ناکام بغاوت کے بعد اردوان کوسنگین مشکلات کا سامنا

asaf jilani

آصف جیلانی 

بلا شبہ عوام کی طاقت کے بل پرترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے فوج کے ایک دھڑے کی بغاوت ناکام بنا دی ہے لیکن انہیں اب پہاڑ ایسی مشکلات کا سامنا ہے۔ یورپی یونین اور امریکا کے وزراء خارجہ نے صدر اردوان کو خبر دار کیا ہے کہ وہ ناکام فوجی بغاوت کے بعد فوج اور عدلیہ کے خلاف انتقامی کاروائیوں کے سلسلہ میں قانون کی حکمرانی کا احترام ملحوظ خاطر رکھیں ۔

برسلز میں یورپی یونین کے 28وزراء خارجہ اور امریکا کے وزیر خاجہ جان کیری نے اپنے اجلاس میں کہا ہے کہ ناکام بغاوت کے ذمہ داروں کو بلا شبہ کیفر کردار تک پہنچایا جائے لیکن اس سلسلہ میں سزائے موت کو بحال کرنے کا سہارا نہ لیا جائے اور اگر ترکی نے یہ راہ اختیار کی تو یورپی یونین میں شمولیت کے لئے اس کی کوششیں بے سود ثابت ہوں گی۔ یورپی یونین کی یہ تشویش عیاں ہے کہ فوج، عدلیہ اور دوسرے اداروں میں تطہیرکے لیے صدر اردوان آمرانہ اقدامات کی طرف مائل ہوں گے اور آزادی رائے کے سلب ہونے کا شدید خطرہ ہے ۔

ناکام بغاوت کے بعد اب تک فوج کے چھ ہزار سے زیادہ افسروں اور فوجیوں کو گرفتار کیا گیا ہے، اس کے علاوہ 2700ججوں اور وکلاء کو حراست میں لیا گیا ہے اور پولیس کے 7850افسروں کوگرفتار کیا گیا ہے۔

دوسری جانب ، صدر اردوان اور امریکا کے درمیان کشیدگی بڑھتی نظر آتی ہے ۔ صدر اردوان نے ناکام فوجی بغاوت بھڑکانے کا الزام اپنے پرانے اتحادی فتح اللہ گولن پر لگایا ہے جو گذشتہ بیس سال سے امریکا میں خود ساختہ جلاوطنی کی گوشہ نشینی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ فتح اللہ گولن نے اس الزام کی پر زور تردید کی ہے اور کہا ہے کہ خود انہوں نے متعدد فوجی حکومتوں کے دور میں مصائب کا سامنا کیا ہے اور جیل میں قید رہے ہیں۔، لہذا یہ الزام لگانا ان کی ہتک ہے کہ حالیہ ناکام فوجی بغاوت میں ان کا ہاتھ تھا ۔

اس تردید کے باوجود صدر اردوان نے امریکا سے مطالبہ کیا ہے کہ فتح اللہ گولن کو ان کے حوالے کیا جائے۔ لیکن بظاہر امریکی انتظامیہ صدر اردوان کا یہ مطالبہ تسلیم کرتی نظر نہیں آتی ۔ اس دوران صدر اردوان نے انکرلیک کا فضائی اڈہ بند کردیا ہے جہاں کہا جاتا ہے کہ امریکا کے 50جوہری بم نصب ہیں۔ ترکی نے اس اڈہ سے شام میں بمباری کے لئے جانے والے امریکی فضائی مشن بھی معطل کر دیے ہیں۔ امریکا کے لئے یہ بات باعث تشویش ہے کہ انکرلیک کے اڈہ کے ترک فضایہ کے کمانڈر فوجی بغاوت میں ملوث تھے جنہیں اب گرفتار کر لیا گیا ہے۔

فتح اللہ گولن کے معاملہ پر ترکی اور امریکا کے درمیان کشیدگی بھڑکنے کا شدید خطرہ ظاہر کیا جا رہا ہے لیکن مبصرین کی رائے ہے کہ امریکا کے لئے ، ترکی کی بے حد اہمیت ہے ۔ ناٹو میں امریکا کے بعد سب سے بڑی فوج ترکی کی ہے اور روس کے خلاف ترکی ایک بڑا محاذ ہے جسے امریکا ہاتھ سے نہیں گنوا سکتا۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ صدر اردوان ، فتح اللہ گولن کی حوالگی کا مطالبہ کرکے امریکا پر محض دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ خود نہیں چاہیں گے کہ ان کے پرانے اتحادی اور اب حریف گولن ترکی آئیں کیونکہ ان کی ترکی میں موجودگی صدر اردوان کے لئے درد سر ثابت ہوگی۔

پچھہتر سالہ فتح اللہ گولن(گولن ترکی میں مسکراتے ہوئے شخص کو کہتے ہیں) ترکی میں بے حد مقبول ہیں اور ان کی حزمت ( خدمت) تحریک کے نہ صرف ترکی میں بلکہ وسط ایشیا ء اور دوسرے ممالک میں لاکھوں اراکین اور حامی ہیں۔ فتح اللہ گولن 2013سے پہلے صدر اردوان کے قریبی اتحادی تھے۔ یہ اتحاد اس وقت ٹوٹا جب ترکی میں کرپشن کے ایک بہت بڑے اسکینڈل کا انکشاف ہوا جس میں اردوان کے صاحبزادے بلال اردوان بھی ملوث تھے۔

اس اسکینڈل کی وجہ سے اردوان کابینہ کے متعدد وزیروں کو مستعفی ہونا پڑا۔صدر اردوان کے نزدیک اس اسکینڈل کے انکشاف کے پیچھے بین الاقوامی سازش تھی اوراس میں فتح اللہ گولن کا ہاتھ تھا۔ رجب طیب اردوان نے انتقاماً گولن کی تنظیم کو دھشت گرد تنظیم قرار دیا اور عدالت نے ان کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کئے اور اس وارنٹ کی بنیاد پر صدر اردوان گولن کو ترکی کے حوالہ کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ 

یہ بات واقعی تعجب خیز ہے کہ فتح اللہ گولن نے جو ارزرم کے ایک گاؤں کی مسجد کے امام کے گھر میں پیدا ہوئے ، والدہ جن کی گاؤں کے بچوں کو قران پاک پڑھاتی تھیں ، ارزرم کے کئی مدرسوں میں تعلیم حاصل کی اور چودہ سال کی عمر میں پہلا خطبہ دیا اور ایک مسجد میں امامت کے فرائض انجام دیے۔

سنہ1994 میں انہوں نے صحافیوں اور ادیبوں کی فاونڈیشن قائم کی اور اس دوران ترکی میں اسلامی مملکت کے قیام کی تحریک شروع کی اور اسکولوں کا جال بچھایا۔ ان کا زور مذہب میں سائنس کی اہمیت پر رہا ہے اور ان کا نظریہ ہے کہ فزکس ، ریاضی اور کیمسٹری کا مطالعہ اللہ کی عبادت ہے۔ 

گولن کی تحریک کے اس وقت ایک ہزار سے زیادہ اسکول ہیں۔ ترکی میں یہ اسکول، بہتریں تعلیم کے لئے مشہور ہیں۔ فتح اللہ گولن ، مختلف مذاہب کے درمیان مفاہمت اور مکالمہ کے حامی ہیں اور اس سلسلہ میں انہوں نے پوپ پال دوم ، یونانی کلیسا کے سربراہ اور اسرائیل میں صفرادی یہودیوں کے ربی سے ملاقاتیں کیں تھیں خود ترکی میں انہوں نے علوی اقلیت کی مذہبی آزادی کی حمایت کی ہے اور علویوں اور سنیوں کے درمیان مفاہمت کی کوشش کی ہے۔

گولن ترکی میں سیکولرزم کے سخت خلاف ہیں اور اسے رو بہ زوال مادیت قرار دیتے ہیں گولن شام کی خانہ جنگی میں ترکی کی مداخلت کے خلاف ہیں لیکن داعش کے خلاف فوجی کاروائی کے حامی ہیں۔ گولن کی خدمت تحریک کے ترکی میں لاکھوں حامی ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ ترکی کی پولیس اور عدلیہ میں گولن کے حامی اہم عہدوں پر فائزہیں۔

گولن کی تحریک کا قدامت پسند روزنامہ زمان اور بنک آسیا اور سمن یولو ٹیلی ویژن پر کنٹرول ہے۔ فتح اللہ گولن 1999میں بظاہر علاج کے لئے امریکا گئے تھے لیکن علاج سے زیادہ انہیں ڈر تھا کہ ترکی میں انہیں پابند سلاسل کردیا جائے گا ۔ اب وہ صدر اردوان اور امریکا کے درمیان وجہ تنازعہ بن گئے ہیں۔

♠ 

Comments are closed.