منٹو اور قندیل۔سماج کا آئینہ

12491863_939910766100245_4230327276596795234_o

عظمیٰ نا صر

چھبیس سالہ قندیل بلوچ کے قتل نے سماج کے چھپے چہروں کو بے نقاب کیا ہے،بھائی کے ہاتھوں قندیل کے قتل نے یہ ثابت کر دیا کہ پاکستانی معاشرے میں شخصی آزادی نامی کسی چیز کا وجود ناقابل برداشت تصور کیا جائے گا ،شخصی آزادی اس حد تک تو قابل قبول ہے جس سے سات پردوں میں چھپ کے مستفید ہوا جائے ورنہ مارے جاو گئے۔

اور رہی بات ا نسانی حقوق کی تو اس کا حصول اس معاشرے میں جان دے کر ہی ہوسکتا ہے ،قندیل بلوچ ڈیرہ غازی خان کے غریب گھرانے میں پیدا ہوئی وہاں اسے فوزیہ کا نام دیا گیا ،قندیل کے 11 بہن بھائی تھے ،ابھی قندیل 17 سال کی ہی ہوئی تھی کہ اس کی شادی کر دی گئی پنجاب کے دور دراز علاقوں میں لڑکی کی شادی کی عمر سو لہ سترہ سال ہی تصور کی جاتی ہے ،قندیل کی شادی اس کی بربادی ثابت ہوئی آئے روز جسمانی اور ذھنی تشدد نے قندیل کے اندر بغاوت کو جنم دیا۔

وہ شاعر نہیں تھی کہ بغاوت کا اظہار شاعری میں کرتی،نہ مصورہ تھی اور نہ ہی افسانہ نگار اس کے ہاتھ میں کوئی اعلی ڈگری بھی نہ تھی جو اس کا سہارا بنتی وہ کوئی روزگار تلاش کرتی جو کہ ڈگری والیوں کے لیے بھی مشکل ہے ،قندیل کے والدین کے بارہ بچے تھے ان کو تعلیم دینا ان کے بس کی بات نہیں تھی ،اور رہی ریاست تو وہ ان جھمیلو ں میں پڑتی ہی نہیں کہ پاکستان کے ہر باسی کو تعلیم دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ یہ کتابی باتیں ہیں کتا بوں کی حد تک اچھی لگتی ہیں ۔

ان حالات میں قندیل نے دارلامان میں رہنے کا فیصلہ کیا شاید اسے گھر کی چاردیواری کی اذیت سے زیادہ دارلامان کی ذ لت بہتر لگی ،جب وہ دارالاامان گئی تو کسی بھائی کی غیرت نے جوش نہیں مارا اور نہ ہی فیس بکیوں نے اس وقت سوچا ہو گا کہ فوزیہ قندیل بھی بن سکتی ہے ،اور پھر کسی بھائی کی غیرت جوش مارسکتی ہے۔قندیل دارلاامان سے نکلی تو چھوٹی موٹی ملازمت کرنے لگی وہ سلسلہ بھی زیادہ نہ چل سکا تو قندیل نے شوبز میں آنے کی ٹھانی۔

اس کے خیال میں وہ شوبز کا حصہ بن کے دولت اور شہرت سمیٹ سکتی تھی اور پھر معاشر ہ ا سے شاید وہ مقام دے دے گا کہ جس کا مطالبہ وہ کر رہی تھی وہ جینا چا ہتی تھی سب کی آنکھ کا تارا بن کے۔ یہی خوش فہمی اسے پاکستان آئیڈل میں آ ڈ یشن دلوانے لے گئی مگر یہاں اس کی آواز اس کے راستے کی دیوار بن گئی ،مایوس ہونے کے بعدقندیل نے اسٹیج ڈراموں میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا۔ ڈراموں میں قندیل کو چھوٹے چھوٹے رول ملنے شروع ہو گئے ،مگر کوئی بہتر مقام حاصل نہ کر سکی۔

پھر قندیل نے ایک نئی حکمت عملی اپنائی اس نے بھڑکیلے لباس پہنے انگریزی کے جملے سیکھے بے ہودہ فقرے اپنی روز مرہ کی زبان میں شامل کیے اس وقت کوئی غیرت مند بھائی آگے نہیں بڑھا کہ اس باغی لڑکی سے اس کا اصل دکھ پو چھ سکتا پوچھنے کی ضرورت بھی کیا تھی بھائیوں کو تو پیسے سے غرض تھی اس لیے غیرت کو گھاس چرنے بھیج دیا گیا تھا ،رہی بات سماجی بھائیوں کی تو وہ تو قندیل کی وڈیوز سے تفریح بھی کر رہے تھے اور اسے گالی دے کے اپنی شرافت کا ثبوت بھی دے رہے تھے ۔

ان کو تو اصل جھٹکااس وقت لگا جب قندیل جیسی گندی عورت نے ایک مفتی کی ٹوپی پہن کر معاشرے یہ بتانے کی کوشش کی کہ آپ جن کو اللہ کاخاص نمائندہ سمجھتے ہیں ان کے اصل چہرے کیا ہیں اخلاقیات کی تبلیغ کرنے والے خود کتنے مضبوط کردار کے مالک ہیں ،قندیل کی وجہ شہرت یا اس کی موت کا سبب سوشل میڈیا کی ویب سائیٹ فیس بک بنی ۔قندیل جب مین سٹریم شوبز کاحصہ بننے میں ناکام رہی تو اس نے سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں خاص طور پر نیک مردوں کی رومانوی تصورات سے سجی دنیا کو نشانہ بنانے کی ٹھانی اور پھر ان نیک بندوں کی وجہ سے قندیل کو سات سات لاکھ لائک ملے ۔

اسی دوران قندیل نے مفتی قوی جیسی نیک ہستی کی رومانوی دنیا میں انٹری کا سوچا اور مفتی صاحب کے کمرے میں جا کر نہ صرف سیلفیاں بنائیں بلکہ انہیں پبلک بھی کر دیا جس پر کچھ پارسا لو گوں کا کہنا ہے کہ قندیل بلیک میلر تھی اسے قتل ہی ہونا تھا۔انہی سیلفیوں کی وجہ سے بھائی کی سوئی غیرت بھی جاگ گئی اورقندیل کو ہمیشہ کے لیے سلا دیا گیا ،اور آج فیس بک نے قندیل کا اکاونٹ معطل کر دیا ہے۔

میرے بس میں ہوتا تو میں خداسے گزارش کرتی کہ قندیل کو کچھ مہلت دو اور اسے فیس بک پہ وہ سب کچھ اپ لوڈکرنے دو جس سے میرے سماج کی خود ساختہ اخلاقیات کا پول کھل سکے اور پھر ہم منٹو اور قندیل جیسے آئینے توڑنے کی ہمت نہ کریں جو سماج کا اصل چہرہ ہمیں دکھاتے ہیں ،بلکہ ہم سماج کی ان برائیوں اور سچائیوں کا سامنا کر سکیں ،انسانی جبلی خواہشات کو پورا کرنے کے بہتر راستے کا انتخاب کر سکیں نہ کے سب کے سامنے نیکو کار اور چھپ کے ان اخلاقیات کی دھجیاں اڑایں جن کا درس دینے میں ہم پیش پیش ہوتے ہیں ،کاش اس سماج میں ا خلا قیات ناپنے کا آلہ عام ہو جائے تو شائد قندیل قتل ہو نا بند ہو جائیں ۔

3 Comments