سرکاری عہدہ، پبلسٹی اور سوشل میڈیا 

aimal

ایمل خٹک 

پاکستان کی تاریخ میں کسی فوجی رہنما کو شاید کبھی اتنی عوامی پذیرائی ملی ہو جتنی موجودہ آرمی چیف کو ملی ہے۔ اور اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ شاید کسی غیر آمر فوجی سربراہ کی کبھی اتنی کھلے عام حمایت اور مخالفت ہوئی ہو جتنی موجودہ چیف کی ہو رہی ہے۔

لیکن سوچنے کی بات یہ کہ آخر کیا وجہ ہے کہ عوام میں مقبول اور ایک غیر متنازعہ شخصیت کے بارے میں سوشل میڈیا پر ایسی ویسی پوسٹیں آرہی ہیں۔ اس کی اور بھی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں مگر اس میں اس کےمیڈیا مینجرز اور کچھ اداروں کی نادانی اور بےوقوفی کا بھی رول ہے۔

بدقسمتی سے متعلقہ محکمہ بھی ناموزوں اور غیر ضروری شخصیت سازی میں مصروف ہے اور فوجی سربراہ کو ایک سیاسی راہنما بلکہ ایک وزیر یا وزیراعلیٰ جیسا بنا کر پیش کر رہی ہے۔  فوجی سربراہ کے عہدے کا جو عزت ، احترام اور مقام ہے اس کو دانستہ یا غیر دانستہ طور پر متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر جو رائےزنی ہو رہی ہے یا منفی کمنٹس آرہے ہیں وہ اس بھونڈی شخصیت سازی اور غیر ضروری میڈیا کوریج کا ردعمل ہے۔ اس سے پہلے جو تھینک یو راحیل شریف کا حشر ہوا شاید اس سے سبق حاصل نہیں کیا گیا۔ اس طرح یہ منطق بھی سمجھ میں نہیں آ رہی ہے کہ فوجی سربراہ کی بھرپور عوامی تائید اور حمایت کی موجودگی میں آخر ان کی اتنی پبلسٹی کی ضرورت کیوں پڑ رہی ہے۔ 

مہذب معاشروں میں قومی شخصیات کی خدمات کے اعتراف اور خراج عقیدت پیش کرنے کے مروجہ باوقار طریقے ہوتے ہیں جو شخصیات کی عظمت اور بڑائی کے ساتھ ساتھ قوموں کی عزت نفس ، عزت و وقار کی بھی علامت ہوتی ہے۔ اور ایک مہذب قوم کے ناطے پاکستانی عوام کو اپنے قومی ہیروز کو ان کی عزت و احترام کرنے کا سلیقہ آتا ہے اور یہ بات جنرل راحیل شریف کی عوامی سطح پر انتہائی قدرومنزلت سے پوری طرح عیاں ہے۔

سوشل میڈیا کے دور میں جہاں نہ صرف معلومات تک رسائی عام ہوگئی ہے بلکہ معلومات یا اپنی رائے کو دیگر لوگوں تک پہنچانا بہت آسان ہوگیا ہے اور سنسرشپ یا معلومات پر کنٹرول نہ ہونے کے برابر ہے۔ اب ہر شہری کو اپنی رائے کے اظہار کے بہت سے فورم میسر ہیں۔ اور وہ بلا خوف و خطر اور دھڑلےسے اپنے رائے کا اظہار کر رہا ہے۔ اب شہریوں کے لئے نہ تو کوئی ادارہ مقدس گائے رہا اور نہ کوئی شخصیت تنقید سے مبرا۔ ایسے میں متعلقہ اداروں کو حد درجہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ پروپیگنڈا یا فن شخصیت سازی کی بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔ کچھ حدود ہوتی ہیں اور ایک توازن رکھنا پڑتا ہے۔ 

 مثلاًپچھلے سال 31 دسمبر کو ایک قومی اخبار میں آدھے صفحے سے زیادہ پر ایک آرٹیکل نما اشتہار یا اشتہار نما آرٹیکل چھپا۔ جس میں 16 عدد تصاویر میں جنرل راحیل شریف صاحب کو دکھایا گیا اور 34 دفعہ سے زیادہ ان کا نام لکھا گیا تھا ۔ آرمی چیف کے میڈیا مینجرز یا جس نے بھی یہ آرٹیکل تیار کیا تھاشاید جنرل صاحب کو ایک پیشہ ور جنرل کی بجائے ایک روایتی وزیر یا وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم ثابت کرنا چاہتے ہیں جو ہر اچھے کام کا کریڈٹ لینے کی کوشش کرتے ہیں ۔

چیف آف آرمی سٹاف کے باوقار عہدے اور مقام کو کافیعرصے سے متنازعہ بنایا جا رہا ہے مگر متعلقہ فوجی محکمہ صرف بیانات کی حد تک یا تو اس سے لاتعلقی کا اظہار کرتا ہے اور یا تردید ۔ جبکہ ایسے بیانات اور حرکتوں کا سختی سے نوٹس لیا جانا چائیے ۔ سیاستدان اور سرکاری افسر اور وہ بھی پھر فوج کا میں کچھ فرق تو ہوناچا ہیے ۔ اس سلسلے میں خاموشی اور بےعملی بہت سی افواہوں اور غلط فہمیوں کو جنم دے رہی ہے۔ 

اگر مارشل لا ادوار میں کچھ آمروں نے اپنی شہرت یا پبلسٹی کیلئے یہ طریقے اختیار کیے ہوں تو ان کو اس کی ضرورت تھی۔  مگر اچنبھے کی بات یہ ہے کہ ایک ایسی شخصیت جو مقبولیت اور شہرت کی بلندیوں کو چھو رہی ہے شخصیت سازی کیلئے ان مصنوعی سہاروں کا کیوں سہارا لیا جا رہاہے۔لگتاہے کچھ لوگ نادانی میں یا اندھی عقیدت میں  شعوری یا لاشعوری طور پر پیشہ ور فوجی قیادت کی اس قسم کی بھونڈی اور حد سے زیادہ پبلسٹی سے ان کی پیشہ ورانہ ساکھ کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ کیونکہ پیشہ ور لوگ اکثر فوجی افسران کی طرح اپنے فرض سے کام رکھتے ہیں اور خاموشی سے کام کرنے کے عادی ہوتے ہیں ۔  سنجیدہ قومی حلقوں میں اس حوالے سے شدید ناپسندیدگی پائی جاتی ہے کیونکہ ان کے خیال میں یہ سب کچھ اس اہم قومی عہدے کی عزت اور وقار کے شایان شان نہیں۔ 

جب موجودہ لوگ ریٹائر ہو جائیں گے اور راوی تاریخ لکھے گا تو یہ کسی بھی غیر آمر فوجی سربراہ کی شخصیت سازی کی انتہائی بھونڈی اور بدترین شخصیت سازی کی مہم کہلائی گی۔ جس کی وجہ سے ملک کا انتہائی ا ہم ، قابل احترام ، باوقار اور خالصتاً پیشہ وارانہ عہدہ عام شہریوں کا موضوع بحث بن گیا ہے۔ جو کہ عموماً زیر بحث نہیں رہتا اور نہ رہنا چائیے۔  

چاہے کوئی نودولتیا ہو یا بلدیاتی امیدوار یا پراپرٹی ڈیلر یا موٹر بارگین والا سب کو کھلی چھٹی ہے کہ وہ اپنی پبلسٹی کا کوئی بھی بینر بنائے اور اس پر اپنے ساتھ فوجی چیف کی تصویر بھی لگالے کوئی روک ٹوک کرنے والا نہیں۔  عموماًاگر کسی کو کوئی شخصیت پسند ہے تو اس کی تصویر اپنی گاڑی ، ٹرک یا دفتر میں لگاتے ہیں۔  کسی اعلیٰ ریاستی یا حکومتی شخصیت کی تصویر کیسے اور کس طرح  استعمال کیا جائے کے لئے کسی پروٹوکول کا ہونا ضروری ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ ایسا کوئی پروٹوکول نہیں ہوگا۔ قومی شخصیات کی بیجا اور غیر متناسب تشہیر بعض اوقات ان کے وقار کے منافی اور ساکھ کو نقصان پہنچانے کا سبب بنتا ہے اور ان کو غیر ضروری طور پر متنازعہ بناتا ہے۔

جہاں تک موجودہ پوسٹرز کا تعلق ہے تو پتہ نہیں اس کو برداشت کیوں کیا جا رہا ہے۔ سستی شہرت کے شوقین فوج کو کھلے عام آئین توڑنے یا آئین کی شق چھ جو غداری کے مترادف ہے کی خلاف ورزی پر فوجی سربراہ جیسی شخصیت کو اکسایا جا رہا ہے ۔ اور انھیں ایسے کام پر اکسایا جا رہا ہے جس کی وجہ سے جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹنے والے ان کے پیشرووں کی ابھی تک عوامی سطح پر لعنت اور ملامت ہورہی ہے۔

ملک کے گیارہ بڑے شہروں میں پوسٹرز لگائے گئے حتی کہ فوجی چھاؤنیوں میں جہاں کوئی عام شہری پوسٹر یا بینر نہیں لگا سکتا اور وہاں بھی فوج کو غداری پر اکسانے والا پوسٹر کھلم کھلا لگے اور لگا ئے جارہے ہیں۔ یہ عجیب بات لگتی ہے۔ پوسٹر لگانے والا یا تو خود بہت بااثر ہے یا بااثر قوتوں کی اس کو پشت پناہی حاصل ہے۔ 

ویسے پوسٹرز کے پس پردہ کسی غیرمعروف فرد کی سستی شہرت حاصل کرنے کی خواہش کے علاوہ بعض قوتوں کے کچھ مقاصد بھی ہو سکتے ہیں۔ پہلا مقصد تو فوج کو آئین توڑنے پر اکسانا اور انھیں شہہ دینا ہے کہ وہ جمہوری حکومت کو چلتا کرے ۔ دوسرا مقصد مارشل لاء کے حوالے سے لوگوں کے خیالات اور رائے معلوم کرنا بھی ہوسکتا ہے۔ اور تیسرا حکومت کو دباو میں لاکر من پسند فیصلے کروانا مثلاملازمت میں توسیع یا نئے چیف کی تقرری وغیرہ۔   بینرز پر سب سے دلچسپ تبصرہ جاوید ھاشمی نے کیا اور کہا کہ بینر لگانے سےکوئی نہیں آتا جس نے آنا ہوتا ہے آجاتا ہے مگر بینر لگنا خطرے کی بات ہے۔

One Comment