں میں قومی فیصلہ ساز فورم اور فیصلوں کی عملدرآمد ، نگرانی  اور مانٹیرنگ کیلئے ایک قومی ادارے کی ضرورت تھی مگر حکومت نامعلوم وجوہات کی بناء پر اس سے پہلو تہی کر رہی ہے اور جو پارلیمانی کمیٹی موجود ہے وہ غیر موثر ہے۔

وفاقی حکومت سی پیک منصوبے کو متنازعہ بنانے کی بجائے دیگر صوبوں کے اعتراضات دور کرے اور اس دور رس اثرات کے حامل منصوبے پر وسیع قومی مشاورت سے قومی اتفاق رائے پیدا کرے ورنہ جس طرح وفاقی حکومت اس مسئلے کو ڈیل کررہی ہے اس سے معاملات مزید بگڑنے کا خدشہ ہے ۔

اس طرح سی پیک کے انچارج وزیر بھی متنازعہ ہوچکے ہیں ۔ اور سی پیک کے تمام معاملے میں ان کے رول کے حوالے سے کافی غم وغصہ پایا جاتا ہے۔ اس کی تبدیلی سے بھی کسی حد تک معاملات آگے بڑھ سکتے ہیں ۔ یہ سب کچھ ہو سکتا ہے اگر وفاقی سطح پر قوت ارادی اور دیگر صوبوں کو ساتھ لے کر چلنے اور ان کی  جائز شکایات کو سننے اور دور کرنے کا جذبہ موجود ہے۔ ابھی تک تو کوئی امید کی کرن نظر نہیں آتی اور نہ ماضی سے سبق سیکھنے کی کوئی علامات نظر آرہی ہیں ۔ 

Comments are closed.