ترقی اور روزگار کا باہمی تعلق

qazi-310x387فرحت قاضی

انگریزوں نے ہندوستان میں سکول قائم کرنے شروع کئے تو خان خوانین، مولوی، میاں اور پیر مخالفت پر کمر بستہ ہوگئے اس کے خلاف جنگ کو عوام کے ذریعے لڑنے کے لئے اسے مذہب، روایات اور مروجہ ثقافتی اقدارکے خلاف مشہورکردیا گیا اس طرح عوام ان کے ہمنوا ہوتے گئے نتیجتاً پسماندہ دیہات میں عرصہ دراز تک کوئی سکول نہ کھل سکا ۔

معاشرے کے ان بااثر، موقع شناس اور ہوشیار طبقات کو احساس تھا کہ تعلیم سے کھیت مزدور اور پسے طبقات کی معلومات میں اضافہ ہوگا ان کی سوجھ بوجھ بڑھے گی وہ اپنی حالت زار کو بہتر بنانے کے بارے میں سوچنے لگیں گے ان پر خوانین کے منافقت کی حقیقت بھی عیاں ہوجائے گی اور پھر کوئی ان کے اس پرچار پر یقین نہیں کرئے گا کہ غربت اس کا مقدر ہے کوئی بھی نجومی کے پاس تعویز اور گنڈابنانے کے لئے نہیں جائے گا آج جگہ جگہ سکول قائم ہیں عوام کی ذہنی سطح بلند ہورہی ہے ان کی سوچ و فکر کے زاویے مثبت سمت کی جانب بڑھ رہے ہیں اس لئے استحصالی طبقات کی جانب سے اب تعلیم کی مخالفت میں شدت نہیں رہی تاہم اس کے باوجود وہ بڑی ہوشیاری اور غیر محسوس طریقے سے ایسی پالیسیاں ترتیب دیتے ہیں جن سے ان کے طبقاتی عزائم کی تکمیل بڑی حد تک ممکن ہوگئی ہے ۔

دراصل طبقہ اشرافیہ کی اس سوچ اور مخالفت کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنی حیثیت ، اپنی قوت اور سماجی مرتبہ کی تبدیلی کے لئے تیا ر نہیں تھے ان کا یہ خدشہ بجا بھی تھا کہ اس کے فروغ سے عوام میں سوجھ بوجھ آجائے گی ان میں شعور و ادراک پیدا ہوجائے گا اور وہ بلا سوچے کسی بات ،وعدے اور دعویٰ پر یقین نہیں کریں گے اور یوں معاشرہ منطق، دلیل اور عقلیت کی راہ پر گامزن ہوجائے گا جس کے نتیجہ میں ان کے معاشی اور ذہنی تصورات میں ایک حیرت انگیز تبدیلی دیکھنے میں آئے گی جبکہ ا یک دولت مند سمجھتا ہے کہ اس کی جائیداد اور دولت میں جوں جوں اضافہ ہوتا جائے گا اس کی زندگی اتنی ہی خوشحال اور بہتر ہوگی اس کے بچوں اور کنبے کامستقبل تابناک اور محفوظ ہوگا اور اگرعام لوگ تعلیم حاصل کرکے نئی نئی ملازمتیں حاصل کریں گے تو اسے تابع فرماں کھیت مزدور کہاں سے ملیں گے اس طرح آہستہ آہستہ اس کا روزگار زوال پذیر اور طاقت کمزور ہو تی جائے گی اور بالآخر اس سب کے نتیجہ میں ایک دن آئے گا کہ وہ امیر نہیں رہے گا ۔

حقیقت یہ ہے کہ خان خوانین کی سوچ بھی عام طور پر کارخانہ داری نظام کے ابتدائی دور کے مزدوروں کی مانند ہوتی ہے جب یورپ میں صنعتی انقلاب کے باعث مزدوروں کی ایک بڑی کھیپ بے روزگار ہونے لگی تو مزدوروں نے ان مشینوں کو اپنے لئے خطرہ گردانتے ہوئے اپنا دشمن سمجھنا شروع کردیا اور اپنی پوری توانائیاں ان مشینوں کی توڑ پھوڑ پر صرف کردی تھیں مگر سوچوں اور نظریات میں تغیر و تبدل کے اس دور میں آج وہی مزدور صنعتی انقلاب سے بخوبی بہرہ ور ہورہا ہے کیونکہ صنعتی فروغ کے نتیجہ میں روزگار کے نت نئے مواقع پیدا ہوئے تعلیم عام ہوئی ۔

بیشتر ملکوں میں بادشاہت کی جگہ جمہوریت نے لے لی ووٹ کے حق نے عام انسان کی اہمیت پیدا اور بڑھادی جبکہ صنعتی ترقی اور صنعتی علوم کے نتیجہ میں پیداوار بڑھنے لگی اور اس کے ساتھ ساتھ دیگر اقوام اور مذاہب کے پیروکاروں کے آپس کے میل ملاپ سے جاگیرداری نظام کے خد وخال تبدیل ہوئے رنگ، نسل اور مسلکی بنیادوں پر استوار دیواریں گرنے لگیں حقوق انسانی اور انسان دوستی کے نظریات جنم لینے لگے کسان اور کاشتکار مزدور بن گیا اسے جاگیرداروں کی نجی جیلوں اورذاتی عقوبت خانوں سے نجات ملی ان میں اجتماعی طاقت کا احساس پیدا ہوا کل اس کی غربت اور بدحالی کو اس کی قسمت قرار دے کر اسے حال میں رہنے کی تلقین کی جاتی تھی لیکن آج تعلیمی اور صنعتی ترقی کے دور میں اسی مزدور کا بچہ پڑھ لکھ کر اپنا اور اپنے خاندان کی قسمت بدل رہا ہے اس کے علاوہ وہ معاشرے میں برابری اور مساوی حقوق کے لئے کوشاں ہے مشینوں کے فروغ سے اسے سخت جسمانی مشقت سے چھٹکارا مل رہا ہے بلکہ عنقریب ایک ایسا وقت آنے والا ہے جب مشینیں کام کریں گی اور انسان ان سے فیض یاب ہوگا ۔

نئے نظام نے صرف مزدوروں کی حالت ہی تبدیل نہیں کی بلکہ اس نے جاگیرداروں کو بھی نئے ڈھنگ سے پیسہ کمانے اور جینے کا عمل سکھا دیا اسے بھی سائنس اور ٹیکنالوجی کے فوائد حاصل ہورہے ہیں اگر پہلے پہل اس کے پاس روزگار کا ایک ذر یعہ زمین اور جائیداد تھی تو اب معیشت کے نت نئے ذرائع سے وہ مزید دولت کماسکتا ہے جاگیرداری نظام میں جاگیر دار ایک ظالم انسان کا کردار ادا کرنے پر مجبور تھا کیونکہ اس کے بغیر اس کے جان و مال کی حفاظت ناممکن تھی اس لئے وہ غلامانہ اخلاقیات کا پرچار تواترسے کرتا تھا آج بھی جہاں جہاں جاگیرداری نظام ہے وہاں جاگیرداروں اور خان خوانین نے اپنی جان و مال کی حفاظت کے لئے بندوق بردار رکھے ہوتے ہیں دیہاتیوں پر اپنا رعب داب قائم کرنے اور انہیں دہشت زدہ کرنے کے لئے وہ قتل مقاتلوں سے بھی دریغ نہیں کرتے ہیں۔

جاگیرداروں کو جائیداد کے وارث کی بھی ضرورت ہوتی ہے لڑکا پیدا نہ ہونے یا زیادہ بچے پیدا کرنے کی خاطر وہ ایک سے زیادہ شادیاں بھی کرتے ہیں اس نظام پر تنقید کی راہ بند کرنے کے لئے عموماً ماضی کے جاگیردار خواتین کو ان پڑھ اور چار دیواری میں مقید رکھتے تھے جائیداد کی تقسیم کے خدشہ کے پیش نظر بعض علاقوں میں جاگیردار اپنی بیٹیوں اور بہنوں کی قرآن پاک سے شادیاں کراتے تھے اسی طرح اپنے جرائم اور خطاؤں کی سزا سے بچنے کی خاطر وہ اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو سورۂ (وٹے سٹے اور وینی) کے طور پر بھی دیتے تھے طبقاتی رشتے استوار کرانے کے لئے عورتوں کی اپنی مرضی اور منشاء سے شادی کرواتے تھے یہ سب کا م اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب عورت کو تعلیم کے حصول سے دور رکھا جائے اسے ایک جانور کی مانندچار دیواری میں محبوس رکھا جائے اس کے علاوہ اپنی جائیداد اور استحصال کو جائز قرار دینے کے لئے ادب اور احترام کا ماحول پیدا کرنا بھی ان کی ایک مجبوری تھی ۔

سچ تو یہ ہے کہ ماضی کے جاگیردارانہ نظام کی جملہ برائیاں آج بھی ہمارے معاشرے میں بدرجہ اتم موجود ہیں اور زمانے کے بدلتے ہوئے سیاسی، معاشی اور سماجی تقاضوں نے جاگیردارانہ نظام پر کوئی مثبت اثرات مرتب نہیں کئے اس کی وجہ یہ ہے کہ جاگیردار اور خان خوانین اپنے آباؤ اجداد کے بنائے ہوئے قواعد و ضوابط پر مکمل طور پر عمل درآمد کرتے ہیں غریبوں اور کسانوں کے استحصال کے لئے ان کا آپس میں اتفاق و اتحاد ایک ناگزیر عمل ہے تاہم دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ ان استحصالی قواعد وضوابط کو ختم کرنے کے لئے کسان، مزدور اور اسی نوع کے دوسرے مقہور لوگ آج بھی منتشر اور الگ الگ ہیں جبکہ استحصالی قوتوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ان کی اکٹھ کو ایک لازمی جزو قرار دیا جاتا ہے ۔

ایک جاگیردار اپنے جان و مال کی حفاظت کے لئے خون کی بنیاد پر رشتے بھی استوار کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ بیٹوں کی پیدا ئش کا خواہش مند ہوتا ہے وہ چاہتا ہے کہ اس کے کئی بھائی،بیٹے، بھانجے اور بھتیجے ہوں جبکہ خاندان سے باہر شادیوں کی مخالفت بھی اسی وجہ سے کرتا ہے تاکہ ملکیت خاندان سے باہر نہ جائے یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہوس جائیداد سے مجبور ہوکر یہ اپنے باپ اور بھائیوں کو قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا ہے ۔

جاگیرداری نظام میں عورتوں کے کوئی حقوق نہیں ہوتے اس کا کام صرف بچے جننا ، شوہر کی جنسی حاجت پوری کرنا اوربچوں کی خدمت کرنا ہوتا ہے چونکہ اسے ذاتی ملکیت سمجھا جاتا ہے لہٰذا اس کی حیثیت بھی ایک جنس سے زیادہ نہیں ہوتی ہے بے دست و پا اور محتاج رکھنے کے لئے اس کے گھر سے باہر نکلنے کو بھی برا سمجھا جاتا ہے ایسے معاشرے میں محبت کا پرچار بھی عورت کو نجی ملکیت بنانے کی کوشش ہوتی ہے جس کے جملہ حقوق مرد کے پاس ہوں اور خود اس کے کوئی حقوق نہ ہوں ۔
ہر نیا نظام جہاں پرانے نظام کی تباہی کا باعث ہوتا ہے اور پرانے طبقات اور رشتوں میں توڑپھوڑ واقع ہوتی ہے تو وہ نئے رشتے بھی بناتا ہے اور اپنے ساتھ پیداوار کے پہلے سے زیادہ ذرائع بھی لاتا ہے اس لئے اس کی مخالفت کرنے سے پہلے اس کا پرانے نظام سے موازنہ کرنا چاہئے ۔

خان خوانین کی طرح مولوی، میاں، پیر، تعویز گنڈوں کا کاروبار کرنے والے بھی نئے نظام کی مخالفت کرتے ہیں اور ان کی مخالفت کا سبب بھی یہ اندیشہ اور خوف ہوتا ہے کہ سکولوں کے کھلنے اور سرمایہ داری کے فروغ سے ان کی معیشت متاثر ہوگی اور لوگ توہمات کے جال سے نکل جائیں گے تو پھر ان کے پاس تعویز بنانے کون آئے گا یہ خدشہ درست ہے کیونکہ تعلیم کے فروغ سے شہری چیزوں اور واقعات کا باہمی رشتہ سمجھنے لگتے ہیں اور پھر وہ بیماری کی صورت میں کسی پیر کے پاس جانے کی بجائے ڈاکٹر کے کلینک جاتے ہیں۔

اگر بے روزگار ہے تو کوئی ہنر سیکھتا ہے اور تعلیم حاصل کرتا ہے اس سے میاں اور پیر کے کاروبار پر اثر تو ضرور پڑتا ہے لیکن یہ بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ آج کئی اداروں میں ان ہی پیروں اور نجومیوں کی اولاد روزگار کررہے ہیں نیا نظام جتنا فروغ پاتا ہے اتنا ہی روزگار پیدا ہوتا ہے ان حقائق کے باوجود بھی اگر یہ طبقات مخالفت کرتے ہیں تو پھر ان پر نئے نظام کے مثبت پہلو آشکارا نہیں ہیں اور وہ اس خوف میں مبتلا ہیں کہ ان سے ان کے روزگار کا ذریعہ چھن جائے گا حالانکہ اب کہیں زیادہ ذرائع پیدا ہوگئے ہیں اگر تعلیم اور نئے نظام نے عام انسان کو جاگیردار کے ظلم سے نجات دے دی ہے اور اسے حقوق یافتہ محنت کش بنادیا ہے تو اس کو بھی نئے ڈھنگ سے پیسہ کمانے کے ذرائع بتا دئیے ہیں ۔

One Comment