چلو ایدھی کو ڈھونڈتے ہیں

13767348_10208177711053468_2656519165861739623_o (2) (1)

علی احمد جان

مرنے پر کسی نے اس کو مُلا تو کسی نے ملحدکہا ، کسی نے گرو گردانا تو کسی نے اس کو غیر ملکی ایجنٹ کہا ، الغرض سب نے اپنی اپنی عینکوں سے ایدھی کو دیکھا اور اپنے فریم میں قیدکرنے کی کوشش کی ۔ زندگی اپنے ایک مخصوص انداز میں گزارنے والے اس شخص کے پیمانے پر اپنے آپ کو وسعت دینے کی بجائے لوگوں نے اپنے مطابق انہیں سکیڑنے کی کوشش کی ۔

زندگی بھر ایک جوڑا کھدر کے کپڑے میں گزارنے اور اسی لباس میں رخصتی کو ترجیح دینے والے فاقہ مست درویش کو ریشمی پرچموں میں لپیٹ کراور عدم تشدد کے علمبردار کو توپوں کی سلامیاں دے اس کی زندگی بھر کی ریاضت کا مذاق تو خوب اڑایا گیا مگر کسی نے ایدھی کو تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی۔

ایدھی کون تھا؟ کیا وہ ایک ہی تھا؟ کیا ایدھی ہمارے اندر بھی موجود ہے ؟ ایدھی ایک شخص کا نام ہے یا ایک کیفیت ہے ؟ ایدھی ایک فلسفہ ٔ حیات یا نظریہ عمل ؟ ایک مزاج ہے یا پھر ایک طرز زندگی ؟

ہم سب ہی لیزر کے شعاؤں سے بخوبی واقف ہیں کیونکہ یہ شعائیں اب پوری دنیا میں طبیعی مقاصد کے لیٔے استعمال ہوتی ہیں چاہے وہ ہمارے جسم کے اندر بیماری کی تشخیص کے لیٔے ایکسرے ہو یا ہماری آنکھوں کی بینائی کی بحالی کے لیٔے لیزر کا اپریشن۔ لیکن ہم میں سے بہت کم لوگ بنگال کے ڈاکٹر مانی بھاومک کو جانتے ہیں ۔

ڈاکٹر مانی بھاومک نے ان شعاعوں کو قابل استعمال بنایا اور انہیں انسانی زندگیاں بچانے کے کام میں لایا۔ اس بنگالی بھاؤ نے ایک کتاب کوڈ نیم گاڈ بھی لکھی جو اس باکمال آدمی کی خود نوشت سوانح حیات ہونے کے ساتھ ساتھ اس دور کے سیاسی و سماجی حالات اور واقعات پر بھی روشنی ڈالتی ہے۔اس سب کے علاوہ اس کتاب کا خاص موضوع اس حقیقت کی تلاش ہے جسے دنیا کے اکثر لوگ خدا کہتے ہیں۔

ڈاکٹر مانی متحدہ ہندوستان کے طبقاتی سماج میں نچلی ذات سے تعلق رکھنے والے ایک انتہائی غریب گھرانے میں پیدا ہوئے۔ وہ شاید اپنی پیدائش کے فوراً بعد ہی مر جاتے اگر ایک اونچی ذات کی عورت دوسری عورتوں کی طرح اس اچھوت بچے کی ناف کاٹ کر اس کی درد تڑپتی ماں سے اسے جدا نہ کرتی ۔

بقول ڈاکٹر مانی کے وہ ان لاکھوں بچوں کی طرح مر گئے ہوتے اگر بنگال کے اس قحط میں ان کی دادی نے اپنے حصے کی روٹی رات ان کے منہ میں نہ ڈالی ہوتی جس رات وہ خود بھوک سے مر گئی تھی۔ وہ شاید اس قدر امیر آدمی نہ بن پاتا اگر اس کا پروفیسر اسے نہ سمجھاتا اور اسے امتحان پاس کرانے کے لیٔے لیزر شعاعوں پر کی گئی تحقیق کے حقوق اس کے نام نہ کرتا ۔

ذرا سوچئے اگر وہ عورت نہ ہوتی جس نے دیگر ہزاروں ، لاکھوں عورتوں کی طرح اس اچھوت کی ناف کاٹی ، اگر اس دادی نے لاکھوں کروڑوں دادیوں کے برعکس اپنے بھوکے پوتے کو اپنے حصے کی روٹی نہ دی ہوتی، اگر اس پرو فیسر نے ہزاروں دیگر پروفیسروں کی طرح ایک ایشیائی نوجوان کی تحقیق کو نظر انداز کردیا ہوتا تو آج ہمیں خبر نہ ہوتی کہ مانی کون تھا اور اس کے ساتھ کیا ہوا۔ آج کئی لوگ جو صرف لیزر شعاعوں کی وجہ سے ہی زندہ ہیں ، وہ سب مر چکے ہوتے ۔

ڈاکٹر مانی نے جلد ہی اس راز کو پالیا اور ان سب کرداروں کو جنھوں نے اس کو زندہ رکھ کر دوسروں کی زندگیاں بچائیں۔ ان سب کو کہیں اور نہیں بلکہ اپنے اندر ہی ڈھونڈ لیا ہے اور وہ اس راہ پر چل پڑے جس پر اس کی دادی، وہ عورت جس نے اس کی ناف کاٹی یا وہ پروفیسر جس نے اس کو راہ دکھائی تھی چل رہے تھے۔ وہ چاہتا تو ان سب کے نام ایک ایک ہسپتال ، سکول یا کوئی فلاحی ادارہ بنا کر بھی اپنے ضمیر کو مطمئن کر سکتا تھا مگر اس نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ خود ان کی راہ پر چلے گا، کیوں کہ ڈاکٹر مانی سمجھ چکے تھے کہ خدا اس کے اپنے اندر ہے اور وہ خودچاروں اور پھیلی اس بسیط حقیقت کا حصہ ہے۔

ہم سب نے ایدھی کی شان میں قصیدے پڑھے ۔ نوحے لکھے،سلامیاں دیں مگر مانی کی طرح اپنے ایدھی کو ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی۔ ایدھی کہیں اور نہیں ہمارے اندر رہتا ہے۔ ہم سب کہیں نہ کہیں ایدھی ہیں مگر شاید اتنے بڑے نہیں، کسی میں ایدھیت کم ہے تو کسی میں زیادہ ہے، مگر ایدھیت ہے ضرور۔اگر نہ ہوتی تو ہم چٹخ کر ٹوٹ جاتے ۔

ہم پنگھوڑے بچھا کر لاوارث بچوں کی کفالت کا کام باقاعدگی سے تو نہیں کرتے مگر ہم میں سے اکثر کسی گندگی کے ڈھیر پر پڑے نوزایٔیدہ لاوارث بچے کو حرامی سمجھ کر کتوں کے حوالے بھی نہیں کرتے۔ ہم ایدھی کی طرح دفنانے کے لیٔے لاشوں کے پیچھے نہیں جاتے نہ ہم بلا تخصیص لاشوں کو اٹھاکر ان کو غسل دیکر سپرد خاک کرتے ہیں ہاں مگر ہم میں سے بہت سے لاشیں بھی نہیں گراتے اور لاشوں کی بے حرمتی بھی نہیں کرتے ہیں۔

ہم ایدھی کی طرح رنگ نسل و مذہب کا امتیاز خاطر میں لائے بغیر بزرگوں کی کفالت کا کام نہیں کرتے مگر ہم میں سے بہت سے اپنے بزرگوں کی کفالت خود کرکے ایدھی کے کام میں معاونت ضرور کرتے ہیں۔ ہم یتیم اور غریب بچیوں کی شادیاں کرانے کا کام باقاعدہ طور پر نہیں کرتے مگر ہم میں سے اکثر خود جہیز جیسی برائی سے انکار کرکے اور غریب بچیوں کی شادیوں میں مدد کرکے اپنے اندر ایدھی کے ہونے کا پتہ دیتے ہیں ۔

ایدھیت سماج میں ایک مثبت کردار اور ہر طرح کی مشکلات کے باوجود دوسروں کی مدد کرنے کا نام ہے۔ ایدھیت ایک بے لوث جذبے کا نام ہے جس پر کسی ایک مذہب اور نظریے کی اجارہ داری نہیں بلکہ یہ جذبہ اپنی راہ خود چنتا ہے اور اپنی منزل کا تعین بھی خود ہی کرتا ہے۔

ایدھیت کسی بھی جزا و انعام کی لالچ سے بالا تر بے لوث خدمت کا نام ہے جو دوسروں کے لیٔے ہوتی ہے۔ ایدھیت خود کو وقف کرنے کا نام ہے اور قربانی کا وہ مقام ہےجس کے آگے دنیا کی کوئی شے معنی نہیں رکھتی۔ ایدھیت بے خوفی، دلیری، بے باکی، جواںمردی اور مستقل مزاجی کا نام ہےجسے آندھیاں ، طوفان اور پہاڑ بھی روکنے کی جرات نہیں کرسکتے ۔

ہم ایدھی کی طرح لباس کے ایک جوڑے میں زندگی تو نہیں گزار سکتے مگر ہر عید پرکئی کئی جوڑے سلواکر پیسے ضائع کرنے کے بجاۓ مستقبل کے کسی ڈاکٹر مانی کی سکول کی فیس ضرور دے سکتے ہیں۔ ہم لاوارث اور یتیم بچوں کی کفالت اور تعلیم کا باقاعدہ بندوبست نہیں کرسکتے مگر اپنے گھروں میں کام کرنے والے غریب بچوں کی تعلیم کا بندوبست کرکے اپنی ایدھیت زندہ کرسکتے ہیں۔ ہم ایدھی کی طرح کسی مردے کی عینک اتار کر خود پہننے کی ہمت تو نہیں کر سکتے مگر اگر چاہیں تو ہزاروں روپے کسی برانڈ کی عینک پر خرچ کرنے کے بجاۓ ان پیسوں سے کسی غریب کی انکھوں کا علاج تو کرواسکتے ہیں۔

ہم انسانی لاشوں سے ڈرنے کے بجاۓ ایدھی کی طرح جی کر رعونیت، تکبر اور خودنمائی کی لاشوں سے مزاحمت تو کرسکتے ہیں۔ ہم اپنے مخصوص گروہوں، مسالک، مذاہب ، ملاؤں کی پیروی تو نہیں چھوڑ سکتے تو ایدھی کی طرح ان تمام تفرقات سے بالاتر ہوکر انسانیت کی خدمت تو کرسکتے ہیں۔ مال و دولت کی کمی نے ہمیں اگر دوسروں کی خدمت سے روک رکھا ہے تو کیا ہو ا ایدھی کی طرح ہم بعد ازمرگ اپنے اعضاء تو وقف کر سکتے ہیں ۔

یوں ایدھی ہمیں ہمارے اندر ملیں گے ۔ اس طرح ہم جان پائیں گے کہ ایدھی ایک شخص کےجینے کا اور دیکھنے کا ایک خوبصورت ڈھنگ ہے جسے ہم ایدھیت کہہ سکتے ہیں ۔

چلیں سب انہیں اپنے اندر تلاش کریں

2 Comments