حریت کانفرنس :کشمیر میں امن کی راہ میں رکاوٹ

بھارتی پریس سے: غصنفر علی خان

18-1429338781-masaratalam-geelani-yasinmalik

وادی کشمیر گزشتہ کئی دنوں سے سلگ رہی ہے ۔ ویسے بھی کشمیر میں امن و امان کی صورتحال کبھی مکمل طور پر بحال نہیں رہی لیکن ان دنوں (گزشتہ تقریباً دو ہفتوں سے) کشمیر میں وہاں کی علحدگی پسند تنظیم ’’حزب المجاہدین‘‘ کے لیڈر برہان درانی کی ہلاکت کے بعد تشدد پھوٹ پڑا، تادم تحریر 42 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ عوام سڑکوں پر اتر آئے۔ مسلسل کرفیو کے نفاذ کے باوجود قتل اور خون ہورہا ہے ۔ معصوم عوام ہلاک ہورہے ہیں۔ پاکستان اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آگ پر تیل چھڑک رہا ہے ۔ وہ ان حالات کو آلۂ کار بناکر کشمیر کے مسئلہ کو بین الاقوامی کینوس پر لانے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے ۔

ہندوستانی حکومت اور کشمیر کی ر یاستی حکومت حالات پر قابو پانے میں بری طرح ناکام ہوگئی ہے ۔ طاقت کے زور پر امن کی بحالی کا تجربہ بے نتیجہ ثابت ہورہا ہے۔ اپوزیشن پار ٹیوں خاص طور پر کانگریس نے پارلیمنٹ سیشن کے آغاز سے قبل منعقدہ کل جماعتی میٹنگ میں حکومت سے کہا ہے کہ کشمیر کے حالات کو طاقت کے استعمال سے قابو میں نہیں لایا جاسکتا بلکہ اس مسئلہ کا کوئی سیاسی حل تلاش کیا جانا چاہئے ۔ مرکزی  حکومت ا پوزیشن کے اس مطالبہ پر دوہرے پن کا شکار ہوگئی ہے ۔

حکومت اپوزیشن کی اس تجویز کی نہ تو کھل کر مخالفت کرسکتی اور نہ پوری طرح اس پر عمل کرسکتی ہے ۔ کشمیر کی ساری وادی میں کرفیو نافذ ہے ہر دن اس میں توسیع ہورہی ہے لیکن اپوزیشن جماعتیں خود اپنی تجویز کے سلسلہ میں کوئی معقول فارمولہ پیش کرنے سے بھی قاصر ہیں ۔ نقصان کشمیری عوام کا ہورہا ہے ۔ سیاسی حل اگر تلاش کیا گیا تو آخر کیوں کر کیا جائے ۔

ان حالات کا ایک فریق کشمیر کی کئی چھوٹی چھوٹی اور نسبتاً کم اثر رکھنے والی 27 پارٹیوں پر مشتمل حریت کانفرنس ہے جو صرف آگ کو دہکانے کا کام کر رہی ہے لیکن ایک بار مرکزی بی جے پی حکومت کو سمجھ لینا چاہئے کہ کشمیر کا مسئلہ اس کاا پنا مسئلہ نہیں ہے ۔ یہ سارے ہندوستان اور اس کی تمام سیاسی پارٹیوں کا اور سب سے بڑھ کر ہمارے قومی اتحاد اور انا کا مسئلہ ہے ۔

بی جے پی اگر یہ سمجھتی ہے کہ وہ تنہا اس کا کوئی حل تلاش کرسکتی ہے تو یہ اس کی خام خیالی ہے کیونکہ کشمیر کا مسئلہ گزشتہ 68 سال سے چلا آرہا ہے اور اس کو حل کرنے کی تمام تر کوششیں جو ہر ہندوستانی حکومت نے کی بار آور نہ ہوسکیں۔ خود بی جے پی کے بزرگ لیڈر و سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کو بھی ا پنی کوششوں میں کامیابی نہیں ملی تھی۔ واجپائی سے بڑا اور تجربہ کار لیڈر آج بی جے پی کی صفوں میں نہیں ہے موجودہ وزیراعظم قومی اور بین الاقوامی مسائل سے تقریباً نابلد ہیں۔ پارٹی میں قومی مسائل پر غور و فکر کرنے والے لیڈر عنقاء ہے جبکہ مسئلہ کشمیر نہایت درجہ فراست ، تدبر اور حکمت عملی کا متقاضی ہے۔

یہ ہراعتبار سے ساری ہندوستانی قوم کا مسئلہ ہے۔ پارلیمنٹ میں نمائندگی کرنے والی ہر سیاسی پارٹی کو اس کی یکسوئی میں اپنا حصہ ادا کرنا ہے ۔ یہ تصور کے کوئی ایک پارٹی اس مسئلہ کا حل نکال لے گی مسئلہ کو اور الجھانے کا ذریعہ بن جائے گا ۔ بی جے پی کو اپوزیشن اور خاص طور پر کانگریس کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہئے ۔ایک طرف تو بی جے پی کشمیر کو ہندوستان کا قومی مسئلہ قرار دیتی ہے ۔ دوسری طرف اس کے حل کے معاملہ میں وہ پوری طرح یکطرفگی کا شکار ہوکر یہ سمجھتی ہے کہ وہ کامیاب ہوجائے گی ۔

اس سلسلہ میں بی جے پی کو سیاسی اجارہ داری کے حصاروں سے باہر نکلنا پڑے گا اور ملک کی تمام ا ہم اور بڑی سیاسی پارٹیوں کی اس مسئلہ پر رائے حاصل کرنی ہوگی ۔ اس صورت میں کوئی پیشرفت ہوسکتی ہے۔ یہ تو ایک طئے شدہ بات ہے کہ کشمیر ہندوستان ہی کا ایک اٹوٹ حصہ ہے ۔ اس پر پاکستان کا کوئی حق نہیں ہے ۔ کم از کم اس خیال کو پیش نظر رکھتے ہوئے سیاسی پارٹیوں کی رائے مرکزی حکومت اور وزیراعظم مودی کو حاصل کرنی چاہئے ۔

سیاسی مسائل کے حل کیلئے بردباری اور سنجیدگی کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ خوبیاں اس وقت تک پیدا نہیں ہوتیں جب تک کہ وسیع تر بنیادوں پر دوسری پارٹیوں سے مفاہمت نہ کی جائے۔ کوئی پارٹی وطن دشمن نہیں ہوتی ۔ سب ملک کی یکجہتی اور یکتائی کیلئے ہی کام کرتی ہیں ۔ ملک کی کوئی سیاسی پارٹی ہرگز یہ نہیں چاہتی ہے کہ کشمیر کا کوئی ایسا حل تلاش کیا جائے جس سے پاکستان کو ہی فائدہ ہو۔

ہر پارٹی مسئلہ پر غور و فکر کے دوران یہی سوچتی ہے کہ کشمیر میں مقامی اور قومی سطح پر امن و آشتی کی فضاء پیدا ہو اور وادی کشمیر کے علاوہ ساری ریاستی کشمیر کے عوام سکون کی زندگی گزار سکیں ۔ یہ صورتحال وادی میں بی جے پی حکومت آج تک پیدا نہ کرسکی۔ اس لئے اس کو اس ضمن میں ہونے والی ہر کوشش میں دیگر پارٹیوں کو بھی شامل کرتے ہوئے اس قومی مسئلہ کا کوئی قومی حل تلاش کرنا ہوگا ۔

یہ اس صورتحال میں ممکن ہے جبکہ اپوزیشن جماعتوں کی مشاورت سے پہلے یہ طئے کیا جائے کہ آخر مسئلہ کے سیاسی حل سے ان کی کیا مراد ہے ۔ یہ بات اپوزیشن پارٹیوں کو بھی ذہن نشین کولینی چاہئے کہ ہندوستان کشمیر کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا ۔اگر سیاسی حل سے مراد یہ ہے کہ کشمیر میں عوامی نمائندگی کی دعویدار جماعتوں سے بات کی جائے تو پھر بی جے پی حکومت کو اس تجویز پر غور کرنا چاہئے ۔

اس سلسلہ میں سب سے بڑی رکاوٹ حریت کانفرنس ہے ۔ حریت کانفرنس کو کسی بھی لحاظ سے کشمیری عوام کا نمائندہ نہیں سمجھا جاسکتا کیونکہ حریت نے کبھی کشمیر میں منعقدہ کسی انتخابات میں حصہ نہیں لیا ۔ کشمیر کی اسمبلی یا ملک کی پارلیمنٹ میں اس کا ایک بھی نمائندہ نہیں ہے اور یہ کوئی آج کی بات نہیں ، روز اول ہی سے حریت کانفرنس نے گلی کوچوں اور سڑکوں پر اپنی طاقت دکھانے کی ناکام کوشش کی ۔ حالانکہ کبھی کسی نے اس کو انتخابی سیاست میں حصہ لینے سے روکا نہیں تھا ۔

حریت دو عملی کا شکار ہے ، ایک طرف وہ کشمیری عوام کی نمائندگی کا دعویٰ کرتی ہے اور دوسری طرف پارلیمنٹ یا اسمبلی میں داخل نہیں ہونا چاہتی ۔ حالانکہ کشمیر میں 1952 ء کے بعد سے جتنے بھی عام انتخابات ہوئے ، انہیں کشمیر کے مسئلہ پر استصواب عامہ قرار دیا جاسکتا ہے  اور اس استصواب عامہ یا ریفرنڈم کرانے کا علحدگی پسند مطالبہ کرتے ہیں جن کو پاکستان کی کھلی تائید حاصل ہوئی ہے ۔

کشمیر مسئلہ پر ریفرنڈم تو ملک کی آزادی کے بعد ہوئے پہلے ہی انتخابات میں ہوچکا ہے ۔ اس حقیقت کو مگر حریت یا دیگر علحدگی پسند چھوٹے چھوٹے گروپوں نے تسلیم نہیں کیا ہے تو یہ ان کی سیاسی معاملہ فہمی کے نہ ہونے کا ثبوت ہے ۔ وادی میں پائیدار امن کے قیام کے بارے میں ہر کوشش اجتماعی طور پر جاری رکھی جانی چاہئے۔

Daily Siasat, Hyderabad, India

3 Comments