توہین مذہب کے الزام میں 17سالہ ہندو لڑکا قتل

بھارت کی ریاست مدھیہ پردیش کے علاقے مندسور میں مبینہ طور پر ہندو تنظیم کے کچھ لوگوں نے دو مسلمان خواتین کی پٹائی کی کہ شاید ان کے پاس گائے کا گوشت ہے۔ خواتین کے ساتھ مارپیٹ کے واقعے کی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد بھارتی پارلیمنٹ میں بھی اس پر گرما گرم بحث ہوئی۔

اپوزیشن جماعت کانگریس پارٹی نے حکومت پر الزام لگایا کہ ریاست میں بی جے پی کی حکومت اور اسے وابستہ ہندو تنظیمیں خوف و ہراس کا ماحول قائم کیے ہوئے ہیں۔

دوسری طرف پاکستان بھر میں بلکہ خاص کر صوبہ سندھ میں مذہبی انتہا پسندوں کی طرف سے خوف و ہراس کا ماحول کئی سالوں سے قائم ہے۔ سندھ میں ہندوکمیونٹی مسلسل خوف وہراس کا شکار ہے۔ مسلمانوں کی طرف سے خوبصورت ہندو لڑکیوںکو اغوا کرکے زبردستی مسلمان کر کےان سے شادیاں رچائی جاتی ہیں۔ریاست اور عدالتیں ہندو کمیونٹی کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہیں۔

پاکستانی ذرائع ابلاغ میں ہندووں کی بنیاد پرستی موضوع بحث بنی ہوئی ہے اور برگذیدہ کالم نگار ہندووں کی مکاری اور چالاکی کےقصے سنانے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں مصروف ہیں لیکن  پاکستان کے صوبہ سندھ کے شہر گھوٹکی میں توہین رسالت کے الزام میں سترہ سالہ ہندو لڑکے کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔جس کی خبر نہ تو پاکستانی میڈیا میں وائرل ہو سکی اور نہ ہی کسی سیاستدان نے اس قتل کی مذمت کی ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے مقامی پولیس کے حوالے سے بتایا کہ نامعلوم مسلح افراد نے کل بدھ کے دن ایک اٹھارہ سالہ ہندو لڑکے کو گولی مار کر ہلاک کر دیا جبکہ فائرنگ کی وجہ سے اس کا دوست شدید زخمی ہے ۔

پولیس کے مطابق چار روز قبل ایک مقامی مسجد کے قریب سے مبینہ طور پر قرآن کی چند جلی ہوئی جلدیں ملی تھی، جس کے بعد ایک ہندو کو گرفتار بھی کر لیا گیا تھا۔

مقامی حکام نے بتایا کہ گھوٹکی میں پولیس کا گشت سخت کر دیا گیا ہے تاکہ کسی نئے ناخوشگوار واقعے سے بچا جا سکے۔ اس شہر میں گزشتہ کئی دنوں سے ماحول کافی تناؤ کا شکار ہے۔پولیس کے بقول ہندو لڑکے کی ہلاکت کی تحقیقات شروع کر دی گئی ہیں جبکہ ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔

توہین رسالت یا توہین مذہب کے نام پر مخالفین سے بدلہ لینے کے واقعات پاکستان میں عام ہیں۔ یہ قانون انتہائی متنازعہ بن چکا ہے مگر کسی بھی حکومت میں اتنی جرات نہیں کہ اس کو تبدیل کر سکے۔ توہین مذہب کے ایسے کسی مبینہ واقعے یاافواہ پر مشتعل ہجوم قانون کو اپنے ہاتھوں میں لے کر اقلیتوں کے مکان اور بستی تک جلا دیتے ہیں ۔

چند ماہ پہلے صوبہ پنجاب کے شہر جہلم میں قرآن پاک کے جلانے پر احمدیہ کمیونٹی کے گھروں کو آگ لگادی گئی تھی ۔پاکستان میں آج تک ایسے کسی واقعے کی غیر جانبدارانہ تفتیش بھی نہیں ہوئی اور نہ ہی مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا ہے جس سے اکثریتی مسلمان آبادی کو ان معاملات میں قانون کو ہاتھ میں لینے کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔

پاکستان میں توہین مذہب اور توہین رسالت کے خلاف نافذ سخت قوانین کے تحت ایسے کسی بھی مجرم کو سزائے موت بھی سنائی جا سکتی ہے لیکن ابھی تک ایسے کسی مجرم کو سنائی گئی سزائے موت پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔

Comments are closed.