غیرت کے نام پر قتل کے مجرموں کو معافی نہ دے کر ریاست اپنی ذمّہ داری پوری کرے

Asif Javaid4

آصف جاوید

دنیا کے ہر مہذّب ملک میں انسانی قتل کو ریاست کے خلاف جرم تصوّر کیا جاتا ہے۔ اور ریاستی اداروں کی ذمّہ داری ہوتی ہے کہ وہ قاتل کو گرفتار کر کے معہ ثبوت و گواہان عدالت میں پیش کریں، ریاست استغاثہ داخل کرتی ہے، پبلک پراسیکیوٹر(ریاستی کا عدالتی نمائندہ) ثبوت و گواہان کی روشنی میں ریاست کے وکیل کی حیثیت سے عدالت سے درخواست کرتا ہے کہ عدالت باقاعدہ مقدمہ چلا کر عدالتی کار روائی کے عمل سے قاتل کو انجام تک پہنچائے۔

دنیا کے کسی مہذّب ملک میں ایسا دستور نہیں ہے کہ جہاں خون بہا ” (انسانی جان کی قیمت ) دے کر قاتل کو معاف کردیا جائے۔ کیونکہ اگر قاتل طاقتور ہو تو، مقتول کے ورثاء کو لالچ ، دباو اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دے کر، ڈرا دھمکا کر ، الغرض یہ کہ کسی بھی ذریعے سے خون بہا لیکر کر معاف کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔

تو اس صورتحال میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ریاست کی کیا ذمّہ داری ہے؟ ہر طاقتور اور امیر مجرم جب چاہے گا اپنے کسی بھی مخالف کو قتل کردے گا، اور پھر بعد میں ڈرا دھمکا کر یا لالچ دے کر ، ورثاء کو خوں بہا لیکر معاف کرنے پر مجبور کرے گا۔ اور ریاست خاموش تماشائی بنی تماشا دیکھتی رہے گی۔ ہم 21ویں صدی میں رہ رہے ہیں۔ دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے۔ اب دورِ جہالت کے قوانین متروک ہوچکے ہیں۔ بنیادی انسانی حقوق اور انصاف کی فراہمی ہر ریاست پر لازم ہے۔

جنرل ضیاء الحق نے اپنے دورِ اقتدار میں پاکستان میں اسلامائزیشن کے نفاذ کے لئے ریاست پاکستان کے پورے عدالتی نظام کا ڈھانچا ہی بدل کر رکھ دیا ، قصاص اور دیت کا قانون ، ضیاء الحق نے ہی متعارّف کرایا تھا۔ پاکستانی پارلیمنٹ نے عدالتوں کے حکم پر قصاص اور دیت کا قانون منظورکیا تھا جو ابھی تک نافذ العمل ہے ۔

قصاص اور دیت کے قانون کے نفاذ سے پہلے پاکستان میں کسی بھی شہری کا قتل ریاست کے خلاف جرم متصوّر ہوتا تھا۔ قصاص دیت کے قانون کے نفاذ کے بعد پاکستان میں قتل کے جرم کی ہیت ہی تبدیل ہو گئی ہے ۔ اب قتل کا جرم ریاست کے خلاف جرم نہیں ہے، بلکہ یہ جرم اب فرد کے خلاف جرم ہے۔

یعنی قصاص اور دیت کے قانون کے نفاذ کے بعد قتل کے جرم کے معاملے میں ریاست کا کردار خاموش تماشائی میں تبدیل ہوگیا ہے۔ پاکستان میں غیرت کے نام پر خواتین کے قتل تو ہمیشہ باپ ، بھائی، شوہر یا خاندان کے دوسرے افراد ہی کرتے ہیں، اور پھر اسی خاندان میں مقتولہ کے ولی موجود بھی ہوتے ہیں جو قصاص اور دیت کے قانون کا سہارا لے کر قاتل کو معاف کرسکتے ہیں ۔

قصاص اور دیت کے قانون کے نفاذ کے بعد کسی بھی خاندان کے اندر غیرت کے نام پر ہونے والا قتل عملاً کوئی جرم ہی نہیں ہے۔ خود خاندان کے افراد، گاوں کے لوگ، پنچایت یا برادی ایسے قتل کو جائز سمجھتے ہیں، غیرت کے نام پر ہونے والے اکثر قتل تو رپورٹ بھی نہیں ہوتے، جو رپورٹ ہوجاتے ہیں، وہاں خاندان کے لوگ قصاص اور دیت کے قانون کا سہارا لے کر معافی نامہ داخل کرکے قاتل کو آزاد کرا لیتے ہیں۔

قصاص اور دیت کے قانون کے نفاذ کے بعد پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل انتہائی آسان ہوگیا ہے۔ خاندان کے مرد بلا خو ف قتل کرتے ہیں اور پھر خاندان کا ہی کوئی وارث معاف کردیتا ہے، اور یوں قصّہ ختم ہوجاتا ہے۔ جب تک پاکستان میں قصاص اور دیت کے قانون کو منسوخ نہیں کیا جاتا ہے، ملک میں غیرت کے نام پر قتل کا سلسلہ جاری رہےگا، کیونکہ اب جرم ریاست کے خلاف نہیں بلکہ فرد کے خلاف ہے۔ ریاست محض خاموش تماشائی ہے۔

ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے پاکستان میں غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کے اعداد و شمار جاری کئے ہیں، ان اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں قتلِ غیرت میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ سال 2013 میں غیرت کے نام پر 869 قتل ہوئے، سال 2014 میں یہ تعداد 1000 تھی، اور سال 2015 میں یہ تعداد بڑھ کر 1100 ہوگئی ہے۔

قندیل بلوچ کے قتل کے سلسلے میں ریاست نے کچھ سمجھداری دکھائی ہے اور پنجاب پولیس نے قندیل بلوچ کے قتل کے مقدمے میں غیرت کے نام پر قتل کئے جانے کی دِ فعہ 311 سی بھی شامل کر لی ہے جس کے تحت مدّعی، ملزمان کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔ قندیل بلوچ کے قتل کے مقدمے میں ضابطہ فوجداری کی دفعہ 311 سی کو شامل کیا گیا ہے، جو غیرت کے نام پر قتل کرنے سے متعلق ہے۔ جس کے بعد اس مقدمے سے متعلق فیصلہ عدالت میں ہی ہو گا اور مدّعی مقدمہ اس میں ملوث ملزمان کو اپنے طور پر معاف نہیں کر سکے گا۔ اب یہ فرد کے خلاف جرم نہیں، بلکہ ریاست کے خلاف جرم ہے۔

انسانی حقوق کے عالمی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے پاکستانی حکام پر زور دیا ہے کہ وہ قتلِ غیرت اور عورتوں پر تشدّد کے مجرموں کی معافی کے سلسلہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم کردے۔

قتلِ غیرت کے مجرموں کو اپنے جرائم کی سزا دینے میں ناکامی کی وجہ سے پاکستانی ریاست مجرمانہ غفلت کی مرتکب ہوتی ہے۔ متاثرین کو انصاف فراہم کرنے کے فرض سے اجتناب سے ہزاروں معصوم زندگیوں کو خطرات کا سامنا ہوتا ہے۔ جن کی بڑی تعداد عورتوں اور بچوں پر مشتمل ہے۔ ریاست کو اپنے معصوم شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کی ضرورت ہے۔