پاکستان میں پالیسی سازی : بحران ، کشمکش اور المیہ

aimal

ایمل خٹک 

بھارتی وزیر اعظم کا حالیہ بیان کہ پاکستان میں کس سے بات کی جائے ایک حریف ملک کے راہنما کی طنز سے زیادہ ایک حقیقت کی طرف اشارہ تھا جو پاکستان میں پالیسی سازی کے سنگین بحران ، طاقت کی عدم مرکزیت اور اقتدار کے ایوانوں میں جاری کشمکش کی غمازی کرتی ہے۔  

اگر خارجہ پالیسی کے حوالے سے مختلف سیاسی اور فوجی شخصیات کے گزشتہ چند ماہ کے بیانات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بحرانی صورتحال آشکارا اور مختلف طاقت کے مراکز میں جاری کشمکش آسانی سے نظر آجاتی ہے۔ 

پاکستان میں طاقت کے مراکز کی عدم مرکزیت کوئی نئی بات نہیں اور ماضی میں اس کیفیت کو بیان کرنے کیلئے ٹرائیکا کی اصطلاح استعمال ہوتی رہی ہے۔ مگر اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد جس میں صدر مملکت کی حیثیت زیادہ علامتی ہوگئی ہے۔ اب معاملہ دو طاقت کے مراکز کے بیچ آگیا ہے مطلب وزیراعظم اور آرمی چیف کے۔ بیچ میں سابق چیف جسٹس چودھری افتخار کے دور میں ایک نئی ٹرائیکا اور عدلیہ نے بھی اپنے لئے جگہ بنانے کی کوشش کی مگر اس کے جانے کے بعد وہ کوششیں دم توڑ گئیں۔  

 آئین میں طاقت کی تقسیم کا ایک فارمولا موجود ہے مگر ماضی کی طرح اب بھی طاقتور حلقے اس پر اکتفا کرتے ہوئے نظر نہیں آتے بلکہ دوسروں کے اختیار میں تجاوز کرنے کا رحجان عام ہے۔ 

پہلے یہ کشمکش اندرون خانہ رہتی اور اقتدار کے ایوانوں سے افواہوں یا خبریں لیک ہونے کی شکل میں کبھی کبھار باہر آجاتی اور پھر اندرون خانہ رسہ کشی یا اختلافات اتنی آشکارا اور عام نہ تھی۔ اب صورتحال بالکل مختلف ہے کوئی چیز راز نہیں رہی۔ فوجی اور سیاسی قائدین کی ملاقاتوں حتیٰ کہ ون ٹو ون ملاقات کی خبریں بھی باہر آجاتی ہیں۔  

اور اب طاقت کی عدم مرکزیت کی بلی تھیلے سے باھر آگئی ہے۔ اب مغربی اور دیگر اہم ممالک کے غیر فوجی شخصیات کی سرکاری دوروں کی شیڈول میں فوجی قیادت سے ملاقات ضرور شامل ہوتی ہے۔ اور چیف آف آرمی سٹاف کے بیرون ملک دورے اگر وزیراعظم سے زیادہ نہیں تو کچھ زیادہ کم بھی نہیں ۔ ماضی کے خالصتاً فوجی دوروں کے علاوہ چیف آف آرمی سٹاف کے کئی دورے سیاسی کیٹگری میں شامل ہوسکتے ہیں ۔  

 طاقت کے مراکز خاص کر سول اور فوج میں محبت اور نفرت کا کھیل جاری ہے۔ اور دونوں کے درمیان طاقت کا توازن تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ سول اور فوجی تعلقات میں توازن ہمیشہ سے آخر الذکر کے حق میں رہا ہے مگر یہاں توازن سے مراد اس غیر مساوی تعلق سے ہے جو نسبتاً زیادہ عرصے تک ایک ہی سطح پر برقرار رہے۔ مثلاً اگر یہ تعلق 60:40 ہے تو کچھ عرصے تک یہ تعلقات اسی تناسب سے برقرار رہے اور اس میں کوئی بڑی تبدیلی رونما نہ ہوتوہم کہہ سکتے ہیں کہ تعلقات میں توازن ہے۔

پچھلے کچھ عرصے خاص کر پاکستان تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنوں کے بعد طاقت کا یہ توازن بگڑ گیا ہے اور سویلین قیادت نے بہ امر مجبوری کچھ معاملات میں پسپائی اختیار کی ہے اور فوجی قیادت نے اپنا کنٹرول مضبوط کیا ہے۔ پالیسی سازی کا عمل سنگین بحران اور کشمکش سے دو چار ہے۔ اور پالیسی کنفیوژن اور اختیارات کی دو عملی خطرناک حد تک بڑھ رہی ہے۔

المیہ یہ ہے زیادہ سے زیادہ طاقت کے حصول کیلئے جاری اندرونی رسہ کشی اور جنگ سےہونے والی تباہی اور ادارہ جاتی زوال کا کسی کو احساس نہیں اور اگر احساس ہے بھی تو اصلاح احوال کی تگ ودو نہیں۔  جس کی پالیسی بنانے اور چلانے کی ذمہ داری ہے وہ پالیسی سازی کے عمل سے بیدخل ہوچکےہیں ۔

سویلین کا پہلے بھی پالیسی بنانے میں واجبی ہی سہی کچھ رول ضرور تھا اور پالیسی چلانے کا تھوڑا بہت اختیار ان کے پاس تھا ۔ مگر اب عمل درآمد کے عمل سے بھی بیدخل ہو رہے ہیں۔ ایک اور المیہ یہ بھی ہے کہ پالیسیاں یکے بعد دیگرے ناکامی سے دو چار ہیں ۔ ملک کاہر ذی شعور ناکامی کا رونا رو رہاہے اور ہر طرف سے پالیسیوں کی مکمل اورہالنگ کے مطالبات زوروں پر ہیں مگر پالیسی بنانے والے ٹس سے مس نہیں ہورہے۔

بیرون ملک یہ مشکل بڑھ رہی ہے کہ بات کس سے کی جاہے۔ اس سے جس کو آئین اہم قومی معاملات طے کرنے اور چلانے کی صلاحیت یا اختیار دیتی ہےاور یا اس سے جو آئینی مینڈیٹ کے بغیر خود بااختیار بن گیا ہے۔ اقتدار کی یہ جنگ زیادہ دیر نہیں چل سکتی۔ اس تذبذب اور بے یقینی کی صورتحال کی طوالت ملک وقوم کیلئے انتہائی نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے۔  

اور یہ امر ملک کی جگ ہنسائی کا باعث بن رہا ہے۔ اب طاقت کے مختلف مراکز میں میں اندرونی کشمکش اور زیادہ سے زیادہ اختیار حاصل کرنے کی جنگ معقول حد تک اور آئین کے دائرے میں ہونا چاہئے۔اب جمہور کا زمانہ ہے اور جمہور کے مطابق چلنا ہوگا۔ اب آمریت کی اندرون ملک اور بیرون ملک پذیرائی کم ہورہی ہے۔  

تاریخی طور پر اگر دیکھا جائے تو داخلی اور خارجی حمایت کی موجودگی میں پاکستان میں آمریت قائم اور پھلتی پھولتی رہی ہے۔ اب روایتی آمریت پسند یا اس کو لانے والی داخلی قوتیں ماضی کی طرح آمریت کو کندھا دینے کیلئے تیار نہیں جبکہ نئی قوتیں اتنی صلاحیت اور اہلیت نہیں رکھتیں کہ وہ اس کو ضروری عوامی حمایت دلا سکے جبکہ خارجی قوتوں کی ترجیحات بھی تبدیل ہو رہی ہیں۔ اس لئے آمریت کا مستقبل زیادہ روشن نظر نہیں آرہا۔

سیاسی جماعتیں کی آپس کی چپقلشوں اور محاذ آرائیوں اور اندرون پارٹی اختلافات اور گروپ بندیوں کا کا فائدہ غیر جمہوری قوتوں کو پہنچ رہا ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ سیاسی قائدین بالغ نظری اور وسیع القلبی کا مظاہرہ کریں اور اہم قومی معاملات پر سیاسی اتفاق رائے پیدا کریں ۔ قومی ترقی اور استحکام کیلئے حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں اپنا اپنا رول مثبت انداز میں ادا کرنے کی کوشش کریں۔ اور تمام قومی ادارے اپنے اپنے آئینی مینڈیٹ  کے اندر رہتے ہوئے اپنے قومی فرائض ادا کریں ورنہ ملک میں مزید انتشار اور انارکی کی راہ روکنا مشکل ہوگا۔

Comments are closed.